کیا رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے؟
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : ہم اہلحدیث نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں، احناف کہتے ہیں یہ منسوخ ہو چکا کیا واقعی ایسا ہے ؟
جواب : رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رفع الیدین نہ کیا ہو۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا [بخاري، كتاب الأذان : باب رفع اليدين فى التكبيرة الأوليٰ مع الافتتاح سواء 735، أحمد 8/2، مؤطا 75/1، عبدالرزاق 2517، ابن ماجه 858، دارمي 285/1، دارقطني 287/1، بيهقي 69/2، شرح السنة 559، أبوعوانة 91/2، أبوداؤد 721]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے تھے۔“
اسی طرح رفع الیدین کی روایت سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب رفع اليدين فى الصلاة 726 ]
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ متأخر الاسلام صحابی ہیں۔ چنانچہ علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ اَسْلَمَ فِي الْمَدِيْنَةِ فِيْ سَنَةِ تِسْعٍ مِّنَ الْهِجْرَةِ [ عمدة القاري شرح بخاري 9/3 ]
”وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ “
یہ حضرموت کے علاقہ میں رہتے تھے اور حضرموت سے مدینہ تک اس وقت کی مسافت کے لحاظ سے چھ ماہ کا سفر تھا۔ پہلی دفعہ آپ کے پاس آئے اور آپ سے دین کے احکامات سیکھ کر دوبارہ اپنے وطن واپس چلے گئے پھر اس کے بعد 10ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب رفع اليدين فى الصلاة 727 ]
”اس کے بعد ایک زمانے میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ ان دنوں سخت سردی تھی۔ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے اوپر موٹی چادریں تھیں، ان کے ہاتھ کپڑوں کے نیچے سے حرکت کرتے تھے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ 10ھ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین ثابت ہے، اس کے بعد آپ وفات پا گئے۔ جو حضرات رفع الیدین کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں وہ 10ھ کے بعد کی عدم رفع الیدین کی کوئی صحیح روایت پیش کریں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا حکم اس لیے دیا کہ کافر آپ کے پیچھے بت لے کر کھڑے ہو جاتے تھے تو یہ جاہلوں کا پھیلایا ہوا بہت بڑا جھوٹ ہے، جسے بیان کرنے والا اگر کوئی عالم ہے تو اسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ایسی بات کا وجود تو پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں بھی نہیں، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ کسی ضعیف حدیث میں۔ محض لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کے شوق میں اور سیاسی اور جمہوری مصلحتوں میں آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی بات منسوب کرنا اور اس پر اصرار کرنا اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ ایسی مصلحتوں کا دنیا میں تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، لیکن آخرت میں لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسی مہم بازی کا جو نتیجہ نکلے گا، اس سے پھر وہاں کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کفار کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز کے لیے کھڑا ہونا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر رفع الیدین اس لیے کیا کہ لوگ بغلوں میں جو بت رکھتے تھے ان کو گرانے کا یہ ایک طریقہ تھا تو کیا پہلی دفعہ تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ جو رفع الیدین کی جاتی ہے اس وقت بت نہیں گرتے تھے ؟ جو لوگ پہلی دفعہ رفع الیدین کے وقت بت نہیں گرنے دیتے وہ رکوع کی رفع الیدین کے وقت کیسے گرنے دیں گے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ترکِ رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
◈ امام جلال الدین سیوطی نے اپنی مایہ ناز کتاب ”الأزھار المتناثرۃ فی الأخبار المتواترۃ“ میں رفع الیدین کی حدیث کو متواتر کہا ہے۔ اسی طرح ”نظم المتناثر“ میں ”الحدیث المتواتر“ اور تدریب الراوی وغیرہ ملاحظہ ہو۔
امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما بھی صحیح روایت کے مطابق رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان سے اس مسئلے پر کوئی اختلاف اور بحث مروی نہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رفع الیدین والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وَبِهَذَا يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبُو هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَغَيْرُهُمْ، وَمِنَ التَّابِعِينَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ , وَعَطَاءٌ , وَطَاوُسٌ , وَمُجَاهِدٌ , وَنَافِعٌ , وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَغَيْرُهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ : مَالِكٌ , وَمَعْمَرٌ , وَالْأَوْزَاعِيُّ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق [سنن ترمذي، كتاب الصلاة : باب رفع اليدين عند الركوع 256 ]
”یہی بات صحابہ کرام میں سے اہل علم کہتے ہیں۔ ان میں سے ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبد اللہ بن زبیر وغیرہ م رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم اور سعید بن جبیر وغیرہ م رحمۃ اللہ علیہم اور یہی بات امام مالک، امام معمر، امام اوزاعی، امام ابن عیینہ، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں۔ “
امام ترمذی رحمہ اللہ کی اس صراحت سے معلوم ہوا کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ بھی رفع الیدین کے قائل تھے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف تھا جو ختم نہیں ہو سکا، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بفرض محال اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ شافعی و مالکی میں یہ اختلاف تھا تو پھر بھی ان کے اختلاف کی وجہ سے مسئلہ رفع الیدین پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی، کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مد مقابل تو کسی امام کی بات قابلِ حجت نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ظاہر ہے اس نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں امام جو امتی ہے، کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا درجہ دے دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھیوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
يُظْهِرُوْنَ شِعَارَ اَهْلِ الْحَدِيْثِ مِنْ اِفْرَادِ الْاِقَامَةِ وَرَفْعِ الْاَيْدِيْ فِي الصَّلَوَاتِ وَغَيْرِ ذٰلِكَ [ سير إعلام النبلاء 465/12 ]
”امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھی اہلِ حدیث کے شعار (علامات) اکہری اقامت اور رفع الیدین کا علی الاعلان اظہار کرتے تھے۔“
لہٰذا رفع الیدین سنتِ نبوی ہے اور شروع سے لے کر آج تک کتاب و سنت کے متوالوں کا عمل ہے۔ مسئلہ رفع الیدین کی تفصیل کے لیے محدث العصر امام محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی کتاب ”التحقیق الراسخ فی ان أحادیث رفع الیدین لیس لھا ناسخ“ اور استاذ الاساتذہ حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ کی کتاب ”مسئلہ رفع الیدین، تحریری مناظرہ“ وغیرہ ملاحظہ کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: