سوال :
کیا نابینے شخص سے پردہ ہے؟ اگر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزارنے کی جو اجازت دی اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیدہ ام سلمہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہما کو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے پردے کا حکم دیا تھا، اس کا کیا مطلب ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب :
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور آپ کے پاس میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں کہ عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور یہ معاملہ حجاب کا حکم ملنے کے بعد کا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں اس سے حجاب کرو۔“ ہم نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! کیا یہ نابینا نہیں؟ نہ دیکھتا ہے اور نہ پہچانتا ہے۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اندھی ہو، کیا تم اسے نہیں دیکھتیں؟“
(ابو داود کتاب اللباس باب في قوله تعالى وقل للمؤمنات ح 4112، مسند أحمد 296/6 ح 27072، ترمذی ح 2778، 2878 وقال حسن صحیح، ابن حبان ح 5575) یہ روایت مولی ام سلمہ کی وجہ سے حسن ہے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو عمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے انھیں طلاق بتہ دی (یعنی تیسری طلاق، جس کے بعد میاں بیوی کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے) اور وہ غائب تھا (یمن کی طرف چلے گئے تھے) اس نے فاطمہ کی طرف اپنے وکیل کو بھیجا، وہ ناراض ہو گئیں۔ اس نے کہا: ”اللہ کی قسم! تیرا ہمارے اوپر کوئی حق نہیں۔“ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے یہ بات ذکر کی، آپ نے فرمایا: ”تیرے لیے اس کے ذمہ کوئی نان و نفقہ نہیں۔“ آپ نے اسے حکم دیا کہ ام شریک کے گھر عدت گزارے، پھر فرمایا: ”یہ عورت ہے، میرا صحابی اس کے پاس آتا جاتا ہے، تم عبد اللہ ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار لو اور وہ نابینا آدمی ہے، تم وہاں اپنے کپڑے اتار سکو گی، جب تیری عدت پوری ہو جائے تو مجھے اطلاع کرنا۔“ کہتی ہیں جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے آپ سے تذکرہ کیا کہ معاویہ بن ابو سفیان اور ابو جہم نے مجھے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو جہم تو اپنے کندھے سے اپنی لاٹھی نہیں اتارتا اور معاویہ غریب آدمی ہے، اس کے پاس مال نہیں، تو اسامہ بن زید سے نکاح کر لے۔“ کہتی ہیں: ”میں نے اسے ناپسند کیا۔“ آپ نے پھر فرمایا: ”تو اسامہ کے ساتھ نکاح کر لے۔“ میں نے اس سے نکاح کر لیا، اللہ نے اس نکاح میں خیر و برکت ڈال دی اور اس پر میرے ساتھ رشک کیا جانے لگا۔
(صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقة الباينة لا نفقة لها ح 1480، ابو داود کتاب الطلاق باب في نفقة المبتوتة ح 2284)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نابینے سے حجاب کا حکم جس حدیث میں ہے وہ ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما والی ہے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا واقعہ ہے۔ نابینے کے ہاں عدت گزارنے کا مسئلہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا تھا، وہ ام المومنین نہیں ہیں۔ اب رہا نابینے سے عورت کے حجاب کا مسئلہ تو امام ابو داود رحمہ اللہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے تحت رقمطراز ہیں: ”نابینے سے حجاب کا مسئلہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، کیا تم عبد اللہ ابن ام مکتوم کے ہاں فاطمہ بنت قیس کی عدت گزارنے کی طرف نہیں دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس سے کہا: ”تو عبد اللہ ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار لے، وہ نابینا آدمی ہے، تم اس کے ہاں اپنا لباس اتار سکو گی۔“
(ابو داود تحت الحدیث 4112)
گویا امام ابو داود رحمہ اللہ کے ہاں نابینے سے حجاب ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا اور عام عورتوں کے لیے اس کی رخصت ہے۔ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اجنبی مرد کی طرف دیکھنا مطلق طور پر حرام ہے اور بعض علماء نے اسے خاص کیا ہے کہ جب عورت پر فتنے کا خوف ہو (اس وقت حرام ہے)، تاکہ اس حدیث اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی میشوں کا کھیل دیکھنے والی حدیث کے درمیان تطبیق ہو جائے اور جنھوں نے مطلق طور پر حرام کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ حجاب کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور صحیح ترین بات یہ ہے کہ عورت کا مرد کی طرف ناف سے اوپر اور گھٹنوں سے نیچے بلا شہوت دیکھنا جائز ہے اور یہ حدیث درع و تقویٰ پر محمول ہے۔
(تحفة الأحوذي 65/8)
گویا مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کے ہاں درع و تقویٰ میں تو اس میں ہے کہ عورت اجنبی مرد کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرے، نابینے سے بھی حجاب کرے اور اسے نہ دیکھے، اگر چہ شہوت کے بغیر عورت اجنبی مرد کی طرف نظر کر سکتی ہے۔ (واللہ أعلم)