دین میں فقہ کا مقام
فرماتے ہیں جس طرح منکرین حدیث کا اعتراض حدیث کے خلاف غلط ہے‘ اسی طرح آپ کا سوال فقہ کے خلاف غلط ہے۔ کیونکہ جس طرح حدیث قرآن مقدس کی تشریح ہے بعینہ اسی طرح فقہ قرآن و حدیث کی تشریح و توضیح کا نام ہے، قرآن کی وضاحت جب پیغمبرﷺ اپنے لفظوں میں بیان فرماتے ہیں اسے حدیث کہا جاتا ہے اور جب امام فقیہ‘ مجتہد قرآن وحدیث کو اپنے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں تو اسے فقہ کہتے ہیں‘ فقہ قرآن وحدیث سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 36)
الجواب:-
اولا:-
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم دین کے معاملات میں جو کچھ بھی کہتے یا عمل کرتے وہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی کے ذریعہ سے ہوتا تھا‘ جسے وحی غیر متلو کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مزید سنیٔے ارشاد ربانی ہے کہ
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (سورہ القٰیمتہ :19-16)
تم اس کے ساتھ اپنی زبان نہ ہلایا کرو تا کہ اسے جلدی یاد کرو‘ اس کا جمع کر دینا اور اس کو پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے، پس جب ہم پڑھیں تو اس کی قرآت کی پیروی کیا کرو پھر بیان کرا دینا ہمارے ذمے ہے‘
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو قرآن کے علوم و معارف سکھانے کا ذ مہ اللہ تعالی نے لیا تھا‘ مزید سنیٔے
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (سوره الخل: 44)
یعنی ہم نے آپ پر یہ ذکر ( قرآن ) اتارا تا کہ تم لوگوں کے سامنے اسے کھول دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے‘ تا کہ وہ غور و فکر کریں۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی تشریح و توضیح کا اللہ تعالی کی طرف سے حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو حق دیا گیا اور نزول قرآن کے وقت امت مرحومہ کے لیے مشکل اور مجمل مقامات کا حل بھی رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم بیان کرنے کے مکلف تھے۔ جیسا کہ الفاظ لتبین‘‘ کا مقصد ہے۔
اب آپ نے امام و مجتہد کی فقہ کو بعینہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کی حدیث کی طرح قرار دیا ہے کہ نبی ﷺ وحی کی تفسیر کریں تو حدیث ہوتی ہے‘ اور امام قرآن وحدیث کی تفسیر کرے تو فقہ ہوتی ہے‘ راقم عرض کرتا ہے کیا مجتہدین پر وحی نازل ہوتی تھی کہ آپ ان کی تفسیر کو بعینہ نبوی تفسیر کی طرح کہہ رہے ہیں، تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کا قصور کیا ہے‘ جب آپ مجتہدین کی طرف ہی وحی کے قائل ہو گئے۔
ثانیا:-
نبی کی توضیح و تشریح بالفاظ دیگر اس کا قول و فعل اور فتویٰ غیر مشروط ہوتا ہے، غیر مشروط سے مراد یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں نبویﷺ تفسیر و توضیح حق ہی حق ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہو تا، جس کی وجہ سے نبیﷺ کے تمام اقوال و افعال کو قبول کرنا لازم و ضروری اور تمام فرائض سے اہم فریضہ ہے‘ اس سے انحراف دین وملت سے بغاوت اور کفر محض ہے۔ جبکہ مجتہدین کے اقوال و اجتہادات میں حنفیہ خود بھی صواب و خطاء دونوں احتمال کو تسلیم کرتے ہیں‘ جبکہ نبیﷺ دین کی تبلیغ‘ اس کی نشر و اشاعت بلکہ تمام دینی امور میں معصوم ہوتا ہے‘ تو پھر نبویﷺ تفسیر اور مجتہد کی تشریح ایک کیسے ہوئی؟
آپ کے استاذ محترم مولانا سر فراز خاں صاحب صفدر فرماتے ہیں کسی ایک خاص مجتہد کی ایسی تقلید کہ اس کے قول کو حق و صواب سمجھا جائے اور اس سے خطاء اور غلطی کو نا ممکن تصور کیا جائے‘ ایسی تقلید مفضی الی الشرک ہے۔
(الکلام المفید ص 310)
ثالثاً:-
اگر مجتہد کی تفسیر بعینہ تفسیر نبویﷺ کی طرح ہے، تو آپ حضرات عقائد اور اصول میں تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ جیسا کہ آپ کے استاذ محترم نے صراحت کی ہے کہ ہم اصول اور عقائد میں تقلید کو جائز و درست نہیں سمجھتے۔
(الکلام المفيد ص 172‘ 235)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آپ اقوال رسول اور اسوۃ حبیب صلى الله عليه وسلم کو بھی اصول و عقائد میں غیر معتبر جانتے ہیں؟ اگر نہیں یقیناً نہیں، تو پھر یہ بعینہ ایک کس طرح ہوئے‘ معلوم ہوا کہ آپ بے راہ روی کا شکار ہوئے اور عوام کو گمراہ کرنے کا سبب بنے‘ اس سے تو بہ کر لیں‘ ہمارا برادرانہ مشورہ ہے۔
تشریح کسے کہتے ہیں؟
فرماتے ہیں‘ جیسے ہر ہر حدیث قرآن کی آیت سے ثابت نہ ہو سکنے کے باوجود قرآن کی تفسیر بن سکتی ہے‘ اسی طرح فقہ کی ہر ہر جزئی بھی قرآن وحدیث سے صراحناً ثابت نہ ہونے کے باوجود ان کی تشریح بن سکتی ہے۔ تشریح ہمیشہ اس سے زائد ہوتی ہے جس کی تشریح کی جائے ۔ مثلاً کوئی پوچھے کہ قرآن کیا ہے ؟ ذرا سوال پر غور فرمائیں کہ قرآن کیا ہے؟ تو سمجھانے والا اس طرح تشریح کرے گا کہ یہ ایک کتاب ہے جو حضرت محمد صلى الله عليه وسلم پر اللہ تعالی نے نازل کی ہے‘ یہ کتاب لاشک و لاریب ہے‘ تو دیکھئے جس چیز کی تشریح کی گئی وہ لفظ قرآن ہے اور اس کی تشریح میں بہت سے الفاظ محض بات سمجھانے کے لیے بڑھائے گئے ہیں۔ اور بسا اوقات مزید توضیح کے لیے مثال بھی دینا پڑتی ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ تشریح کا ہر ہر لفظ مجھے وہاں دکھاؤ جس کی تشریح کی گئی ہے‘ تو یہ کم عقلی ہو گی، اس لیے جس طرح ہر ہر حدیث کا ثبوت قرآن سے مانگنا کم عقلی ہے‘ بعینہ اسی طرح ہر ہر فقہی جزئی کا ثبوت حدیث سے مانگنا عقل کا قحط عظیم ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 37)
الجواب:-
اولاً:-
تشریح کا مفہوم یہ ہے کہ بات کو کھول کر سمجھانا‘ دیکھیے علمی اردو لغت ص 316‘ کام راغب فرماتے ہیں کہ
(شرح المشكل من الكلام بسطة واظهار ما يخفى من معانيه )
یعنی تشریح کہتے ہیں کلام کے مشکل مقامات کی تفصیل اور مخفی معانی کے اظہار کو‘۔
(المفردات القرآن ص 258)
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ اس چیز کا دین کے معاملہ میں حق اللہ نے محمد ﷺ کو دیا ہے اگر آپ کے پاس کوئی ایسی آیت یا صحیح حدیث ہے جس میں اللہ نے دین کی تشریح و توضیح کا حق امام ابو حنیفہ کو دیا ہے تو وہ پیش کیجیے‘
ثانیا:-
اوپر معلوم ہو گیا کہ تشریح زائد چیز کا نام نہیں بلکہ مخفی چیز کے اظہار کو شرح کہتے ہیں، پھر آپ نے اپنے مؤقف پر جو دلیل قائم کی ہے وہ نری جہالت ہے، بھائی ہم پہلے سورہ انحل کی آیت 44 نقل کر چکے ہیں اس میں محمد عربی صلى الله عليه وسلم پر نزول قرآن کا ذکر ہے‘ اور اس کے لاریب ہونے کے لیے کلام الہی سے سورہ بقرہ کی آیت 1 کا مطالعہ کریں‘ الغرض یہ چیزیں تو قرآن سے ثابت ہیں مگر آپ ان کو زائد کہتے ہیں‘ واہ رے تیری قرآن دانی اور حدیث فہی‘
ثالثاً:-
رہا آپ کا یہ کہنا کہ تمام احادیث قرآن سے ثابت نہیں ، راقم عرض کرتا ہے آپ منکرین حدیث کی طرح پہلے وحی غیر متلو کا انکار کریں پھر یہ اعتراض کریں۔ اگر آپ محمد رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی کے قائل ہیں یقیناً ہیں تو پھر آپ اہل حدیث سے بغض میں اس حد تک نہ جائیں کہ شریعت کے حقائق کا بھی انکار کرتے جائیں۔
آپ ہماری مخالفت ضرور کریں، یہ آپ کا حق ہے جو آپ سے چھینا نہیں جا سکتا مگر خدارا ہمارے ساتھ بغض و تعصب میں آپ دین کا حلیہ مت بگاڑ یئے‘ اس کے سبب سے عوام گمراہ ہوتے ہیں اور قیامت کے روز آپ کو ذ لت اٹھانی پڑے گی‘ اللہ آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
رابعاً:
جو چیزیں حدیث میں زیادۃ علی کتاب اللہ ہیں‘ ان کا تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا اطاعت رسول میں داخل ہے کہ نہیں! اگر داخل ہے یقیناً ہے‘ تو پھر یہ اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہوئی‘ ار شادر بانی ہے
(مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) (النساء:80)
یعنی جس نے اللہ کے رسول کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘
تو کیا آپ قرآن سے کوئی آیت دکھا سکتے ہیں جس میں یہ بیان ہو کہ امام ابو حنیفہ کی ایسے امور میں اطاعت کرنا لازمی و ضروری ہے جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں‘ اور اس سے انحراف کفر ہے کیونکہ یہ اطاعت الہی سے بغاوت ہے ؟ اگر آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ، یقیناً نہیں تو پھر آپ کی مذکورہ تمام تحریر باطل و مردود ہے۔
اہل حدیث کا فقہ سے ناراضگی کا سبب
پہلے اہل حدیث کی طرف سے اعتراض نقل کرتے ہیں کہ فقہ میں چونکہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے یہ لائق عمل نہیں، پھر اس کا جواب رقم کرتے ہیں کہ میرے بھائی! آپ نے شاید چوری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، یہ سوال منکرین حدیث کا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ ہم حدیث کو اس لیے نہیں مانتے کہ حدیث میں اختلاف ہے شیعہ کا کہنا ہے کہ ہم صحابہ کو نہیں مانتے کیونکہ صحابہ میں اختلاف ہے، پادری فانڈر کا کہنا تھا کہ ہم قرآن کو نہیں مانتے کیونکہ قرآن کی قراتوں میں اختلاف ہے‘ اور جناب! آپ کا فرمان ہے کہ فقہ کو اس واسطے نہیں مانتے کہ اس کے مسائل میں اختلاف ہے‘ تو یہ آپ کا کوئی نیا شگوفہ نہیں ہے، بلکہ یہی اعتراض پادریوں کا قرآن پر‘ پرویزیوں کا حدیث پر‘ شیعہ کا صحابہ کرام پر‘ اور منکرین فقہ کا فقہ پر ہے‘ بلکہ میں تو آپ سے ایک بات اور بھی کہوں گا کہ صحیح حدیث کی تعریف میں بھی اختلاف ہے‘ تو آپ صحیح کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے‘ اگر کسی چیز میں اختلاف اس کو چھوڑنے کی وجہ ہو سکتی ہے، تو پھر قرآن و حدیث اور صحابہ کو چھوڑنے والوں پر بھی کوئی ملامت نہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 37,38)
الجواب:
اولاً:-
عیسائی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جانتے، منکرین حدیث‘ اقوال الرسول کو حجت نہیں جانتے‘ اور شیعہ عام صحابہ کے ارتداد کے قائل ہیں ‘ان چیزوں میں اختلاف کے سبب وہ منکر نہیں، جیسا کہ مؤلف باور کرانا چاہتا ہے، بلکہ اس کی ان مذاہب کے بارہ میں نادانی اور جہالت کا واضح ثبوت ہے۔
ثانیاً:
مؤلف تحفہ اہل حدیث کا حق تھاوہ پہلے اختلاف کی تعریف کرتا‘ پھر ان میں اختلاف ثابت کرتا‘ تو ہم ان کا جواب بھی ضرور تحریر کرتے مگر مؤلف تحفہ اہل حدیث نے اس میں ہی عافیت جانی کہ اصل بحث کو ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھا کر خلط مبحث کر کے اپنا مقصود حاصل کیا جائے۔ یقین جانئے کہ مؤلف نام تو پادریوں اور منکرین حدیث کا لیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے ولی خیالات ہی ان پراگندہ افکار و نظریات پر مبنی ہیں، آگے چل کر خود اپنی ذمہ داری سے لکھتا ہے کہ ’’ احادیث مقدسہ میں کافی اختلاف ہے‘‘۔
( تحفہ اہل حدیث ص 57)
ہمیں چوری کا طعنہ دینے والو! خود اپنی حالت پر غور کرو کہ تمہارا حسب و نسب کن لوگوں سے ملتا ہے‘ بہر حال آئیے تحقیق اختلاف کی تحقیق سنیٔے‘ کسی کلام میں تناقض کے لیے آٹھ باتوں میں اتحاد ضروری ہے۔
(1) موضوع (۲) محمول (۳) مکان (۴) شرط (۵) زمانہ (۶) اضافت (۷) جزو کل (۸) بالقوه و بالفعل کے لحاظ سے اگر دو قضیے متفق ہوں مگر ان میں ایجاب وسلب یعنی ہے اور نہیں حکم کے لحاظ سے نیز قضیہ موجہہ میں کیفیت اور محصورہ میں کمیت کا اختلاف ہو تو وہ متناقض کہلائیں گے‘ اہل منطق کا معروف مقولہ ہے۔
در تناقض ہشت و حدت شرط دال
وحدت موضوع و محمول و مکاں
وحدت شرط و اضافت جزو کل
قوت و فعل است در آخر زماں
ان شرائط کو ملحوظ رکھیے اور پوری ذریت دیو بندیت کو ساتھ ملا لیجیے اور منکرین حدیث اور پادریوں کی خدمات بھی حاصل کر لیجیے اور شیعت کی بھی قے خوری کر لیں‘ اور قرآن وحدیث میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تناقض کی نشان دہی کیجیے یہ راقم اپنی بے بضاعتی اور قصور علم کے باوجود یہ ثابت کر دے گا کہ ان دونوں میں قطعاً اختلاف نہیں ہے۔ ان شاء الر حمٰن مختصر یہاں عرض ہے کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: 82)
یعنی اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا۔
اب جو شخص قرآن وحدیث میں اختلاف کا قائل ہے‘ وہ یقینا اس آیت فرقانی کا مکذب ہے یا دین اسلام کو غیر اللہ کی طرف سے جانتا ہے۔
ثالثاً:۔
آپ کا یہ کہنا کہ فقہاء و مجتہدین اور فقہ حنفیہ میں قطعاً اختلاف نہیں‘ یہ آپ کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ اور کتب فقہ سے کم آگاہی کا نتیجہ ہے‘ اہل الرائے نے تو اپنے اختلافات پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک روایت بھی وضع کی ہے کہ ( اختلاف امتی رحمۃ) یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘ دیکھیے سبیل الرشاد مندرجہ (مجموعہ رسائل گنگوہی ص 30 و فتاویٰ شامی ص 68 ج 1 )
حالانکہ یہ روایت کذب و افتراء ہے‘ اس کی کوئی صحیح سند تو کجا ضعیف بلکہ من گھڑت بھی موجود نہیں۔
(تفصیل سلسلہ احادیث الضعیفہ نمبر 57 میں دیکھیے )
افسوس روایت گھڑنے والوں کو اتنا شعور بھی نہ تھا کہ اگر امت میں اختلاف رحمت الہی ہے تو کیا اتفاق غضب الہٰی کا سبب ہے‘ اناللہ وانا الیہ راجعون
الغرض فقہ اور مجتہدین حنفیہ میں زبر دست اختلاف ہے‘ اختصار کے پیش نظر ہم مؤلف ’’ تحفہ اہل حدیث‘‘ کے مستند عالم مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا حوالہ عرض کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ
قول غیر مقلدین کا کہ فقہ میں بہت اختلاف ہے اور حدیث میں نہیں یہ بالکل غلط ہے‘ شاید ان لوگوں نے مشکوٰۃ بھی نہیں دیکھی محض نام حدیث کا سن لیا ہے، احادیث میں ا اس قدر تعارض ہے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ کلام محض دھوکہ دہی (نہیں) ہے۔ جس کا دل چاہے دیکھ لیوے کہ احادیث بخاری کی خود باہم متعارض ہیں اور یہی سبب اختلاف فقہاء و مجتہدین کا ہوا ہے۔ اللہ اکبر کیا غلط قول ہے کہ آفتاب پر خاک ڈالنا اس کو ہی کہتے ہیں‘ پس معلوم ہوا کہ فقہاء کا اختلاف بسبب اختلاف احادیث کے ہوا ہے۔
(سبیل الرشاد مندرجہ مجموعہ رسائل گنگوہی ص 41 طبع گوجرانوالہ)
لیجیے جناب آپ کے امام ربانی فرماتے ہیں کہ احادیث میں زبردست اختلاف ہے‘ اسے پادریوں سے سرقہ کہیں یا منکرین حدیث کے ادھار سے تعبیر کریں‘ یا خالص شیعیت کا نام دیں۔ یہ آپ کی صوابدید پر ہے‘ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی‘ بہر حال امام ربانی نے احادیث میں اختلاف کی نوعیت کو بتاتے ہوئے اس بات کا بھی کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ فقہاء احناف میں مسائل کا اختلاف ہے‘ پھر عذر لنگ پیش کیا ہے کہ چونکہ احادیث میں اختلاف ہے۔ اس لئے فقہاء میں بھی اختلاف ہے یعنی احادیث فقہاء کے اختلاف کا سبب بنی ہیں معنی یہ ہوا کہ کلام رسول میں تناقض ہے۔
حالانکہ فقہاء و مجتہدین کے اختلاف کا سبب نصوص کا اختلاف نہیں بلکہ صحیح حدیث کا نہ ملنا‘ منسوخ کا علم نہ ہونا وغیر ہ اسباب ہیں‘ نہ کہ فی نفسہ نصوص میں ہی اختلاف ہے۔
قارئین کرام آپ تقلید پر لکھی ہوئی کوئی بھی کتاب پڑھ لیجیے مقلدین حضرات جب تقلید کے فوائد بیان کرتے ہیں تو ان میں ایک فائدہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن میں بعض آیات محکم و متشابہ ہیں، بعض ناسخ و منسوخ ہیں اور اس طرح احادیث میں زبر دست اختلاف ہے‘ لہذا کسی امام و مجتہد کا دامن پکڑ لیجیے وہ آپ کو ان تمام چیزوں سے بے نیاز کر دے گا اس کے لئے ہمیں باہر سے دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں خود مؤلف ’’ تحفہ اہل حدیث‘‘ اپنے پراگندہ دل سے چند احادیث میں بزعم خود تناقض ثابت کرنے کے بعد کہتا ہے کہ
’’اس قسم کی سینکڑوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں، جن میں کافی تعارض و تخالف موجود ہے۔ پھر آگے رفع تعارض کے لیے امام ابو حنیفہ کی تقلید کی دعوت دی ہے”۔
(تحفہ اہل حدیث ص 57 تا 59)
اب انصاف سے کہنا کہ احادیث میں تعارض بتانا منکرین حدیث کا فعل ہے ؟ یا اس کی ابتداء اہل الرائے نے کی تھی‘ اور منکرین حدیث کے لیے سیٹرھی تو آپ نے فراہم کی ہے ور نہ پرویزی حضرات تو علم حدیث سے اتنا ہی واقف ہیں جتنا ایک جاہل حروف ابجد سے شنا سا ہوتا ہے۔
مولانا اسماعیل سلفی مرحوم فرماتے ہیں کہ
’’ یہ تمام حضرات عموماً اسلامی علوم کو انسائیکلو پیڈیا سے حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ یہ قرآن کی تاریخ اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی سیرت کو مسٹر نکلس سے سیکھنا انتہائی تحقیقات تصور کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اسلامی علوم کو اسلامی ماخذ سے حاصل نہیں کیا بلکہ اسلامی علوم کو یور پین مستشرقین اور انگریزی زبان کے توسط سے سیکھا ہے۔ ترجمہ قرآن عزیز میں جن حضرات کا مدار مسٹر ولیم میور پر ہے اگر وہ حدیث کا انکار کریں تو انہیں کون روکے اور کیونکر “۔
( حجیت حدیث ص 185)
الغرض مقلدین کے منتشر خیالات سے اس مؤقف نے جنم لیا اور اس کی وجہ اختلاف فقہ پر پردہ ڈالنا تھا‘ اور عوام کو تقلید کی دعوت دینا تھا، مگر افسوس کہ مؤلف یہاں انکاری ہیں۔ مگر چند صفحات آگے چل کر اس کی پر زور تائید و حمایت کرتے ہیں‘ اور عوام کو تقلید کی دعوت دیتے ہیں، لیکن یہاں اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے ہم پر برس رہے ہیں کہ یہ سوال‘ پادریوں منکرین حدیث‘ اور شیعہ کا ہے‘ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور جھوٹ کیا ہو سکتا ہے۔ کتب فقہ حنفیہ دنیا سے غائب نہیں ہو گئیں‘ بلکہ موجود ہیں ان کی مراجعت کر لیجیے آپ مولانا گنگوہی کی حرف بحرف تائید پائیں گے۔ چند امثلہ پیش خدمت ہیں ملاحظہ کریں‘
(1) ہدایہ ص 22 ج 1 باب الماء الخ میں ہے کہ (عن ابي حنيفة هو طاهر) یعنی امام ابوحنیفہ کے نزدیک وضو کا مستعمل پانی پاک ہے‘ پھر اس صفحہ میں ہے کہ (وقال ابو حنيفة …. هو نجس) یعنی امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ہے کہ وضو کا مستعمل پانی پلید ہے۔
(۲) ہدایہ ص 22 ج 1 باب الماء الخ میں ہے کہ (عن ابي حنيفة نجساسة غليظة) يعني وضو کا مستعمل پانی پیشاب پاخانہ کی طرح نجاست غلیظہ ہے۔ اس صفحہ میں ہے کہ (هو قوله نجاسة خفيفة) یعنی امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی نجاست غلیظہ نہیں ہے۔
(۳) ہدایہ ص 23 ج 1 باب الماء الخ میں ہے کہ (عندابی حنفية كلاهما نجسان) یعنی اگر جنبی کنویں میں اتر اتو اس کا غسل نہیں اترا‘ بلکہ کنواں اور جنبی دونوں ہی پلید ہیں‘ اسی صفحہ میں ہے کہ (ان الرجل طاهر) یعنی جنبی پاک ہو جاتا ، جنبی کا غسل اتر جاتا ہے۔
(۴) ہدایہ ص 24 ج 1 باب السمع الخ’ میں ہے کہ (لایجوز المسح على الجوربين عندا بی حنیفة) یعنی جرابوں پر مسح امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز نہیں‘ اسی صفحہ میں ہے (انه رجع الى قولهما) یعنی جرابوں پر مسح جائز ہے امام ابو حنیفہ کا یہی فتویٰ ہے۔
(۵) ہدایہ ص 56 ج 1 باب الانجاس الخ میں ہے کہ ( فاذا جف على الثوب اجزا فيه الفرن) یعنی جب منی کپڑے پر سوکھ جائے تو کھرچنے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ اسی صفحہ میں ہے کہ ( وعن ابي حنيفة انه لا يطهر ) یعنی صورت مذکورہ میں کپڑا پاک نہیں ہوگا۔
(۶) ہدایہ ص 64 ج 1 باب المواقیت میں ہے کہ (واخر وقتها عند ابي حنيفة اذا صار ظل كل شئ مثلیہ) یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ دو گنا ہو جانے تک ہے‘ اسی صفحہ میں ہے کہ (اذا صار الظل مثله وهو رواية عن أبي حنيفة ) یعنی ایک روایت میں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ ظہر کا آخری وقت ہر چیز کا سایہ برابر ہونے تک ہے۔
(۷) ہدایہ ص 64 باب المواقیت میں ہے کہ (واول وقت العصر الخ ) یعنی جب سایہ دو گنا ہو جائے تب عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔ اس صفحہ میں ہے کہ (واول وقت العصر ) یعنی ایک گنا سایہ جب ہو جائے تب عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔
(۸) ہدایہ ص 66 باب الموٰاقیت میں ہے کہ (ثم الشفق هو البياض الذي في الافق بعد الحمرة عند ابي حنيفة) يعنى امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب تک شفق غائب نہ ہو‘ مغرب کا وقت ہے‘ اور شفق کہتے ہیں اس سفیدی کو جو آسمان کے کناروں پر سرخی غائب ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔ اس صفحہ میں ہے کہ (هو الحمرة وهو رواية عن ابي حنيفة ) یعنی شفق سرخی کو ہی کہتے ہیں۔
(۹) ہدایہ ص 74 ج 1 باب الاذان میں ہے کہ ( يكره ان يقيم على غير وضوء) یعنی وضو کے بغیر اقامت کہنا مکروہ ہے‘ اس صفحہ میں ہے کہ (یروی انه لا تكره الاقامة ايضاً) يعني وضو کے بغیر اقامت کہنا مکروہ نہیں۔
(۱۰) ہدایہ ص 90 باب صفۃ الصلواۃ میں ہے کہ (فان اقتصر على احدهما جاز. عند ابي حنيفة) یعنی اگر سجدہ میں صرف ناک زمین پر ٹکائے ، پیشانی نہ لگائے تو بھی جائز ہے۔ اس صفحہ میں ہے (لایجوز ) ایسا کرنا جائز نہیں۔ تلك عشرة كاملة
یہ دس مسائل ہم نے فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ (جس کے بارے میں مقدمہ ہدایہ ازعلا لکھنوی میں لکھا ہے کہ یہ قرآن کی طرح ہے) نقل کیے ہیں اور ان تمام اقوال کو کہنے والے امام ابو حنیفہ ہیں‘ اب ایمان سے کہنا کہ ان میں تناقض ہے کہ نہیں۔
کیا فقہ کا اختلاف قرات قرآن کی طرح ہے؟
فرماتے ہیں کہ
فقہ میں حقیقتاً کوئی اختلاف نہیں ، صرف آپ کو نظر آتا ہے‘ جیسے قرآن پاک کی قرآتیں دو قسم کی ہیں، شاذ اور متواتر‘ شاذ قراتوں کو قرآن نہیں کہا جاتا بلکہ متواتر قراتوں کا نام قرآن ہے‘ پادری لوگ قرآن پاک کی شاذ قراتوں پر ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں‘ اور ہم یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ جو آپ پیش کرتے ہیں وہ شاذ قرآئیں ہیں قرآن نہیں۔ اسی طرح احادیث بھی دو قسم کی ہیں، صحیح اور غیر صحیح ، دونوں قسم کی روایتیں کتابوں میں درج ہیں، منکرین حدیث غیر صحیح احادیث اٹھا کر مسلمانوں پر اعتراضات کرتے ہیں، تو ان کا جواب ہم یوں دیتے ہیں کہ صحیح حدیث پر اعتراض کرو۔ جس پر تم اعتراض کر رہے ہو وہ تو حضورﷺ کا فرمان ہی نہیں ہے۔ غیر صحیح احادیث کو صحیح احادیث کے ساتھ ملا کر کہنا کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے فرمان میں تضاد و اختلاف ہے یا ناسخ و منسوخ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے دو حدیثوں کا آپس میں تضاد بتا نا غلط ہے۔
اسی طرح فقہ حنفی کے اقوال بھی دو قسم کے ہیں مفتی بہ اقوال اور غیر مفتی بہ اقوال مفتی بہ اقوال کا نام فقہ حنفی ہے‘ ان کے اندر کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے، یہ تضاد اسی طرح ہے جس طرح پادری کو قرآن میں اور منکرین حدیث کو احادیث میں نظر آتا ہے‘ آپ کو فقہ میں نظر آتا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 38,39)
الجواب:
اولاً:-
بلاشبہ قرآت شاذ اور ضعیف حدیث حجیت شرعی نہیں ہے‘ کیونکہ شاذ قرآت نہ قرآن ہے اور ضعیف احادیث فرمان مصطفیٰ نہیں ہے اب اس بات پر قائم رہنا‘ کیونکہ آپ کو مکرنے کی عادت ہے۔
ثانیاً:-
ہم متعدد بار عرض کر چکے ہیں کہ پادری اور منکرین حدیث سرے سے قرآن وحدیث کے منکر ہیں‘ اور نہ پادری اسلام قبول کر لیں اور منکرین حدیث صحیح احادیث کو اپنا لائحہ عمل بنالیں‘ مگر ہم نہ تو فقہ کی افادیت کے منکر ہیں‘ نہ اس کو کلی طور پر باطل کہتے ہیں‘ ہاں البتہ ہمارے اور آپ کے نزدیک فقہ کے تعین میں اختلاف ہے، آپ حضرات کتب فقہ حنفیہ کے ابواب الحیل وغیرہ کو فقہ کہتے ہیں اور ہم قرآن و حدیث اور دین میں سمجھ کا نام فقہ رکھتے ہیں، محدثین کرام قرآن و حدیث اور آثار صحابہ کرام سے مسائل استنباط کرتے تھے اور ہیں‘ جبکہ مقلدین کا گروہ اپنے امام کے قواعد و کلیہ سے تخریج مسائل کرتے تھے اور ہیں‘ تفصیل (حجۃ اللہ کے باب الفرق بین اہل الحدیث و اصحاب الرائے) میں موجود ہے۔
ثالثاً:-
آپ کا مفتی بہ اور غیر مفتی بہ کی تقسیم کر کے فقہ کے اختلاف کو مٹانے کا دعویٰ ہی سرے سے باطل ہے کیونکہ جن اقوال کو آپ غیر مفتی بہ کہتے ہیں وہ بہر حال فقہائے احناف کے مجتہدین فی المذاہب یا ارباب ترجیح وغیرہ کے فتاویٰ ہیں جو بہر حال ان کے نزدیک مفتی یہ ہیں، اس سے انکار محض ضد ہے۔ علاوہ ازیں کسی مجتہد فی المذہب کے قول کو محض غیر مفتی بہ کہہ کر رد کر دینا عقل و شعور کا قحط ہے‘ کیا انہوں نے امام ابو حنیفہ کے قواعد واصول سے اس مسئلہ کو استنباط نہیں کیا تھا‘ تو پھر وہ مجتہد فی المذ ہب کیا ہوئے آپ کی طرح رطب و یابس کو جمع کرنے والے اور مقلد اعمیٰ ہوئے۔
فقہ حنفیہ میں کچی اور پکی باتیں
فرماتے ہیں کہ مفتی بہ کا لفظ فتی سے بنا ہے، جس کا معنی ہے مضبوط طاقتور نوجوان‘ تو مفتی بہ اقوال کا معنی ہو گا مضبوط باتیں‘ آپکی باتیں‘ غیر مفتی بہ کچی باتیں ہو نگی‘ میرے دوست! آپ . جب بھی اعتراض کرتے ہیں، کچی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں اور انہیں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ یہ بات تو اللہ تعالی نے بھی فرمائی ہے کہ میرے کلام پاک میں دو قسم کی آیات ہیں، محکمات اور متشابہات، فرمایا محکمات کی اتباع کرو اور متشابہات کے پیچھے نہ پڑو‘ فرمایا جس کا دل ٹیڑھا ہو گا وہ ان کے پیچھے پڑے گا‘ میرے بھائی ! آپ کو بھی اعتراض کے لیے صرف شاذ اقوال اور غیر مفتی بہ اقوال ملے ہیں، جن کو ہم فقہ حنفی ہی نہیں مانتے اعتراض کرنا ہے‘ تو فقہ حقی پر کر کے دیکھو۔
( تحفہ اہل حدیث ص 40)
الجواب:-
اولاً:-
آپ نے جو غیر مفتی بہ کی وضاحت کی ہے کچی باتیں‘ پھر قرآن کی متشابهات آیات سے مثال دے کر آپ نے کہا ہے کہ ہم غیر مفتی بہ اقوال کو فقہ حنفی تسلیم نہیں کرتے‘ تو کیا آپ متشابہ آیات قرآن کو کلام الہی اور قرآنی آیات بھی تسلیم کرتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ متشابہات آیات کو قرآن تسلیم نہیں کرتے‘ تو یہ اتنا بڑا کلمہ کفر ہے، اگر بغیر تو بہ مرگئے تو بغیر حساب و کتاب کے سیدھے جہنم میں جاؤ گے۔ اگر آپ متشابہ آیات کو قرآن تسلیم کرتے ہیں ؟ تو مثال کے چہ معنی!
ثانیاً :
آپ نے جو مفتی بہ کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ غالباً ماسٹر امین کی تقلید میں کی ہے‘ دیکھئے تجلیات صفدر ص 102 ج 1 حالا نکہ یہ تعریف غلط ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ
(و مشتقه من الفتى وهو الشاب القوى وسميت به لان المفتى يقوي السائل بحواب حادثته)
یعنی فتویٰ کا لفظ فتی سے مشتق ہے‘ اور وہ مضبوط جو ان کو کہتے ہیں اور اس کا فتویٰ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ مفتی سائل کے جواب میں اسے طاقت دیتا ہے جو اسے حادثہ پیش آگیا ہو۔
( فتاویٰ شامی ص 72 ج 1)
اس تعریف کو ملحوظ رکھیے تو مفتی بہ کا معنی صاف ہو جاتا ہے کہ مفتی کے فتویٰ کو مفتی بہ کہتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ اس کا فتویٰ غلط ہے یا صحیح‘ ہمارے اس موقف کی تائید حنفیہ کے طبقات مسائل سے بھی ہوتی ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ فتویٰ مطلق قول امام پر ہو گا‘ پھر قاضی ابو یوسف‘ پھر امام محمد ‘ پھر ز فراور حسن کے قول پر فتویٰ ہوگا اگر امام ابو حنیفہ ایک طرف ہوں اور دوسری طرف قاضی ابو یوسف اور امام محمد ہوں تو مجتہد فی المذ ہب کو اختیار ہے کہ جس پر چاہے فتویٰ دے دے۔
(فتاویٰ شامی ص 70 ج 1)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ مطلق قول امام پر فتویٰ دیں گے تو باقی مجتہدین بالخصوص امام محمد اور قاضی ابو یوسف کی باتیں کچی ہونگی اور جب امام محمد اور قاضی ابویوسف کے فتاویٰ پر مفتی فتویٰ دے گا تو امام ابو حنیفہ کی باتیں کچی قرار پائیں گی، جنہیں آپ نے غیر معتبر کہہ کر باطل قرار دے دیا ہے‘ جب آپ کے آئمہ ثلاثہ کے بعض اقوال ہی باطل قرار پائے تو آپ حضرات ان کے اقوال کی نشر واشاعت اور اس کی طرف دعوت کیوں دیتے ہیں جس میں باطل کی آمیزش ہو چکی ہے۔
ثالثاً:-
آپ کا یہ کہنا کہ اہل حدیث ہمیشہ غیر مفتی بہ اقوال پر ہی اعتراض کرتے ہیں‘ جو بقول آپ کے وہ سرے سے فقہ حنفی ہی نہیں، بھائی غصہ تھوک دیجیے ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ جب ہمارے اعتراضات ہی فقہ حنفی پر نہیں تو آپ جواب کس بات کا لکھ رہے ہیں‘ علاوہ ازیں حنفیہ کے لیے حقیقت الفقہ از حد تکلیف دہ کتاب ہے‘ اس پر آپ کو صرف یہ اعتراض ہے کہ اس میں فلاں فلاں حوالہ غلط ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 95)
(جن کی حقیقت آگے آرہی ہے) مگر آپ کو یہ کہنے کی جرات و ہمت نہیں ہوئی کہ اس میں فلاں فلاں قول مفتی بہ نہیں آپ کی یہ روش بتارہی ہے کہ آپ نے محض دفعہ الوقتی سے کام لے کر پلہ چھڑانے کی کوشش کی ہے ورنہ اہل حدیث کے اعتراضات اپنے اند روزن رکھتے ہیں، جن کے جوابات آپ کے پاس بہر حال نہیں ہیں۔
رابعاً:-
حنفیہ نے لکھا ہے کہ کتب فقہ حنفیہ میں سے حسب ذیل کتب غیر معتبر ہیں ‘ جن میں رطب دیا بس اور ضعیف اقوال ہیں۔ مثلاً (۱) جامع الرموز (۲) شرح مختصر الوقايا لابی المکارم (۳) فتاویٰ ابراہیم شاہی (۴) کتب نجم الدین زاہدی (۵) السراج الوہاج شرح مختصر قدوری (۲) الاحکام الفخر الدین رومی (۷) فتاویٰ صوفیہ (۸) فتاویٰ ابن نجم الدین (۹) فتاویٰ طوری (۱۰) خلاصه کیدانی) مقدمه عمدة الرعايتہ ص 12‘ پوری کوشش اور ہمت سے جستجو کر کے ہمیں بتائیے کہ ان کتب سے کس اہل حدیث نے اقوال چن چن کر حنفیہ کا رد کیا ہے۔ راقم پورے جزم و یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ آپ اس کی ایک مثال بھی نہیں دے سکتے‘ ہماری طرف سے جب بھی اعتراض ہوا آپ کی معتبر کتب فقہ اور ان کے مندرجہ اقوال پر ہوا‘ اگر ان معتبر کتب میں بھی غیر معتبر روایات ہیں تو بتائیے پھر آپ کی معتبر کتب میں مفتی بہ اقوال کے معتبر ہونے کی کیا دلیل ہے۔
مفتی بہ اور غیر مفتی بہ قول میں امتیاز کا کس کو حق ہے کیا ان میں احناف ائمہ ثلاثہ نے تمیز کی ہے یا بعد والوں نے اگر خود ائمہ ثلاثہ نے تمیز کی تھی تو ان مردود اقوال کو جمع کیوں کیا گیا اور اگر یہ تمیز بعد والوں نے کی ہے تو وہ تمہارے ائمہ ثلاثہ سے بڑے مجتہد ہوئے جنہوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے اکا بر ائمہ کے اقوال میں تمیز کی ہے کہ فلاں امام کا یہ قول مفتی بہ ہے اور فلاں کا یہ قول غیر مفتی بہ ہے تو پھر تم اکابر کو چھوڑ کر ان متاخرین کی تقلید کیوں نہیں کر لیتے ہو۔
در اصل مفتی بہ اور غیر مفتی بہ متاخرین حضرات کی اصطلاح ہے جنہوں نے اپنے ائمہ کے فتووں میں من مرضی کرنے کے لئے یہ اصول وضع کیا۔
خامساً:-
آپ کی اس بات کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے ؟ تو تب بھی مضائقہ نہیں‘ کیونکہ آگے ہم نے بفضلہ تعالی فقہ حنفی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور ہر ہر قول و فتویٰ کے ساتھ اس کا مفتی بہ ہونا بھی نقل کیا ہے۔ کیسے ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟