سوال : خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں، بعض کا خیال ہے کہ خون نکل کر بہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے صحیح موقف کیا ہے ؟
جواب : جسم سے خون نکلنے سے وضو نہیں، ٹوٹتا، اس کے کئی ایک دلائل ہیں:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوضو، باب من لم یر الوضوء الا من المخرجین کے تحت غزوہ ذات الرقاع کے ایک واقعہ کا مختصر طور پر تذکرہ کیا ہے، جو دیگر کتب حدیث میں مفصل موجود ہے۔ اس کا ماحصل یہ ہے :
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے، ایک آدمی نے مشرکین کی ایک عورت کو پا لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو اس کا خاوند جو اس وقت موجود نہیں تھا، واپس آیا اور اسے اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے حلف اٹھایا کہ وہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھیوں کا خون نہ بہا دے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقام پر اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آج رات کون چوکیداری کرے گا ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر ایک مہاجر اور ایک انصاری صحابی نے لبیک کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس گھاٹی کے دہانے پر تم دونوں پہرے کے لیے چلے جاؤ کیونکہ وہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہو سکتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی گھاٹی کی نشیبی جانب چلے گئے۔
جب چوکیداری کرنے والے ساتھی گھاٹی کے دہانے کی طرف گئے تو انصاری ساتھی نے مہاجر سے کہا: ”آپ رات کے اوّل حصے میں پہرا دینا پسند کریں گے یا آخری حصہ میں ؟“ انصاری کے لیے رات کا پہلا حصہ قرار پایا۔ مہاجر ساتھی سو گیا اور انصاری نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں وہ آدمی بھی آ پہنچا۔ اس سے گھاٹی کے دہانے پر ایک شخص دیکھا تو وہ جان گیا کہ یہ پہرے دار ہے۔ اس نے ایک تیر مارا۔ انصاری نے وہ تیر نکال کر پھینک دیا اور سیدھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے۔ اس شخص نے دوسرا، پھر تیسرا تیر مارا۔ اُنھوں نے یکے بعد دیگرے وہ تیر اپنے جسم سے نکال پھینکے اور برابر نماز پڑھتے رہے، رکوع و سجود مکمل کیے اور پھر بعد میں اپنے ساتھی کو بیدار کیا، جب اس آدمی نے ایک کے بجائے دو (پہرے دار) دیکھے تو بھاگ گیا۔ مہاجر نے جب اپنے انصاری ساتھی کو دیکھا کہ اس کے جسم سے خون ہی خون بہ رہا ہے تو فرمایا : ”سبحان اللہ ! تم نے مجھے بیدار کیوں نہیں کیا ؟ “ انصاری صحابی نے کہا: ”میں جو سورت پڑھ رہا تھا میرا دل نہ چاہا کہ میں اسے ختم کرنے سے پہلے رکوع کروں۔ جب مجھ پر یکے بعد دیگرے تیر برسائے گئے تو مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں مجھے موت آنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ذمہ جو خدمت لگائی تھی وہ فوت نہ ہو جائے۔ اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو میں مر جاتا مگر سورت ختم ہونے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔ “ [ دارقطني : 231/1، 858،۔ كتاب الحيض، باب جواز الصلاة مع خروج الدم السائل من البدن، ابوداؤد : 198۔ كتاب الطهارة : باب الوضوء من الدم، حاكم : 156/1 موارد الظمان : 250، ابن خزيمة : 36، تلخيص الحبير :115/1]
↰ اس روایت کو امام حاکم، امام ذہبی، امام این حبان اور امام ابن خزیمۃ رحمها اللہ نے صحیح کہا ہے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم سے خون کے بہ پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اگر خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا تو یہ صحابی اپنی نماز توڑ دیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یقیناً اس واقعہ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی ہو گی کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بے خبر ہوں۔ اگر آپ کو خبر ہوئی تو اب خون کے ناقض وضو ہونے کی صورت میں ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کرتے اور نماز کے فاسد ہونے کا ذکر کرتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خون ناقض وضو نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ترجمتہ الباب میں تعلیقاً لا کر بھی بھی مسئلہ سمجھایا ہے۔
اس حدیث کے ذکر سے امام بخاری رحمہ اللہ نے احناف کا رد کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ خون ناقض وضو ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و أراد المصنف بهذا الحديث الرد على الحنفية فى أن الدم السائل ينقض الوضوء [ فتح الباري : 281/1]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر احناف کا رد کیا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ بہنے والا خون ناقض وضو ہے۔ “
فائدہ : اس انصاری صحابی کا نام عباد بن بشر رضی اللہ عنہ تھا اور مہاجر صحابی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ تھے۔ انصاری صحابی سورۂ کہف کی تلاوت کر رہے تھے۔ یہ بات امام بیہقی رحمہ اللہ نے دوسری سند سے اپنی کتاب ”دلائل النبوۃ “ میں ذکر کی ہے۔ [دارقطني : 231/1، 859]
، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ [فتح الباري : 1 / 281 ]
➋ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں :
ان عمر رضى الله عنه صلى وجرحه يثعب دما [فتح الباري : 280/1]
سنن بیہقی اور ابن ابی شیبۃ میں صحیح مسند کے ساتھ موصولاً مروی ہے۔ [تلخيص الحبير : 114/1۔ المحلي : 260/1]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حالت میں نماز پڑھتے رہے کہ ان کے جسم سے خون بہ رہا تھا ؟“
➌ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے :
عصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم ولم يتوضا [اين ابي شيبة : 128/1، 1479 ]
”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پھنسی کو نچوڑا، اس میں سے خون نکلا مگر انہوں نے وضو نہیں کیا۔ “
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں :
ثم صلى و لم يتوضاً [ فتح الباري : 280/1۔ ابن ابي شيبة 128/1، 1473 ]
”پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز ادا کی لیکن وضو نہیں کیا۔ “
➍ امام طاؤس رحمہ اللہ سے مروی ہے :
انه كان لايري فى الدم السائل وضوءا يغسل عنه الدم ثم خسبه [ فتح الباري : 280/1 ]
”وہ خون نکلنے سے وضو کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے، خون کو اپنے آپ سے دھو دیتے اور بس۔ “
➎ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما زال المسلمون يصلون فى جراحاتهم [ فتح الباري : 281/1 ]
”مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کی حالت میں نماز پڑھتے رہے۔ “
➏ ابوجعفر الباقر سے امام اعمش رحمہ اللہ نے پوچھا کہ نکسیر سے بہنے والے خون کا کیا حکم ہے ؟ اُنھوں سے کہا:
لو سال نهر من دم ما اعدت منه الوضؤء [فتح البارى : 282/1]
”اگر (اس) خون کی نہر بھی جاری ہو جائے تو میں اس کی وجہ سے دوبارہ وضو نہیں کروں گا۔ “
نیز خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹا، یہ موقف مدینہ کے فقہائے سبع، امام مالک اور امام شافعی رحمها اللہ کا بھی ہے۔ [ فتح الباري : 282/1 ]
مذکورہ بالا احدیث سے معلوم ہوا کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، خون خواہ جسم کے کی بھی حصہ سے خارج ہو۔ حلق سے خارج ہو یا مسوڑھوں سے، سینگی اور پچھنے لگوانے سے ہو یا چوٹ لگنے سے۔ زخم سے ہو یا کسی پھنسی پھوڑے کے پھٹ جانے سے۔ انجکشن لگا کر نکالا جائے یا فائر لگنے سے نکلے۔ تھوڑا ہو یا زیادہ کسی بھی صورت یہ ناقض وضو نہیں ہے۔ وضو کے ٹوٹنے کے متعلق جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں، وہ قابل حجت نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھے [نصب الراية 42/1 اور مجله الدعوة ستمبر 1998ء ]