کیا زبردستی نکاح جائز ہے؟ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

مجھے پہلی ہی رات بغیر مباشرت طلاق دے دی گئی اور میں ایک ماہ وہاں رہ کر اپنے میکے چلی آئی، اب چھ ماہ ہونے کو ہیں اور میرے تین طہر گزر چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب رجوع ممکن ہے یا نیا نکاح ہو گا؟ اور کیا دوبارہ زبردستی میرا نکاح اس سے ہو سکتا ہے؟ اور اگر طلاق ہو چکی ہے تو عدت کی مدت کتنی ہے؟

جواب :

مرد و زن کے شرعی تعلق کو توڑنے پر شیطان کو از حد خوشی ہوتی ہے اور پھر پہلی رات ہی جس کا گھر اجڑ جائے اس پر تو ابلیس کی خوشی کے کیا کہنے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”بلا شبہ وہ اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے، جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ان میں سے ابلیس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو ان میں سب سے بڑا فتنہ باز ہو، ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا۔ وہ کہتا ہے تو نے کچھ بھی نہیں کیا، پھر ان میں سے کوئی اور آتا ہے اور کہتا ہے میں نے فلاں آدمی کو اتنی دیر تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق نہیں ڈال دی۔ ابلیس اسے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے تو بہت اچھا ہے اور اس سے معانقہ کرتا ہے۔“ صحيح مسلم (2813/67) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پر ابلیس کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اور جو شیطان میاں بیوی میں جدائی کرانے پر کامیاب ہو جاتا ہے وہ ابلیس کا چہیتا بن جاتا ہے اور اسے سب سے زیادہ اس کا قرب ملتا ہے، تو جس عورت کا سہاگ ہی لٹ جائے اور شوہر کے گھر میں داخل ہوتے ہی فرقت و جدائی مل جائے اور خاوند و بیوی کا تعلق قائم ہونے ہی نہ پائے تو اس پر ابلیس اور اس کے چیلے خوشی کے شادیانے بجاتے ہوں گے۔
جو لوگ شادی کر کے اس طرح عورت کا گھر برباد کر دیتے ہیں انھیں اللہ کی ناراضی سے ڈرنا چاہیے اور اس کو اپنے گھر کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر اس کی بہن یا بیٹی کے ساتھ اس طرح کا معاملہ بن جائے تو پھر اس کا کیا حال ہو گا؟ کسی کی زندگی سے اس طرح کھیلنا انتہائی غیر مناسب رویہ ہے۔ معاشرے میں آج لوگ ان باتوں کی کوئی پروا نہیں کرتے اور بلا وجہ بے دھڑک طلاق پر طلاق دیے جاتے ہیں۔
بہر کیف اگر کوئی مرد اپنی اہلیہ کو طلاق دے ڈالے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے اور شوہر و بیوی کے تعلق کو قائم کیے بغیر طلاق دی جائے تو پھر عورت کی عدت بھی نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا﴾
(الأحزاب : 49)
”اے ایمان والو! جب تم ایمان والیوں سے نکاح کرو، پھر تم انھیں چھونے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو، پس تم انھیں فائدہ دے دو اور انھیں اچھے طریقے سے فارغ کر دو۔“
یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ جب شوہر دخول سے پہلے طلاق دے ڈالے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے اور یہ امر علماء کے ہاں اجماعی اور اتفاقی ہے کہ جب عورت کو دخول سے پہلے طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے اور وہ اس کے بعد جہاں چاہے فوری نکاح کرا سکتی ہے۔ اس سے صرف وہ عورت مستثنیٰ ہے جس کا شوہر فوت ہو جائے اور دخول نہیں ہوا تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ جب اس طرح طلاق واقع ہو جائے تو پھر مرد کو چاہیے عورت کا مہر دے۔ اگر مہر مقرر ہے تو اس کا نصف دے اور مقرر نہیں کیا تو اپنی حیثیت کے مطابق ادا کر دے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ﴾
(البقرة : 237)
”اور اگر تم عورتوں کو چھونے سے پہلے طلاق دے دو اور تم نے ان کے لیے مہر مقرر کر لیا ہے تو مقرر شدہ کا نصف ادا کرو۔“
اور فرمایا:
﴿لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ﴾
(البقرة : 236)
”تمھارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جب تم نے ان کو چھوا نہیں، یا ان کا مہر مقرر نہیں کیا اور انھیں اچھے طریقے سے فائدہ دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت سے اور تنگی والے پر اس کی حیثیت سے ہے، یہ محسنین پر حق ہے۔ “
لہٰذا آپ پر کوئی عدت نہیں ہے، اس لیے کہ خاوند نے خلوت و دخول نہیں کیا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اب آپ کا شوہر نہیں رہا، آپ اس کے نکاح سے خارج ہو چکی ہیں۔ اب آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ جہاں چاہیں نکاح کروا سکتی ہیں اور اگر اس آدمی سے نکاح کا پروگرام بن جاتا ہے تو از سرنو نکاح ہوگا، جس میں مہر بھی نیا ہو گا اور گواہ بھی ہوں گے اور اگر آپ اس نکاح پر رضا مند نہ ہوں تو والدین جبراً نکاح کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ جس طرح نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح عورت کی رضا مندی بھی لازمی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال أن تسكت
بخاري، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره الخ (6968،5136)
”بیوہ اور مطلقہ کا نکاح ان کے امر کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ”یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟“ فرمایا: ”اس کا خاموش رہنا (اس کی اجازت ہے)۔“
امام بخاری نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے:
لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما
”باپ یا کوئی دوسرا ولی کنواری اور مطلقہ و بیوہ کا نکاح ان کی رضا مندی کے بغیر نہ کرے۔“
علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی فرماتے ہیں:
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ مطلقہ اور بیوہ سے اس کا امر طلب کرنا ضروری ہے۔ جب تک ولی اس کا امر طلب نہ کرے اس کا نکاح نہ کرے۔“
سبل السلام (1319/3)
علامہ احمد دہلوی لکھتے ہیں: ”یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس عورت کی شادی کا ارادہ کیا جائے اس کی رضا مندی معتبر ہے اور مطلقہ و بیوہ سے تو صراحتاً اجازت چاہیے اور کنواری لڑکی کا سکوت ہی کافی ہے۔“
حاشية بلوغ المرام (ص 211)
خنساء بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أن أباها زوجها وهى ثيب فكرهت ذلك فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرد نكاحه
بخاري، كتاب النكاح، باب إذا زوج الرجل ابنته الخ (138)
”ان کے باپ نے ان کا نکاح کر دیا اور وہ ثیبہ تھیں، انھوں نے اس نکاح کو ناپسند کیا اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کا نکاح رد کر دیا۔“
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے:
إذا زوج الرجل ابنته وهى كارهة فنكاحه مردود
”جب آدمی اپنی بیٹی کی شادی کر دے اور وہ اس شادی کو ناپسند کرتی ہو تو اس کا کیا ہوا نکاح مردود ہے۔“
ان احادیث صریحہ سے واضح ہو گیا کہ نکاح کرنے کے لیے والدین کو آپ کی رضا مندی چاہیے اور اگر وہ رضا مندی حاصل کیے بغیر نکاح کریں اور آپ اس نکاح کو پسند نہ کریں تو ایسا کیا ہوا نکاح مردود ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے