کیا رسولوں کے درمیان فضیلت کا فرق ہے؟
سوال: کیا انبیاء و رسل علیہ السلام کے درمیان فضیلت کا فرق ہے؟
جواب: ہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ﴾ [البقرة: 253]
”یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجات بلند کیے ہیں ۔“
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا﴾ [الاسراء / بني اسراءيل: 55]
”ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری و برتری دی ہے ، اور داؤد کو ہم نے زبور عطا فرمائی ہے ۔“
اللہ عزوجل نے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہا خاص فضیلت سے نوازا ہے ، خواہ یہ فضل خود اس کے اندر موجود ہو ، یا پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو عقل و دانش مندی اور پاک نفس کی بدولت عطا کیا ہو یا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وصف فضل کے ساتھ خاص کیا ہو ۔ خواہ ان کے علاوہ دوسرے رسول ان سے زیادہ زکی القلب ، زیادہ عقل و دانش کے مالک اور زیادہ عبادت کرنے والے ہوں ۔ یہ تو اس اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کر دے ۔ اور بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بعض رسولوں کی فضیلت و برتری کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور یہ کہ اللہ پاک نے انہیں اپنی ذات کے لیے پسند فرمالیا ۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي﴾ [طه: 41]
”اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرمالیا ۔“
اور مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي﴾ [طه: 39]
”تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے ۔“
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں یہ اطلاع دی کہ وہ اللہ کے بہت شاکر بندے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا اکلوتا دوست بنا لیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ بتایا کہ اس نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا شرح صدر کر دیا اور ان سے ان کے بوجھ کو اتار دیا اور ان کے درجات کو بلند کر دیا ۔
علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ سب سے افضل رسول پانچ ہیں اور یہی اولو العزم رسول ہیں: نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسی اور محمد علیہ السلام ہیں ۔ اور ان افضل الرسل میں سے افضل ترین حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور محمد مصطفی علیہ السلام ہیں ۔ نیز یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً افضل الانبیاء ہیں ۔ فضیلت کے باہمی فرق سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے دوسرے انبیاء اور رسولوں کے مقام میں کمی لازم آتی ہے اس لیے کہ یہ سب حضرات اللہ تعالیٰ کے انبیاء ورسل علیہ السلام تھے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کا بار سنبھالنے اور شریعت کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا تھا ۔
پس ہمیں اُن کی فضیلت و برتری کا اعتراف ہونا چاہئیے اور ہمیں ان پر درود و سلام بھیجنا چاہئیے اور ہمیں ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ یہ سارے انبیاء و رسل علیہ السلام رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ذمہ داری ادا کرنے میں کسی قسم کی کمی کو تاہی سے پاک صاف تھے ۔
جس طرح مؤمنوں کو ان کے اعمال و اخلاص کی وجہ سے ایک دوسرے پر فضیلت و برتری حاصل ہوتی ہے ، پھر اسی لحاظ سے جنت میں بھی ان کے ثواب میں فرق و تفاوت ہوگا ، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان اهل الجنة ليتراءون أهل الغرف من فوقهم كما تراءون الكوكب الدرئ الغابر فى الأفق من المشرق والمغرب: لتفاضل ما بينهم [صحيح البخاري كتاب الرقاق ، باب صفة الجنة والنار ح 2188 ۔ و صحيح مسلم كتاب الجنة باب تراى اهل الجنة اهل الغرف ، ح 2830]
”بلاشبہ جنت والے بالا خانے والوں کو اپنے اوپر اس طرح دور سے دیکھیں گے جس طرح تم روشن و منور ستاروں کو مشرق و مغرب کے افق میں دیکھتے ہو (کیونکہ) ان میں ایک دوسرے کے درمیان فضیلت و مقام کا فرق ہے ۔“
اس حدیث کو امام احمد اور امام ترمذی رحمہ اللہ روایت کیا ہے اور امام ترمذی ر رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
چنانچہ اہل ایمان پر اللہ کے تمام رسولوں کی تصدیق اور ان کی رسالت و پیغمبری پر ایمان لانا واجب ہے ، اور مؤمن کے لیے ثابت شدہ شریعت اللٰہی میں سے جو کچھ اس تک پہنچ چکا ہے اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ، تاکہ وہ مؤمنوں کی صف میں شامل ہو سکے ، اس لیے کہ جس نے جس قوم سے محبت کی تو اس کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا ۔ واللہ اعلم !