بسم الله الرّحمن الرّحيم
قرض دار شخص پر قربانی لازم ہے یا نہیں؟ – ایک شرعی تحقیق
آپ کا سوال انتہائی اہم اور نیک نیت پر مبنی ہے کہ:
"کیا قرض دار شخص پر قربانی لازم ہے؟”
اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کا جواب صرف قرآن، صحیح احادیث اور اجماعِ صحابہ سے دیا جائے، بغیر کسی فقہی اقوال یا فتاویٰ کے۔ چلیے ہم اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں:
✦ 1. رہنمائی قرآنِ مجید سے
قرآن میں قربانی کا ذکر:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔‘‘
[الكوثر: 2]
- یہ آیت عمومی ہدایت پر مشتمل ہے۔
- اس میں قربانی کی فرضیت کا حکم موجود نہیں بلکہ قربانی سے محبت اور اس کی فضیلت کا بیان ہے۔
✦ 2. دلائل صحیح احادیث سے
قربانی: واجب یا سنت؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مَن كانَ له سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانا.”
’’جس کے پاس وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘
[سنن ابن ماجه: 3123 | صححه الألباني]
- یہاں "سَعَةٌ” یعنی مالی وسعت شرط کے طور پر بیان کی گئی ہے۔
- جو صاحبِ وسعت نہیں، جیسے تنگ دست یا مقروض، وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔
نبی ﷺ نے مقروض کو قربانی کا حکم نہیں دیا:
- نبی کریم ﷺ سے ایسا کوئی حکم ثابت نہیں کہ آپ نے کسی مقروض یا تنگ دست کو قربانی کا مکلف ٹھہرایا ہو۔
قربانی کی ترغیب میں "وسعت” کا ذکر موجود ہے:
حضرت جابرؓ سے روایت ہے:
"شَهِدْتُ معَ رسولِ اللهِ ﷺ الأضحى بالمصلّى، فلمّا قضى خطبتَه نزلَ من منبرِه وأتى بكَبْشٍ فذبحَه، وقال: بسمِ اللهِ واللهُ أكبرُ، هذا عنّي وعمّن لم يُضحِّ من أمّتي.”
’’میں نبی ﷺ کے ساتھ عید الاضحی میں شریک ہوا، آپ نے قربانی کی، اور فرمایا: یہ قربانی میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔‘‘
[سنن أبي داود: 2810 | حسن]
- اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن کے پاس قربانی کی استطاعت نہیں تھی، ان کی طرف سے نبی ﷺ نے خود قربانی ادا کی۔
- یہ دلیل ہے کہ قربانی ان پر لازم نہیں تھی۔
✦ 3. اجماعِ صحابہ سے رہنمائی
صحابہ کرامؓ کا عمل:
- صحابہ کرامؓ کے درمیان قربانی کے واجب ہونے یا نہ ہونے پر اختلاف تھا۔
- لیکن یہ بات متفق علیہ تھی کہ:
"جو تنگ دست ہو یا صاحبِ استطاعت نہ ہو، اس پر قربانی لازم نہیں۔”
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں روایت ہے:
"أنَّ أبا بكرٍ وعمرَ رضيَ اللَّهُ عنهُما، كانَا لا يُضحِّيانِ مخافةَ أن يُرى أنَّها واجبةٌ.”
’’ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما قربانی نہیں کرتے تھے، اس خوف سے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔‘‘
[مصنف ابن أبي شيبة: 9856 | إسناد صحيح]
- جب ان جلیل القدر صحابہ نے قربانی ترک کی تاکہ لوگ اس کو لازم (فرض) نہ سمجھ لیں، تو یہ واضح دلیل ہے کہ قربانی ہر حال میں لازم نہیں۔
- بلکہ استطاعت (وسعت) شرط ہے۔
✦ نتیجہ اور شرعی خلاصہ:
- قرآن: صرف ترغیب دیتا ہے، فرضیت کا حکم نہیں دیتا۔
- صحیح حدیث: صرف صاحب وسعت پر زور ہے، مقروض یا تنگ دست اس حکم میں داخل نہیں۔
- اجماعِ صحابہ: یہاں بھی یہی مفہوم ظاہر ہے کہ قربانی صاحبِ استطاعت پر ہے، نہ کہ ہر مسلمان پر۔
✦ شرعی نتیجہ:
قرض دار یا تنگ دست شخص پر قربانی لازم نہیں، جب تک کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے برابر مال باقی نہ ہو۔