عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں
عوام میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ عورتوں کی نماز مردوں سے مختلف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی نماز ہو بہو ویسی ہی ہے جیسی مردوں کی ہے یعنی عورتیں بھی اسی کیفیت میں نماز ادا کرے جس کیفیت میں مرد ادا کرتا ہے۔ اس بات کو نصوص کی روشنی میں واضح کروں گا تا کہ آپ کو یقین ہو سکے کہ واقعی عورتوں کو بھی مردوں کی طرح ہی نماز ادا کرنا ہے۔
اس بارے میں سب سے پہلے تجربہ و مشاہدہ پیش کر کے عقلی طور پر دلائل کو سمجھنے کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورتوں کی الگ نماز کا تصور ورواج بعد کی پیداوار ہے ، جب سے لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا امام بناتا اور ان کی تقلید کرنا شروع کیا تب سے تقلیدی فرقوں کی عورتیں مردوں سے مختلف نماز ادا کرتی ہیں کیونکہ مقلد علماء نے عورتوں کے لئے سمٹ کر نماز پڑھنے کا مکمل مخصوص مصنوعی طریقہ ایجاد کر رکھا ہے۔ عورتوں کا ہاتھ اٹھانا، ہاتھ باندھنا، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، قعدہ کرناسب کچھ مردوں سے الگ بنایا ہے جبکہ ہم میں سے اکثر لوگوں نے حرمین شریفین کی زیارت کی ہے ، وہاں پر عرب خواتین کو مردوں کی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ عرب خواتین عہد رسول اور عہد صحابہ سے ہی مردوں کی طرح نماز پڑھتے ہوئے آرہی ہیں۔ یہیں اسلام پہلے آیا اور یہیں سے اسلام دنیا میں پھیلا ہے اس لئے یہاں کا طریقہ نماز ہمیں شعور دیتا ہے کہ عورتوں کے نماز پڑھنے کا صحیح اور اصلی طریقہ وہی ہے جس طرح عرب کی خواتین پڑھ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف عرب کی خواتین ہی مردوں کی طرح نماز پڑھ رہی ہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی تقلید سے ہٹ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنے والی بہنیں رہتی ہیں وہ مردوں کی طرح نماز ادا کرتی ہیں کیونکہ شارع شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ایک ہی طریقہ بتایا ہے ، انہوں نے مردوں کے لئے الگ اور عورتوں کے لئے الگ نماز کا طریقہ نہیں بتایا ہے۔
ب چلتے ہیں دلائل کی طرف پہلے قرآن میں غور کریں کہ اللہ تعالی نے ایک ہی کتاب قرآن کی شکل میں نازل فرمایا ہے ، ساری آیات میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، ایسا نہیں ہے کہ عورتوں کا قرآن الگ ہے اور مردوں کا قرآن الگ۔ البتہ قرآن کی جو آیت عورت یا مرد کے لئے خاص ہے وہ عورت یا مرد کے ساتھ خاص مانی جائے گی مگر جو آیات خاص نہیں ہیں ان میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ حدیث کا بھی ہے۔ حدیث کی چھ مشہور و معتبر کتابوں (بخاری، مسلم، ابو داؤ، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) میں و سے ہر ایک کتاب میں کتاب الصلاۃ کا عنوان موجود ہے۔ اس کتاب کے تحت شروع سے لیکر آخر یک نماز کی مکمل تفصیلات رکعات کیفیات اور اذکار وادعیہ سے متعلق ساری احادیث موجود ہیں۔ ان احادیث کو جمع کیا جائے تو سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گی مگر ان سیکڑوں احادیث میں ایک بھی کوئی حدیث ایسی نہیں ملتی کہ مرد کی نماز الگ ہے اور عورت کی نماز الگ ہے ۔
پاکستان کے معروف حنفی ادارہ ’’الجامعہ البنوریہ العالمیہ‘‘ سے ایک خاتون نے سوال کیا کہ میں اسلام میں عورت کی نماز کے لئے حوالہ جاننا چاہتی ہوں جیسا کہ میں شروع کرنے والی ہوں ، میں حوالہ صرف صحاح ستہ سے چاہتی ہوں (صرف سجدہ اور تشہد کے بارے میں)، پلیز صرف انہیں کتابوں سے دوسری کتابوں سے نہیں۔ اس سوال پر احناف کے عالمی ادارے نے جواب دیا کہ صحاح ستہ سے حوالہ طلب کرنا بڑی جسارت ہے ، آگے لکھتے ہیں کہ سائلہ کو چاہئے کہ بہشتی زیور سے نماز کا طریقہ پڑھ کر اس طریقے سے نماز ادا کرے، باختصار ۔ آپ یہ فتوی ادارہ کی ویب سائٹ (www.onlinefatawa.com) پر آئی ڈی 32164 کے تحت دیکھیں۔ اس فتوی سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ جو لوگ عورتوں کا الگ طریقہ نماز بتاتے ہیں ان کے پاس احادیث کی امہات الکتب سے ایک بھی دلیل نہیں ملتی۔
اب ایک بنیادی بات سمجھ لیں کہ عورتیں بھی شرعی مسائل میں مردوں کی طرح ہی ہیں یعنی اسلام نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں سوائے استثنائی احکام کے جو مرد یا عورت کے ساتھ مختص ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إنما النساء شقائق الرجال۔
🌿(السلسلة الصحيحة : 2863)
ترجمہ : عورتیں (شرعی احکام میں) مردوں کی مانند ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ذہن میں رکھتے ہوئے عورت و مرد کی نماز سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم ترین فرمان ملاحظہ فرمائیں، ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی الله عنه نے بیان کیا:
أتينا النبي صلى الله عليه وسلم، ونحن شببة متقاربون، فأقمنا عنده عشرين ليلة، فظن أنا اشتقنا أهلنا، وسألنا عمن تركنا في أهلنا فأحبرناه، وكان رفيقا رحيما، فقال: ارجعوا إلى أهليكم، فعلموهم ومروهم، وصلوا كما رأيتموني أصلي، وإذا حضرت الصلاة، فليؤذن لكم أحدكم، ثم ليؤمكم أكبركم۔
🌿(صحیح البخاري: 631،7246،6008)
ترجمہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں دنوں تک رہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آرہے ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے ۔ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال سنادیا۔ آپ بڑے ہی نرم خو اور بڑے رحم کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کو دین سکھاؤ اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
اس پوری حدیث پر گہرائی سے نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ چند صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین اور نماز کا طریقہ سیکھ کر گھر لوٹے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم جاؤ، یہ باتیں اپنے گھر والوں کو بھی سکھانا اور نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح تم نے مجھے میں دن تک نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ گھر والوں میں بیوی بھی شامل ہے ، اگر عورتوں کی نماز کا طریقہ الگ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وضاحت سے بتادیتے کہ تم مرد تو میری طرح نماز پڑھنا اور اپنے گھر کی عورتوں کو مردوں سے الگ نماز کی تعلیم دینا۔ آپ نے ایسا نہیں فرمایا، گویا عورت کی نماز کا طریقہ وہی ہے جو مردوں کا ہے ، اس بابت یہ حدیث ” تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو فیصلہ کن ہے۔ نیز یہ حدیث عام ہے ، عام حدیث کی تحت عورتیں بھی شامل ہوں گی کیونکہ عور تیں شرعی احکام میں مردوں کی مانند ہیں، اس بارے میں آپ نے اوپر دلیل بھی جان لی ہے۔
مذكوره بالا حديث ’’وصلوا كما رأيتموني أصلي‘‘ صحیح بخاری میں تین مقامات پر وارد ہے ، اب صحیح مسلم سے ایک واضح
حدیث جو بیان کرتی ہے کہ عورت و مرد کی نماز بالکل ایک جیسی ہے۔ چنانچہ سید نا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ولقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قام عليه فكبر وكبر الناس وراءه، وهو على المنبر، ثم رفع فنزل القهقرى حتى سجد في أصل المنبر، ثم عاد، حتى فرغ من آخر صلاته، ثم أقبل على الناس فقال: يا أيها الناس إني صنعت هذا لتأتموا بي، ولتعلموا صلاتي۔
🌿(صحیح مسلم : 1216)
ترجمہ : اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (منبر) پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور الٹے پاؤں اترے یہاں تک کہ سجدہ کیا منبر کی جڑ میں پھر لوٹے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے یہ اس لئے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنا سیکھو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز کی تعلیم دینے کے لئے منبر پر چڑھ کر نماز پڑھائی تا کہ واضح طور پر نماز کی کیفیت وادائیگی کو دیکھی جاسکے ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسجد نبوی میں آپ کے پیچھے مقتدی میں خواتین بھی نماز پڑھتی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز ادا فرمالی تو آپ نے صحابہ کو مخاطب ہو کر فرمایا: "اے لوگو ! میں نے یہ اس لئے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنا سیکھو ۔ آپ کا یہ واضح فرمان عورتوں کے لئے نہیں تھا؟ اور آپ نے جس طرح نماز پڑھی وہ عورتوں کے لئے نہیں تھی ؟ بالکل تھی۔ آپ کا منبر پر ادا کیا گیا طریقہ نماز اور آپ کا واضح فرمان کہ مجھ سے نماز کا طریقہ سیکھو صاف صاف بتلاتا ہے کہ عورت و مرد کی نماز کا طریقہ بالکل ایک جیسا ہے۔ اگر عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق ہو تا تو جب آپ نے مسجد نبوی میں منبر پر چڑھ کر مردوں کو نماز کی تعلیم دی، اسی وقت عورتوں کو بھی الگ سے تعلیم دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ عورت بھی مردوں کی طرح نماز پڑھے گی۔
نماز تعبدی معاملہ ہے ، جبریل علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے ہیں اور نمازوں کے اوقات سے آگاہ کرتے صحیح بخاری میں ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: نزل جبريل فأمني، فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات۔
🌿(صحیح البخاري: 3221)
ترجمہ : جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر (دوسرے وقت کی) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، اپنی انگلیوں پر آپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا۔
نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں اپنی مرضی سے بال برابر بھی کوئی عمل انجام نہیں دیا جائے گا، یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سوسال، دو سو سال بعد کسی امام یا عالم کو کیسے اختیار ملے گا کہ وہ عورتوں کی نماز کا الگ طریقہ بیان کرے یا کسی امتی کو کیسے اجازت حاصل ہے کہ وہ حدیث رسول کو چھوڑ کر علماء کے اقوال کے مطابق اللہ کی عبادت کرے؟ ہم دیکھتے ہیں احناف کے یہاں عورتوں کی نماز مردوں سے بالکل مختلف بیان کی جاتی ہے۔ یہ عبادت میں من مانی اور اللہ کے دین کو بدل دینا ہے ، الحفظ والاماں
مذکورہ ساری دلیلوں سے واضح ہے کہ عورتوں کی نماز مردوں جیسی ہے پھر بھی ایک خاص دلیل جو عورتوں سے ہی متعلق ہے اسے بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
جلیل القدر صحابی ابو الدرداء انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے بارے میں فقیہ امت، امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تین کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ ام الدرداء مردوں کی طرح نماز ادا فرماتی تھیں ۔ تینوں کتابوں کی عبارت کے ساتھ اس دلیل کا علم حاصل کرتے ہیں۔
پہلی کتاب :
قرآن کے بعد روئے زمین کی سب سے معتبر کتاب صحیح بخاری میں ’’باب سنةِ الجلوس في التشهد‘‘ (باب: تشهد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ) کے تحت امام بخاری نے معلقاذ کر کیا ہے۔
وكانت ام الدرداء تجلس في صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة.
ترجمہ : ام الدرداء رضی اللہ عنہا فقیہ تھیں اور وہ نماز میں (بوقت تشہد) مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں یعنی ام الدرداء ایک عالمہ اور فقیہ تھیں وہ نماز میں مردوں کی طرح تشہد کرتی تھیں۔
دوسری کتاب :
عبد ربه بن سلیمان بن عمیر شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رأيت أم الدرداء ترفع يديها في الصلاة حدو منكبيها حين تفتتح الصلاة ، وحين تركع وإذا قال: سمع الله لمن حمده رفعت يديها ، وقالت : ربنا ولك الحمد ۔
🌿(جزء رفع اليدين للبخاري : 24)
ترجمہ : میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھ وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں . جب نماز شروع کر تیں اور جب رکوع کرتیں۔ اور جب (امام) سمع اللہ لمن حمدہ کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں ’’ر بنا ولک الحمد ۔‘‘
تیسری کتاب:
صحیح بخاری کی معلق روایت کو امام بخاری نے انہیں الفاظ کے ساتھ اپنی کتاب التاريخ الصغیر (906) میں موصولا مکحول کے واسطہ سے ذکر کیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صفہ صلاۃ النبی کے صفحہ 189 پر صحیح قرار دیا ہے۔
یہ خصوصی حدیث عورتوں کے باب میں اس بات کی خصوصی دلیل ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی ہی طرح نماز ادا کریں گی ۔ اگر اس حدیث کے بارے میں کوئی یہ کہتا ہے کہ صرف ایک عورت مردوں جیسی نماز پڑھتی تھی اور بقیہ عورتیں مردوں جیسی نماز نہیں پڑھتی تھیں ، نرا جہالت اور کوتاہ فہمی ہے۔ اس حدیث میں قعطا یہ ذکر نہیں کہ صرف ایک عورت مردوں جیسی نماز پڑھتی تھی بلکہ راوی کی نظر جس خاتون پر پڑی انہوں نے اس خاتون کے بیٹھنے کی کیفیت بیان کی ہے۔ یہاں ایک بڑا علمی نکتہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اس صحابیہ کی نماز سنت کے خلاف ہوتی تو راوی ضرور ٹوکتے یا یہ ذکر کرتے کہ وہ خاتون نماز میں سنت کی مخالفت کر رہی تھی۔ راوی کا محض کیفیت بتانا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کی نماز مردوں کی طرح ہے اور اس عہد کی عام خواتین بھی مردوں کی طرح نماز پڑھتی تھیں۔
اس پس منظر میں سجدہ سے متعلق صحیحین کی ایک روایت پر بھی غور فرمائیں، انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اعتدلوا في السجود، ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب۔
🌿(صحيح البخاري:822)
ترجمہ : سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور تم میں سے کوئی اپنے بازو کو کتوں کی طرح نہ پھیلائے۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کسی کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی سجدہ کرتے وقت کتے کی طرح بازو نہ پھیلائے، کیا اس حکم میں عورت شامل نہیں ہے ؟ بالکل شامل ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پر عورتیں بھی اسی طرح سجدہ کریں گی جیسے مر د سجدہ کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہوئے کتوں کی کیفیت سے بچیں گی۔
گویا پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ ایک عورت اپنی نماز ٹھیک اسی طرح پڑھے جس طرح مر د پڑھتا ہے اور مردوں میں بھی وہ مرد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز ادا کرتا ہے۔ نیت، اقامت، تکبیرات رفع الیدین، قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ ، قعدہ اور سلام سب کچھ حدیث کی روشنی میں ہونا چاہئے اور یہ سارے اعمال مردوں و عورتوں کے لئے ایک جیسے ہی ہیں، ٹھیک اسی طرح ہیں جیسے عورتیں بھی نماز کی رکعات اتنی ہی ادا کریں گی جتنی رکعات مرد ادا کرتے ہیں اور دوران نماز وہی کلمات پڑھیں گی جو مرد پڑھتے ہیں یعنی عورت و مرد کی نماز میں نہ رکعات میں فرق ہے ، نہ اذکار و دعا میں فرق ہے اور نہ کیفیت و اوصاف میں فرق ہے کیونکہ ان میں تفریق کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
آخر میں ان لوگوں کے مغالطے بھی دور کرنا چاہتا ہوں جو عورتوں کی عفت و عصمت اور حیا کا نام لے کر ان کے لئے حیا کے اعتبار سے نماز کا مصنوعی طریقہ ایجاد کرتے ہیں۔ مقلد حضرات تو اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کرتے ہیں پھر بھی نماز کا طریقہ عورتوں کے لئے الگ سے تیار کر کے بتاتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین مسجد نبوی میں حاضر ہو کر رسول کے پیچھے نماز ادا کیا کرتی تھیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عورتوں کی حیا کے لحاظ سے مسجد میں حاضر ہونے والی عورتوں کی نماز الگ ہوتی کیونکہ وہ مردوں کے ساتھ ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی الگ نماز نہیں بیان فرمائی۔
بلاشبہ عورت عورت ہے ، حیا اور پر دے کی چیز ہے لہذا نماز کے تعلق سے عورتوں کے لئے جو مناسب احکام تھے وہ رسول اللہ علی یا تم نے بیان فرمادے۔ اس بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
◈ عورت کی نماز مسجد کی بجائے گھر میں افضل ہے۔ نبی علی علیم کا فرمان ہے :
صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها۔
🌿(صحيح أبي داود : 570)
ترجمہ : عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے (اندرونی) کو ٹھری میں زیادہ افضل ہے۔
◈ عورت مسجد میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے لیکن خوشبو لگا کر نہ آئے۔ زینب ثقفیہ رضی الله عنه بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا خرجت إحداكن إلى المسجد فلا تقربن طيبا۔
🌿(صحيح الجامع: 501)
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی عورت مسجد کی طرف جائے تو وہ خوشبو کے قریب بھی نہ جائے۔
◈ بالغہ عورت بغیر دوپٹہ کے نماز نہ پڑھے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار۔
🌿(صحيح أبي داود: 641)
ترجمہ : بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔
◈ مسجد میں عورت و مرد ایک ساتھ نماز پڑھنے پر عورتوں کی صف مردوں سے پیچھے ہو گی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها ، وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها۔
🌿(صحيح مسلم : 440)
ترجمہ : مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے اور سب سے بری آخری صف ہے۔ اور خواتین کے لیے سب سے بری پہلی صف ہے (جب کہ مردوں کی صفیں ان کے قریب ہوں) اور اچھی صف پچھلی صف ہے ۔(جو کہ مردوں سے دور ہو)۔
◈ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ہے ، نہ مردوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے آواز نکال سکتی ہے، مرد امام سے غلطی ہو جائے تو اس ضرورت کے وقت بھی زبان سے آواز نہیں نکالے گی بلکہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر امام کو غلطی پر تنبیہ کرے گی، سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
التسبيح للرجال، والتصفيح للنساء۔
🌿(صحيح بخاري: 1204)
ترجمہ : تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔ یہ سارے احکام عورتوں کو فتنے سے بچانے ، ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے اور ان کی شرم و حیا کا پاس و لحاظ کرنے سے متعلق بر ہیں۔ ان احکام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کی نماز مرودں سے مختلف ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ عورت کی نماز تو مر دوں جیسی ہی ہے لیکن ان کی عصمت کا خیال کرتے ہوئے ان کے حق میں مفید احکام بھی بیان کئے گئے ہیں۔
بعض لوگ ان باتوں سے امت کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو عورتوں کو مردوں سے الگ حکم دیا جارہا ہے لہذا ان کی نماز مردوں سے الگ ہے ۔ یہ سراسر دھوکہ ہے ، یہاں پر عورتوں کی عصمت کا خیال کر کے انہیں بعض الگ احکام دئے جار ہے ہیں ، ان باتوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ امام پہلے تکبیر تحریمہ کہے گا اور نماز شروع کرے گا، مقتدی مرد ہو یا عورت امام کے بعد تکبیر کہہ کر نماز میں داخل ہو گا، امام سے پہلے کوئی مقتدی تکبیر نہیں کہے گا، پھر نماز کے سارے حالات میں امام پہلے ہو گا اور مقتدی امام کے پیچھے ان کی متابعت کرے گا، مقتدی میں جو قرآن کا زیادہ جانکار ہو وہ امام بنے گا، مقتدی میں جو زیادہ عقل و شعور والے ہوں وہ امام کے قریب کھڑا ہوں گے ، پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔ صف بندی میں بڑے مرد آگے ہوں گے جو بچے ہوں وہ بعد والی صفوں میں ہوں گے ۔ کیا ان احکام و مسائل کا یہ مطلب ہے کہ مردوں کی نماز بھی مردوں سے مختلف ہے ۔ ہر گز نہیں۔ یہ نماز سے متعلق بعض احکام ہیں مگر طریقہ ایک ہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح نماز سے متعلق عورتوں کے لئے بعض مخصوص مسائل ہیں مگر ان کی نماز کا طریقہ بھی وہی ہے جو مردوں کا ہے۔
بعض لوگ ، امت کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ حج بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر کرنا ہے مگر طواف وسعی میں عورتوں کو رمل نہیں کرنا ہے بلکہ آہستہ چلنا ہے اور عورتوں کے آہستہ چلنے کی الگ سے کوئی دلیل نہیں ہے ، علماء عورت کی حیا کا خیال کرتے ہوئے آہستہ چلنے کا حکم دیتے ہیں اسی طرح نماز کا مسئلہ ہے۔ عورتوں کی حیا کی وجہ سے اسے سمٹ کر نماز پڑھنے کو کہا جاتا ہے۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ اولا : نماز کو حج کے طواف وسعی پر قیاس کرنا ہی غلط ہے ، طواف وسعی میں آدمی باتیں کر سکتا ہے، کھاپی سکتا ہے ، ہنس سکتا ہے، ستی لگ جائے تو بیٹھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر یہ باتیں نماز میں ممنوع ہیں بلکہ ان باتوں سے نماز باطل ہو جائے گی۔
ثانیا : نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ہے ، جس میں عورت و مرددنوں شامل ہیں اس لیے کسی غیر سے نماز کا طریقہ لینے کی قعطی ضرورت نہیں ہے اور پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ عبادت میں بال برابر بھی کوئی اپنی مرضی سے عمل نہیں کرے گا جبکہ مقلدوں کے یہاں عورت کی پوری نماز بناؤٹی ہے وہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟۔
ثالثا: عورتوں کے عدم رمل کے سلسلے میں مرفوع حدیث گرچہ نہیں ہے مگر متعدد آثار سے ثابت ہے۔ بیہقی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہا، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حسن و عطاء سے مروی ہے۔ ابن المنذر نے اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں پر رمل نہیں اور دین میں اجماع بھی حجت ہے جبکہ نماز کا معاملہ رمل سے مختلف ہے یہاں پر سب کچھ مرفوع احادیث سے یعنی مکمل طریقہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، اور جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ موجود ہو وہاں کسی اور کا طریقہ اور قول اختیار کرنے کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ جہاں شریعت خاموش ہے وہاں امت کسی بات پر اجماع کرلے تو یہ دلیل ہے لیکن جہاں شریعت موجود ہے وہاں کسی قول اور اجماع کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو سمٹ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اسلاف سے منقول ہے بلکہ مرفوع احادیث بھی ملتی ہیں چنانچہ اس سے متعلق بعض مرفوع روایات اور بعض آثار پیش کئے جاتے ہیں۔ ان سب کے ذکر کرنے اور تجزیہ کرنے کا یہ مقام نہیں ہے۔ ایک شعر سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں (ہوتے ہوئے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتار – مت دیکھ کسی کا قول و کردار)
اللہ نے قرآن میں متعدد مقامات اپنی اور رسول کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے یعنی دین صرف اللہ اور اس کے رسول سے لیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت و مرد کی نماز کے طریقہ میں فرق سے متعلق جو بھی دلیل ذکر کی جاتی ہے چاہے قول ہو یا حدیث کوئی بھی ثابت اور صحیح نہیں ہے۔ جب کوئی چیز ثابت ہی نہ ہو تو اس سے دلیل پکڑنا بے کار ہے بلکہ او پر جامعہ بنوریہ کا فتوی ملاحظہ فرما چکے ہیں ، ان کے حساب سے صحیح ستہ یعنی معتبر ترین حدیث کی چھ کتابوں میں عورت و مرد کی نماز میں فرق کی ایک بھی دلیل موجود نہیں ہے جبکہ ان ساری چھ کتابوں میں کتاب الصلاۃ قائم کر کے سارے محدثین نے نماز کی تمام مرفوع روایات (رسول اللہ کا طریقہ نماز) ذکر کر دی ہیں جن میں نماز کی ابتداء سے لیکر انتہا تک ساری کیفیات منقول ہیں حتی کہ نماز کا ادنی پہلو بھی ذکر سے خالی نہیں۔ باقی جن دلائل سے احناف استدلال کر کے عورتوں کی نماز الگ بتاتے ہیں وہ سب نا قابل اعتبار ہیں ، ان کی حقیقت جاننے کے لئے حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی مختصر کتاب ” کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ کا مطالعہ مفید ہو گا۔ اس کتاب کو دار السلام نے شائع کی ہے اور کتاب و سنٹ ڈاٹ کام پر دستیاب ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ لوگوں کو حق پر چلنے اور مسلمانوں میں سے عورت و مرد سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین