کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

یہ مضمون اس مشہور منکر و مضطرب قصے کے رد میں ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پیشاب کو ایک خادمہ نے پی لیا اور آپ ﷺ نے اسے جہنم سے بچاؤ یا بیماریوں سے شفا کی خوشخبری دی۔

یہ روایت بظاہر بعض سنن و کتب میں آئی ہے مگر:

  1. اس کی سند میں مجہول راویہ ہے۔

  2. اس کا ناقل راوی آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہوا۔

  3. متن میں سخت اضطراب ہے (کبھی صرف پیالے کا ذکر، کبھی "پی لینا”، کبھی "جہنم سے ڈھال”، کبھی "پیٹ کی بیماری نہیں” …)۔

لہٰذا اس مضمون میں ہم ان تینوں علّتوں کو بالتفصیل بیان کریں گے اور واضح کریں گے کہ یہ روایت ناقابلِ قبول ہے۔

اصل روایت

عربی متن (بیہقی/ابنِ أبی عاصم کے طریق سے):
13406 – «… عن حُكَيْمَةَ بنتِ أمَيْمَة، عن أمَيْمَة أمِّها: أنَّ النبيَّ ﷺ كان يَبُولُ في قَدَحٍ من عيدانٍ، ثم يضعه تحت سريره… فجاء فأراده، فإذا القدحُ ليس فيه شيء، فقال لامرأةٍ يقال لها بركة…: “أين البول الذي كان في هذا القدح؟” قالت: شربتُه يا رسولَ الله.»
وبعض الطرق فيها زيادات: «… فقال: لقدِ احتضرتِ من النار بجنّةٍ» / «… لا تشتكي بطنَك…»
حوالہ: السنن الكبرى للبيهقي (مواضع الباب)، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (بالمعنى).

ترجمہ:
أمَیمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں لکڑی کے پیالے میں پیشاب فرماتے اور اسے چارپائی کے نیچے رکھ دیتے۔ ایک دن جب آپ ﷺ نے پیالہ اٹھانا چاہا تو وہ خالی ملا۔ آپ ﷺ نے برکہ نامی خادمہ (امّ حبیبہؓ کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی) سے پوچھا: ”اس پیالے میں جو پیشاب تھا وہ کہاں گیا؟“ اس نے جواب دیا: ”میں نے پی لیا، یا رسول اللہ!“ (بعض روایات میں اضافہ ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے جہنم سے ڈھال حاصل کر لی“، یا ”اب پیٹ کی بیماری نہ ہوگی“۔)

یہ ”زیادتی“ ہی آگے متنی اضطراب کی بڑی دلیل بنے گی۔

سندی علّتیں

1) راویہ حُكَيْمَة بنت أميمةمجہول الحال

  • ابن حجر (تقریب):
    عربی: «حكيمة بنت أميمة: لا تُعرف، من الثالثة، د س.»
    ترجمہ: ”حکیمہ بنت أمیمہ نامعلوم/مجہول ہے؛ طبقہ ثالثہ کی راویہ؛ ابو داود و نسائی میں ذکر آئی ہے۔“
    حوالہ: تقريب التهذيب.

  • ذہبی (میزان):
    عربی: «فهي غير معروفة، روى عنها ابنُ جريج بصيغة (عن)
    ترجمہ: ”یہ غیر معروف ہے؛ اس سے صرف ابنِ جریج نے عن کے صیغے سے روایت کیا۔“
    حوالہ: ميزان الاعتدال.

  • ابن الملقن:
    عربی: «… فالاضطراب مانع من تصحيحه… وجهالةُ حكيمة بنت أميمة؛ فإنه لا يُعرف لها حال.»
    ترجمہ: ”(اس باب میں) اضطراب صحت کا مانع ہے… اور حکیمہ بنت أمیمہ مجہول الحال ہے، اس کا حال معلوم نہیں۔“
    حوالہ: البدر المنير.

  • مناوی:
    عربی: «وهو ضعيف؛ فيه حكيمة وفيها جهالة؛ فإنه لم يروِ عنها إلا ابن جريج، ولم يذكرها ابن حبان في الثقات.»
    ترجمہ: ”یہ ضعیف ہے؛ اس میں حکیمہ ہے اور وہ مجہول ہے؛ اس سے ابنِ جریج کے سوا کسی نے روایت نہیں کی؛ ابنِ حِبّان نے اسے ثقات میں نہیں لیا۔“
    حوالہ: فيض القدير.

  • ابن کثیر (زیادتی کی نفی):
    عربی: «… وهو إسناد مجهول… وأخرجه أبو داود والنسائي من حديث حجاج عن ابن جريج وليس فيه قصةُ بركة
    ترجمہ: ”یہ مجہول سند ہے؛ ابو داود و نسائی کے حجاج عن ابن جریج طریق میں ’برکہ کے پی لینے‘ کی بات سرے سے نہیں۔“
    حوالہ: الفصول في السيرة.

تنبیہ برِ دعویٰ توثیق: ”دارقطنی نے حکیمہ کو ثِقہ کہا“ — ثابت نہیں؛ ابن الملقن نے صراحتاً نفی کی۔ ذہبی کا ”فصلُ النسوة المجهولات“ توثیق نہیں؛ سیوطی/البانی نے واضح کیا کہ ایسی خواتین کی کمزوری جہالت ہی ہے—متابعات میں کبھی نظر ہو سکتی ہے، مستقل احتجاج نہیں۔

2) راوی حَجَّاج بن محمد المصیصیآخرِ عمر میں اختلاط

  • ابن حجر (تقریب):
    عربی: «ثقة ثبت، لكنه اختلط في آخر عمره لما قدم بغداد
    ترجمہ: ”(حجاج) ثقہ ثبت ہے؛ لیکن آخری عمر میں بغداد آ کر اختلاط کا شکار ہوا۔“
    حوالہ: تقريب التهذيب.

  • امام احمد (علل):
    عربی: «كان اختلط بآخره
    ترجمہ:آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا۔“
    حوالہ: العلل ومعرفة الرجال (لعبد الله بن أحمد).

  • ابن سعد (طبقات):
    عربی: «تغيّر حين قدم بغداد فمات على ذلك.»
    ترجمہ: ”جب بغداد آیا تو متغیر (مختلط) ہو گیا، اور اسی حال پر وفات ہوئی۔“
    حوالہ: الطبقات الكبرى.

نتیجۂ سند:
راویہ مجہول، راوی مختلط؛ ایسے حال میں ”پیشاب پینا“ جیسی شدید نکارت والی زیادت کا قابلِ احتجاج ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر سنن میں صرف ”قدح/پیالہ“ کا سرسری ذکر آتا ہے، ”شرب“ کی زیادت نہیں—جو اختلاط اور تفردِ مجہول کی طرف صریح اشارہ ہے۔

3) علتِ سوم: متن میں شدید اضطراب

یہ روایت صرف ایک ہی صورت پر نہیں ملی بلکہ مختلف متون میں ایک دوسرے سے متضاد اضافے ہیں:

  1. بعض طرق میں صرف یہ کہ: نبی ﷺ پیالے میں پیشاب کرتے اور چارپائی کے نیچے رکھتے۔

  2. بعض میں زیادت: برکہ نامی خادمہ نے پیشاب پی لیا۔

  3. بعض میں ایک اور زیادت: آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے جہنم سے ڈھال بنا لی“۔

  4. بعض میں مختلف اضافہ: ”اب تمہیں پیٹ کی بیماری نہیں ہوگی“۔

🔻 یہ سب ایک دوسرے سے متعارض اور مضطرب ہیں۔

  • ابن الملقن:
    «فالاضطراب مانع من تصحيحه
    (البدر المنير)
    ترجمہ: ”اس روایت میں اضطراب ہے، اور یہی اس کی صحت کے مانع ہے۔“

  • ابن کثیر:
    «… أخرجه أبو داود والنسائي … وليس فيه قصة بركة
    (الفصول في السيرة)
    ترجمہ: ”ابو داود اور نسائی نے یہ روایت نکالی مگر اس میں برکہ کے پیشاب پینے کا واقعہ سرے سے نہیں ہے۔“

یعنی ”پی لینا“ والا حصہ متون میں متفرد اور مضطرب ہے۔

4) بعض لوگوں کے دعووں کی تردید

  1. ”دارقطنی نے حکیمہ کو ثقہ کہا“ → یہ بات ثابت نہیں؛ ابن الملقن نے اس کی نفی کی ہے۔

  2. ”نسائی و ابن حبان نے بھی یہ روایت لائی“ → ان کے ہاں صرف ”پیالے میں پیشاب“ کا ذکر ہے، ”پی لینا“ والا واقعہ نہیں۔

  3. ”ابو داود نے نقل کیا“ → جھوٹ؛ ابو داود میں یہ قصہ نہیں۔

  4. ”حاکم نے مستدرک میں ذکر کیا“ → حاکم اپنی تصحیح میں متساہل ہیں اور ذہبی نے بھی یہاں سخت تسامح سے موافقت کی۔

  5. ”ہیثمی نے حکیمہ کو ثقہ کہا“ → ہیثمی کا تسامح معروف ہے؛ جمہور نے اس کو مجہول کہا ہے۔

  6. ”ذہبی نے مجہول میں شامل کیا مگر مطلق ترک نہیں کیا“ → ذہبی نے صراحتاً کہا: «فهي غير معروفة» (میزان الاعتدال)؛ یعنی وہ غیر معروف ہے۔

5) کیا حافظ ابن حجر نے حکیمہ کی توثیق کی ہے؟

الجواب:
حافظ ابن حجر نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے:

عربی:
«8565 – حكيمة بنت أميمة لا تُعرف من الثالثة، د س.»
(تقريب التهذيب)

ترجمہ:
حکیمہ بنت اُمیمہ نامعلوم (مجہول الحال) ہے، طبقہ ثالثہ کی راویہ ہے، ابو داود و نسائی نے اس سے روایت کی ہے۔

➝ پس حافظ ابن حجر نے یہاں کسی بھی قسم کی توثیق نہیں کی بلکہ صاف کہا کہ یہ لا تُعرف = غیر معروف ہے۔

6) اصولی قاعدہ:

ایسا راوی/راویہ جس سے صرف ایک ہی محدث روایت کرتا ہو، وہ مجہول الحال رہتا ہے، اگرچہ کسی طرف سے اس کی توثیق نقل بھی ہو جائے۔

حافظ ابن حجر نے مثال کے طور پر اخنس بن خلیفہ کے بارے میں کہا:

عربی:
«ولا يلزم من ذلك أن يكون الرجل ثقة، إذ حاله غير معروفة، ورواية ابنه عنه فقط لا ترفع جهالة حاله…»
(لسان الميزان 1/352)

ترجمہ:
اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ شخص ثقہ ہو، کیونکہ اس کا حال نامعلوم ہے۔ اگر صرف اس کے بیٹے نے اس سے روایت کی ہے تو اس کی جہالت حال ختم نہیں ہوتی، اگرچہ جہالت عین (یعنی بالکل مجہول شخصیت ہونا) دور ہو جاتی ہے۔

➝ پس حکیمہ بنت اُمیمہ بھی ایسی ہی ہے: اس سے صرف ابن جریج روایت کرتا ہے، اس لیے وہ مجہول الحال ہی رہے گی۔

7) کیا حافظ ذہبی نے اس مجہول عورت کی توثیق کی ہے؟

الجواب:
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس عورت کو مجہول قرار دیا اور اس کی پیشاب والی روایت کو اس کی منکرات میں شمار کیا:

عربی:
«2232 – حكيمة بنت أميمة… فهي غير معروفة. روى عنها هذا ابن جريج بصيغة عن.»
(ميزان الاعتدال 7/323)

ترجمہ:
حکیمہ بنت اُمیمہ غیر معروف ہے۔ اس سے صرف ابن جریج نے ”عن“ کے صیغے سے روایت کیا ہے۔

➝ اس لیے حافظ ذہبی کے نزدیک بھی یہ عورت مجہول ہے، نہ کہ ثقہ۔

8) بریلوی شبہ کا جواب:

ایک بریلوی اسد المداری کہتا ہے کہ حافظ ذہبی نے میزان میں باب باندھا:
«وما علمت في النساء من اتهمت ولا من تركوها.»

اور اس باب میں حکیمہ کو شامل کیا، تو گویا یہ خواتین ”مقبول“ ہیں۔

جواب:

  • یہ ذہبی کی شرطِ باب ہے کہ خواتین میں ایسی نہیں جن پر کذب یا ترک کی سخت جرح ہو۔

  • اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ثقہ ہیں، بلکہ ان کی کمزوری کی اصل وجہ جہالت ہے۔

علامہ سیوطی کی وضاحت:
«وجميع من ضعف منهن إنما هو للجهالة
(تدريب الراوي 2/259)
➝ یعنی خواتین کی تضعیف کی اصل وجہ ان کا مجہول ہونا ہے۔

البانی کی وضاحت:
«ليس معنى كلام الذهبي هذا إلا أن حديث هؤلاء النسوة ضعيف، ولكنه ضعف غير شديد.»
(سلسلة الأحاديث الضعيفة 2/138)
➝ یعنی ذہبی کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان عورتوں کی حدیث ضعیف ہے، اگرچہ ضعف شدید نہیں۔

➝ پس حکیمہ بنت اُمیمہ کی روایت مستقل حجت نہیں، صرف بعض متابعات و شواہد میں دیکھی جا سکتی ہے۔

خلاصہ و نتیجہ

  • "پیشاب پینے” والی روایت سنداً سخت ضعیف ہے:

    • اس کی راویہ حُكَيْمَة بنت أُميمة کو جمہور محدثین (ابن حجر، ذہبی، مناوی، ابن الملقن، ابن القطان) نے مجہول کہا ہے۔

    • ناقل راوی حَجّاج بن محمد المصیصی اپنی آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا۔

  • روایت متناً بھی سخت مضطرب ہے:

    • کبھی صرف پیالے کا ذکر، کبھی "پی لینا”، کبھی "جہنم سے ڈھال”، کبھی "پیٹ کی بیماری نہیں” …

    • یہ سب ایک دوسرے سے متضاد اضافے ہیں، اس لیے صحت کے منافی ہیں۔

  • دعوے کہ "ابو داود، نسائی، ابن حبان یا دارقطنی” میں یہ روایت ہے — جھوٹ یا مغالطہ ہیں؛ وہاں صرف "قدح میں بول” کا ذکر ہے، پی لینا نہیں۔

  • حافظ ذہبی و ابن حجر نے بھی اسے غیر معروف قرار دیا، کسی معتبر محدث نے اسے مستقل حجت نہیں مانا۔

➝ نتیجہ: یہ روایت ناقابلِ قبول ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس کے خلاف ایسی منکر و مضطرب زیادت کو بیان کرنا گمراہی ہے۔

اہم حوالوں کے سکین

کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 001 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 002 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 003 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 004 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 005 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 006 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 007 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 008 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 009 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 010 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 011 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 012 کیا نبی ﷺ کے پیشاب پینے والی روایت صحیح ہے؟ ایک علمی تحقیق – 013

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے