سوال :
علمائے کرام جو درس و تدریس، افتاء و قضاء پر مامور ہیں اور ان کا اکثر و بیشتر وقت انہی دینی کاموں پر صرف ہوتا ہے، ان کی تنخواہیں مقرر کرنا اور ان کو ان امور پر اجرت دینا کیسا ہے؟ بعض لوگ اسے حرام گردانتے ہیں، کیا ان کا یہ قول درست ہے؟
جواب :
امور دینیہ پر علمائے کرام اور قضاة و مفتیان کی خدمت کرنا بالکل جائز اور درست امر ہے اور خدمت کرنے والے اجر کے مستحق ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا ایک گروہ پانی کے ایک گھاٹ سے گزرا، وہاں ایک شخص ایسا تھا جسے کسی موذی چیز نے ڈس لیا تھا، تو پانی والوں میں سے ایک آدمی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟“ صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھ کر ساتھ چل پڑا اور اس نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ آدمی صحیح ہو گیا۔ اب وہ ان سے بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انھوں نے اس عمل کو ناپسند کیا اور کہنے لگے: أخذت على كتاب الله أجرا ”تو نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے؟“ حتیٰ کہ وہ مدینہ طیبہ میں آئے اور کہنے لگے: ”یا رسول اللہ! اس نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔“ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله
(بخاری کتاب الطب باب الشروط في الرقية بفاتحة الكتاب ح 5737)
یقیناً جس پر تم اجرت لیتے ہو، ان میں سب سے زیادہ حق اللہ کی کتاب کا ہے۔
اور بخاری شریف میں دوسری جگہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انھیں تقسیم کر دو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی نکالنا۔“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑھے۔
(بخاری کتاب الإجارة باب ما يعطى في الرقية …. الخ ح 2271)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کتاب الإجارة میں لا کر اجرت کا جواز ثابت کیا ہے اور تمام فقہاء کا قول ہے کہ معلم شرط نہ لگائے، جو کچھ اسے دیا جائے قبول کرے اور فرماتے ہیں میں نے کسی ایک فقیہ کو بھی نہیں سنا جو معلم و استاد کی اجرت کو مکروہ جانتا ہو اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے معلم کو دس درہم دیے۔ (بخاری مع فتح الباری 452/4)
اسی طرح امام بخاری نے کتاب الأحكام میں باب قائم کیا ہے: رزق الحكام والعاملين عليها کہ حکام اور حکومت کے عاملین کا تنخواہ لینا جائز ہے۔ اور قاضی شریح رحمہ اللہ قضا پر اجرت لیتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”یتیم بچوں کا ولی اپنے کام کے مطابق لے کر کھا سکتا ہے“ اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی بیت المال سے اجرت و تنخواہ لی ہے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد کوئی تجارت یا کاروبار نہیں کیا، کہیں سے ثابت نہیں ہوتا۔ اب آپ کے گھر بار کا خرچہ کہاں سے ادا ہوتا تھا، آپ نے تو ساری زندگی امور دینیہ میں گزاری۔ خلفائے راشدین بھی اپنے اپنے دور خلافت میں امور دینیہ میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے گھر کا گزارہ بھی مسلمانوں کے اکٹھے کیے ہوئے اموال سے ہوتا تھا۔
قاضی شریح رحمہ اللہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے قضا پر مقرر کیا تھا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی کافی عرصہ وہ قضا کے عہدے پر فائز رہے اور انھیں حکومت و خلافت کی طرف سے باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھی۔
(فتح الباری 150/130-151)
لہذا قوم کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی خدمت بجالائیں، جو اپنے اوقات کو امور دینیہ میں مصروف رکھتے ہیں اور اپنی اولاد اور گھر بار کے لیے تجارت کا وقت نہیں رکھتے۔ بالخصوص تاجر طبقہ ایسے لوگوں کے وظائف میں ممد و معاون بنے، تا کہ وہ مکمل اطمینان سے دین کا کام کر سکیں اور وہ لوگ جن کے پاس اچھا خاصا کاروبار ہے اور وہ دین کے عالم بھی ہیں، وہ اگر نہ لیں تو زیادہ مستحسن امر ہے۔ جمہور ائمہ محدثین کے ہاں امور دینیہ پر اجرت بالکل جائز اور درست ہے، اسے حرام قرار دینے والوں کے پاس کوئی ٹھوس اور پختہ دلیل موجود نہیں۔ اس موضوع پر ہمارے ہر دلعزیز دوست اور بھائی محترم ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی کی تحقیقی کتاب بھی ہے، جو عثمانی فرقے کے رد میں ہے، شائقین اس کا مطالعہ کریں۔ (جزاہ اللہ خیراً) متاخرین احناف نے بھی امام شافعی کے قول پر اس کے جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ مولوی خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں:
أما المتأخرون فقد أفتوا بقول الشافعي للضرورة
(بذل المجهود في حل أبي داود 263/5)
”متاخرین احناف نے ضرورت کے تحت امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔“
مولوی خلیل احمد صاحب کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی مقلد اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے قول پر فتویٰ دے اور اسے اختیار کرے تو کوئی قباحت نہیں ہے، اسی لیے آج حنفی علماء امام شافعی کے مذہب پر عمل کر رہے ہیں اور قرآن کی تعلیم اور دیگر امور دینیہ پر اجرت لے رہے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ حق کی پیروی ہونی چاہیے، خواہ وہ اپنے امام کے موافق ہو یا مخالف، حق کو چھوڑ کر کسی کے پیچھے لگ جانا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔ قرآن و حدیث حق ہیں، ان کی پیروی ہر مسلم کو کرنی چاہیے۔ (آمین)