کیا عالم پر اعتماد کرنا تقلید ہے؟ حکم و وضاحت
ماخوذ : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، ص 575

سوال

بات یہ ہے کہ ایک پرانی کتاب نظر سے گزری جس میں آپ اور حضرت القاضی شمس الدین کے درمیان تحریری گفتگو درج تھی، جس کا عنوان تھا: ’’کیا تقلید واجب ہے؟‘‘۔
اس کے علاوہ ہم نے کئی رسائل بھی دیکھے جو تقلیدِ شخصی کے خلاف تھے۔ اس پر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا، امید ہے کہ آپ اس کا جواب عنایت فرمائیں گے:

’’کسی عالم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے کہنے پر عمل کرنا اور دلیل کا مطالبہ نہ کرنا‘‘ کیا یہ بھی تقلید ہے؟
اگر یہ تقلید ہے تو کیا یہ تقلید کفر، بدعت، شرک، حرام یا ناجائز کے زمرے میں آتی ہے؟**

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس چیز کے بارے میں سوال کیا اور اسے الفاظ میں یوں بیان کیا: ’’کیا یہ تقلید ہے؟‘‘ تو واضح رہے کہ یہ تقلید نہیں ہے۔

اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تقلید کو ایک مثال سے واضح کیا جاتا ہے۔ جب آپ اس مثال پر غور کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ تقلید کی حقیقت آپ کے سامنے آ جائے گی۔

تقلید کی وضاحت ایک مثال سے

صحیح بخاری، جلد دوم، کتاب الأدب، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم {یَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا} الخ، ص ۹۰۴ میں ایک حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان درج ہے:

{کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ}
’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘

اب بعض علماء اور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص ان بعض علماء یا فقہاء کی اس رائے کو قبول کر لیتا ہے تو اس معاملے میں وہ ان کی تقلید کر رہا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے