خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا
سوال : مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا کیسا ہے؟
جواب : نمازِ جنازہ مسجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے، دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
« لما توفي سعد بن ابي وقاص، ارسل ازواج النبى صلى الله عليه وسلم ان يمروا بجنازته فى المسجد فيصلين عليه، ففعلوا فوقف به على حجرهن يصلين عليه، اخرج به من باب الجنائز الذى كان إلى المقاعد، فبلغهن ان الناس عابوا ذلك وقالوا: ما كانت الجنائز يدخل بها المسجد، فبلغ ذلك عائشة فقالت: ” ما اسرع الناس إلى ان يعيبوا ما لا علم لهم به، عابوا علينا ان يمر بجنازة فى المسجد، وما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل بن بيضاء إلا فى جوف المسجد» [مسلم، كتاب الجنازة، باب الصلاة على الجنازة فى المسجد 973، مسند أحمد 79/6، أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الجنازة فى المسجد 3190، ترمذي 1033، نسائي 1969، 1970، ابن ماجه 1518، شرح معاني الآثار 1/ 330، بيقي4/ 51، الاوسط لا بن المنذر5/ 416، عبدا لرزاق6578، شرح السنة5/ 350، ابن ابي شيبة11970]
”جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ازواجِ مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لائیں تاکہ وہ بھی ان پر نمازِ جنازہ پڑھ لیں۔ سو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ازواجِ مطہرات کے حجروں کے پاس جنازہ رکھا گیا کہ وہ بھی نماز پڑھ لیں اور جنازہ کو باب الجنائز سے جو مقاعد کی طرف تھا، نکالا گیا۔ ازواج کو یہ بات پہنچی کہ لوگ اسے معیوب سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جنازے مسجد میں داخل نہیں کرنے چاہئیں، جب یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا : ”لوگ جلدی عیب لگانے لگ جاتے ہیں، اس بات میں جس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے ہم پر عیب لگایا کہ جنازہ مسجد میں لایا گیا ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کی نمازِ جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔“
علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
«هٰذان الحديثان يدلان علٰي مشروعية الصلاة على الجنائز فى المسجد قال الحافظ فى الفتح وبه قال الجمهور» [عون المعبود 182/3، فتح الباري 199/3]
”یہ دونوں حدیثیں مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : ”یہی جمہور ائمہ ومحدثین کا قول ہے۔“
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وفي هذا الحديث دليل للشافعي و الا كثير ين فى جواز الصلاة على الميت فى المسجد و ممن قال به احمد واسحاق» [شرح مسلم للنوي7/ 34]
”اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر فقہاء ومحدثین کی دلیل ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرنا جائز ہے اور یہی قول امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کا ہے۔“
علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وَالْحَدِيْثُ يَدُلُّ عَلٰي جَوَازِ اِدْخَالِ الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ وَالصَّلَاةِ عَلَيْهِ فِيْهِ وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَاِسْحَاقُ وَالْجَمْهُوْرُ» [مرعاة المفاتيح 386/5]
”مذکورہ حدیث میت کو مسجد میں داخل کرنے اور اس پر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور یہی قول امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ اور جمہور فقہاء ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔“
➋ عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«ما صلى علٰي أبى بكر الا فى المسجد » [ابن أبى شيبة 44/3، 11967، عبدالرزاق 526/3، 6576، شرح السنة 351/5، الأوسط لابن المنذر 415/5، الإقناع 160/1، بيهقي 52/4]
”ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مسجد ہی میں جنازہ پڑھا گیا۔“
➌ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
«صلي علٰي عمر بن الخطاب فى المسجد» [مؤطا، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الجنائز فى المسجد 199/1، ابن أبى شيبة 11969، عبدالرزاق 6577، الأوسط لابن المنذر 415/5، بيهقي 52/2، طحاوي 492/1، شرح السنة 351/5]
”عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر نمازِ جنازہ مسجد میں ادا کی گئی۔“
مذکورہ بالا صحیح احادیث وآثار سے معلوم ہوا کہ مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرنا صحیح ودرست ہے بلکہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کیونکہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوّم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جنازے میں ہزاروں انصار و مہاجرین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے شرکت کی مگر کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور یہ جنازے مسجد میں ادا کیے گئے تھے۔
——————

نماز جنازہ میں خواتین کی شرکت
سوال : کیا خواتین نماز جنازہ میں شرکت کر سکتی ہیں ؟
جواب : اگر خواتین نمازِ جنازہ ادا کرنا چاہیں تو ادا کر سکتی ہیں۔ عبداللہ بن ابی طلحہ اپنے باپ ابوطلحہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب عمیر بن ابی طلحہ فوت ہوئے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور عمیر پر ان کے گھر میں نمازِ جنازہ ادا کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے تھے اور اُم سلیم رضی اللہ عنہا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھیں اور ان کے ساتھ ان کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ [المستدرك للحاكم 365/1، 1350]
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہما اللہ نے اس حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”عورتوں کے نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اباحت پر یہ ایک سنت غریبہ ہے۔“ اسی طرح سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پر امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم کا نمازِ جنازہ پڑھنا صحیح مسلم (973/991) وغیرہ میں مذکور ہے۔ لہٰذا خواتین اگر نمازِ جنازہ ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی شرکت کرسکتی ہیں البتہ انہیں اپنے حجاب اور پردے کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔
——————

مردہ بچے کی نماز جنازہ
سوال : بچہ اگر مردہ ہو تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب : مردہ یا ناتمام بچے کی نمازِ جنازہ ادا کرنا شرعاً مشروع و جائز ہے۔ صحیح حدیث میں ہے :
«عن المغيرة بن شعبة، واحسب ان اهل زياد اخبروني، انه رفعه إلى النبى صلى الله عليه وسلم، قال:” الراكب يسير خلف الجنازة، والماشي يمشي خلفها، وامامها، وعن يمينها، وعن يسارها، قريبا منها، والسقط يصلى عليه، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة» [ابوداؤد، كتاب الجنائز : باب المشي امام الجنازة 3180، احمد 17709]
”مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اس سے قریب رہ کر چلیں اور ناتمام بچے پر بھی نمازِ جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے رحمت اور بخشش کی دعا کی جائے۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
”اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ”ناتمام“ سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو، پھر وفات پائے۔ البتہ اس سے پہلے کی صورت میں اگر ساقط ہو جائے تو اس پر نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی، اس لیے کہ وہ میت کہلا ہی نہیں سکتی۔“ [أحكام الجنائز ص/81]
اس بات کی وضاحت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس مرفوع روایت سے ہوتی ہے :
«إن احدكم يجمع خلقه فى بطن امه اربعين يوما، ثم يكون فى ذلك علقة مثل ذلك، ثم يكون فى ذلك مضغة مثل ذلك، ثم يرسل الله الملك فينفخ فيه الروح » [مسلم، كتاب القدر، باب كيفية خلق آدمي فى بطن امه 2643]
”یقیناًً تمہاری تخلیق کا طریقہ کار یہ ہے کہ چالیس دن تک وہ ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں پڑا رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک لوتھڑے کی شکل میں، پھر اتنے ہی دن تک بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔“
لہٰذا جس بچے کے چار ماہ مکمل ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو، وہ ناتمام پیدا ہوا ہو تو اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جا سکتی ہے اور جو روح پھونکے جانے سے قبل ہی ساقط ہو جائے، اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس کو میت نہیں کہا جا سکتا۔ بعض علماء نے یہ شرط لگائی ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو خواہ اس نے سانس ایک دفعہ ہی لیا ہو، اس کی دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں :
« اذا استهل السقط صلى عليه و ورث » [أحكام الجنائز للألباني ص/81، تلخيص الحبير 146/6، المجموع 255/5، نقد التاج الجامع للأصول الخمسة 293]
”جب پیدا ہونے والا بچہ چیخے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی ہو گا۔“ یہ روایت ضعیف ہے۔
——————

خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم
سوال : کیا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنا ممنوع ہے؟
جواب : سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
”ایک آدمی بیمار ہو گیا، اس پر چیخ پکار کی گئی، اس کا پڑوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا: ”وہ مر گیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تجھے کیسے معلوم ہوا ؟“ اس نے کہا: ”میں نے اسے دیکھا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ نہیں مرا۔“ وہ آدمی واپس لوٹا تو اس آدمی پر چیخ پکار کی جا رہی تھی، اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا : ”وہ مر گیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ نہیں مرا۔“ وہ پھر واپس لوٹا تو اس پر چیخ پکار کی جا رہی تھی۔ اس آدمی کی بیوی نے کہا : ”تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر انہیں خبر دے۔“ تو اس آدمی نے کہا: ”اے اللہ ! اس پر لعنت کر۔“ پھر وہ آدمی اندر آ گیا۔ اس نے جا کر دیکھا کہ اس نے اپنے نیزے کے پھل کے ساتھ اپنا گلا کاٹ لیا ہے۔“ پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ اب مر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تجھے کیسے معلوم ہوا ؟“ اس نے کہا: ”میں نے اسے دیکھا ہے کہ اس نے اپنے نیزے کے پھل سے اپنا گلا کاٹ لیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« اذا لا اصلي عليه »
میں اس پر جنازہ نہیں پڑھوں گا۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب الإمام لا يصلي على من قتل نفسه 3185، ترمذي 161/2، ابن ماجه 1526، حاكم 364/1، بيهقي 19/4، مسند طيالسي 779، مسند أحمد 87/5]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔
مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت اور اس سے پہلے ایک خائن آدمی کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی روایت نقل کر کے لکھا ہے :
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فاسق بدکار مسلمان کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ یہی مذہب حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ کا ہے۔ مگر امام مالک، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب یہ ہے کہ فاسق کے جنازے کی نماز پڑھنی چاہیے۔ وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بذاتہ لوگوں کی عبرت و تنبیہ کے لیے نماز نہیں پڑھی تھی، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے پڑھی تھی۔“ اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نسائی کی روایت میں ہے : ”لیکن میں اس کے جنازے کی نماز نہیں پڑھوں گا۔“ [كتاب الجنائز ص/61، 62]
مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہرکیف مسلم معاشرے کے ممتاز صاحبِ علم و بصیرت افراد ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں۔ البتہ عوام الناس پڑھ لیں کیونکہ مرنے والا مسلمان آدمی ہے۔ جب قوم کے ممتاز افراد ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائیں گے تو اس طرح ایسے فاسق اور بے عمل افراد کو تنبیہ ہو گی اور برائی کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
——————

اس تحریر کو اب تک 20 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply