بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ “نبی ﷺ کا کسی چیز کو نہ کرنا (ترک) اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عمل حرام ہے، جب تک اس کی حرمت پر کوئی صریح دلیل نہ ملے۔ لہٰذا نئی بدعات کو محض اس بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ نبی ﷺ نے وہ عمل نہیں کیا۔”
اس مضمون میں ہم اس شبہے کا جائزہ لیں گے اور دکھائیں گے کہ نبی ﷺ کا ترک کرنا بذاتِ خود سنت ہے، اور ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔
بدعت کے جواز میں بریلوی شبہ
“رسول اللہ ﷺ نے جو عمل نہیں کیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمل حرام ہے، بلکہ اس کے جواز کا امکان ہے۔ لہٰذا ہم نئی بدعات ایجاد کر سکتے ہیں اور یہ ‘بدعتِ حسنہ’ ہوں گی۔”
اس بریلوی شبہ کا جواب
➊ دین کی تکمیل کا اعلان
اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا:
عربی:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی﴾
ترجمہ: “آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔”
حوالہ: سورہ المائدہ: 3
📌 جب دین مکمل ہو گیا تو اس کے بعد کوئی نئی عبادت ایجاد کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
➋ نبی ﷺ کی سنت: ترک بھی ایک سنت ہے
عبادت دو طرح کی سنت پر مبنی ہے:
-
سنت فعلية (جو نبی ﷺ نے کیا)
-
سنت تركية (جو نبی ﷺ نے قصداً چھوڑ دیا)
مثلاً:
-
نبی ﷺ نے عید کی نماز کے لئے اذان نہیں دی، حالانکہ اذان ذکر ہے۔
-
جنازے کے لئے بھی اذان نہیں دی۔
📌 اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مقامات پر اذان دینا بدعت ہے۔
امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فأما ما اتفق السلف على تركه فلا يجوز العمل به؛ لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا يعمل به.»
ترجمہ: “جس چیز کو سلف نے بالاتفاق چھوڑ دیا، اس پر عمل کرنا جائز نہیں، کیونکہ انہوں نے اسے علم کے ساتھ چھوڑا کہ اس پر عمل نہیں کیا جانا چاہئے۔”
حوالہ: جامع العلوم والحكم (ص 233)
➌ نبی ﷺ کا واضح فرمان
نبی ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
ترجمہ: “جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں تو وہ مردود ہے۔”
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث: 1718)
📌 اس سے پتہ چلا کہ صرف نبی ﷺ کے طریقے پر ہونے والا عمل ہی دین ہے۔
➍ مثالیں
-
نماز کے بعد اجتماعی دعا: نبی ﷺ نے کبھی نہیں کی، حالانکہ دعا بہت افضل ہے۔ اس کا چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اجتماعی شکل بدعت ہے۔
-
اذان برائے عیدین یا جنازہ: نبی ﷺ نے نہیں دی، اس لئے دین میں اس کو شامل کرنا بدعت ہے۔
➎ علما کی وضاحت
امام ابن القيم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ومن هاهنا يعلم أن القول باستحباب ذلك خلاف السنة؛ فإن تركه سنة كما أن فعله سنة.»
ترجمہ: “یہاں سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے استحباب کا قول سنت کے خلاف ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا ترک بھی سنت ہے، جیسے ان کا فعل سنت ہے۔”
حوالہ: إعلام الموقعين (2/281)
خلاصہ
-
نبی ﷺ کا ترک کرنا بھی سنت ہے، اور جس عبادت کو آپ ﷺ نے قصداً چھوڑا، اسے دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔
-
دین مکمل ہو چکا ہے؛ اس لئے نئی عبادات ایجاد کرنا شریعت سازی ہے۔
-
صحابہ اور سلف نے اسی اصول پر بدعات سے سختی سے روکا۔
-
اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ “نبی ﷺ کا نہ کرنا دلیلِ حرمت نہیں” — بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ کا نہ کرنا بذاتِ خود دلیل ہے کہ وہ عبادت نہیں ہے۔