کیا نبیﷺ نے بدر کے کافر مقتولوں کا ٹھکانہ پہلے بتلا دیا تھا ؟
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کافر مقتولوں کے قتل ہونے کی جگہ کی پہلے ہی سے نشاندہی فرما دی تھی۔ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم غیب ہونا ثابت نہیں ہوتا ؟
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں قتل ہونے والے کافروں کے نام لے کر یہ بات بتائی تھی کہ یہ فلاں کا مقتل ہے، یہ فلاں کے قتل کی جگہ ہے، یہاں فلاں آدمی مارا جائے گا وغیرہ اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا بالکل اسی طرح ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی جگہ قتل ہوا تھا۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان کے آنے کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی اعراض کیا، پھر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے پوچھنا چاہتے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر آپ ہمیں حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دیں کہ ہم انہیں برک الغماد تک دوڑا دیں تو ہم ایسا ضرور کریں گے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں انہیں قریش کے پانی پلانے والے ملے اور ان میں بنی حجاج کا ایک سیاہ غلام بھی تھا، انہوں نے اسے پکڑ لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھ کچھ کی تو اس نے کہا: ’’ مجھے ابوسفیان کا علم نہیں لیکن ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ “ جب اس نے یہ کہا: تو صحابہ اس کو مارنے لگے : ’’ تو وہ کہنے لگا ’’ میں تمہیں ابوسفیان کے متعلق بتاتا ہوں۔ “ جب انہوں نے اسے چھوڑا اور ابوسفیان کے متعلق پوچھا: تو اس نے کہا: ’’ مجھے ابوسفیان کا علم نہیں لیکن ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ “ جب اس نے یہ بات کہی تو صحابہ نے پھر مارنا شروع کیا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھرے اور فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑتے ہو۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هذا مصرع فلان قال : ويضع يده على الارض ههنا ههنا قال : فما ماط احدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم
’’ یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے اور ہاتھ زمین پر رکھا، یہ فلاں کے گرنے کی جگہ، یہاں فلاں مرے گا۔ صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا وہاں سے کوئی بھی نہ ہٹا (یعنی اس جگہ ہی وہ شخص مرا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس کے قتل ہونے کی جگہ ہے )۔ “ [مسلم كتاب الجهاد اوالسير : بات غزوة بدر : 1779]
یہی حدیث صحیح مسلم میں دوسری جگہ ان الفاظ سے مروی ہے۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے۔ ہم سب چاند دیکھ رہے تھے اور میں تیز نگاہ والا تھا، میں نے چاند دیکھ لیا اور میرے علاوہ کسی نے نہ دیکھا۔ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا : “ انہیں دکھائی نہ دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’ میں عنقریب دیکھوں گا “ اور میں اپنے بچھونے پر چت لیٹا تھا پھر انہوں نے ہم سے بدر والوں کے متعلق دریافت کرنا شروع کیا۔ فرمایا :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس يقول : هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله قال : فقال عمر : فوالذي بعثه بالحق ما اخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه وسلم
’’ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کل کے دن ( یعنی لڑائی سے ایک دن پہلے ) بدر والوں کے گرنے کا مقام بتانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ’’ اگر اللہ نے چاہا تو فلاں شخص کل یہاں مرے گا۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ! جو حدیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی متعین کی تھی وہ وہاں سے نہ ہٹے (یعنی ہر کافر اسی جگہ مارا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی)۔ “
علاوہ ازیں یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مسند احمد : 1/ 26، ابوداؤد، کتاب الجہاد، نسائی کتاب الجنائز اور تفسیر ابن کثیر میں آیت و اذ يعدكم الله احدي الطائفتين انها الكم… کے تحت ان الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔
والله لكاني الان انظر الي مصارع القوم
[عيون الاثر في فنون المغازي والشمائل والسير لابن سيد الناس 328/1]
’’ اللہ کی قسم ! گویا کہ میں اب قوم کے گرنے کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ “
معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات غیب کی خبریں دیتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ علم غیب اور اخبار غیب میں بڑا فرق ہے۔ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ [27-النمل:65]
’’ آپ کہہ دیں کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا “۔ [النمل : 65]
✿ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ [6-الأنعام:59]
’’ اور اسی (اللہ تعالیٰ) کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنہیں صرف وہی جانتا ہے۔ “
پتا چلا کہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے