کیا حضرت اُبی بن کعبؓ نے بیس رکعت تراویح باجماعت پڑھائی؟
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

آج کل بعض دیوبندی حضرات کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر صحابی رسول حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح باجماعت پڑھائی تھیں۔ اس حوالے سے دیوبندی حلقے کی ایک پوسٹ زیرِ گردش ہے جس میں امام ضیاء الدین المقدسیؒ کی کتاب "الأحادیث المختارۃ” کی ایک روایت پیش کی گئی ہے۔ اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ امام ضیاء المقدسیؒ نے اسے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔

تاہم ہمارا موقف یہ ہے کہ:

  • مذکورہ روایت کا مرکزی راوی ابو جعفر الرازی (عیسیٰ بن ماہان) ضعیف الحدیث ہے۔
  • اس راوی پر متعدد اکابرینِ محدثین نے شدید جرح کی ہے جس کی بنیاد پر یہ روایت قابلِ قبول نہیں۔
  • امام ضیاء المقدسیؒ کی "المختارۃ” میں بعض ضعیف، منکر اور حتیٰ کہ موضوع روایات بھی موجود ہیں، اس لیے ان کا صرف روایت کو نقل کرنا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔

ذیل میں اس مسئلے کا تفصیلی علمی و تحقیقی جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔

دیوبندی حلقے کی پیش کردہ روایت:

امام ضیاء الدین ابو عبداللہ محمد بن عبد الواحد المقدسی (المتوفی: 643ھ) نے اپنی کتاب "الأحادیث المختارۃ” میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے:

حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان میں لوگوں کو نماز (تراویح) پڑھاؤں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں لیکن قراءت اچھی نہیں کرتے، اگر تم رات کو انہیں قرآن سناؤ تو بہتر ہوگا۔ حضرت اُبی بن کعبؓ نے کہا: اے امیر المومنین! یہ (تراویح میں مکمل قرآن پڑھنے کا) طریقہ پہلے نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے علم ہے، لیکن یہ اچھا طریقہ ہے۔ پس حضرت اُبی بن کعبؓ نے لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھائی۔

(الأحادیث المختارۃ: ج۳، ص۳۶۷، رقم ۱۱۶۱)

دیوبندی مکتب فکر کے بعض افراد اور محقق عبداللہ بن دھیش نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

روایت کی سند پر ہمارا علمی تبصرہ:

اس روایت کی سند میں ایک راوی "ابو جعفر الرازی (عیسیٰ بن ماہان الرازی)” موجود ہے جس پر جمہور محدثین نے شدید جرح کر رکھی ہے اور اسے ضعیف، خراب حافظے والا اور کثیر الخطا قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی۔

ذیل میں چند اہم جروحات پیش کی جاتی ہیں:

1. امام نسائی (متوفی 303ھ):

امام نسائی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي ليس بالقوي في الحديث
"ابو جعفر الرازی حدیث میں قوی نہیں ہے۔”
(السنن الصغریٰ للنسائی، رقم: 1786)

2. حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ):

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

صدوق سيئ الحفظ خصوصاً عن مغيرة
"یہ سچا تو ہے لیکن اس کا حافظہ خراب ہے خصوصاً مغیرہ سے روایت میں۔”
(تقریب التہذیب: 8019)

3. امام ابو زرعہ الرازی (متوفی 264ھ):

امام ابو زرعہ فرماتے ہیں:

شيخ يهم كثيرًا
"یہ شیخ ہے لیکن بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتا ہے۔”
(سؤالات البرذعی لأبی زرعۃ، رقم: 268)

4. امام ابو الحسن العجلی (متوفی 261ھ):

امام عجلی نے فرمایا:

ضعيف الحديث
"یہ حدیث میں ضعیف ہے۔”
(معرفۃ الثقات للعجلی، رقم: 2108)

5. امام زکریا بن یحیی الساجی (متوفی 307ھ):

امام ساجی فرماتے ہیں:

صدوق ليس بمتقن
"یہ صدوق ہے مگر پختہ اور مضبوط راوی نہیں۔”
(تاریخ بغداد)

6. امام عبدالرحمن بن یوسف ابن خراش (متوفی 283ھ):

امام ابن خراش فرماتے ہیں:

سيئ الحفظ صدوق
"یہ سچا مگر بہت خراب حافظے والا ہے۔”
(تاریخ بغداد)

7. امام عمرو بن علی الفلاس (متوفی 249ھ):

امام عمرو بن علی فرماتے ہیں:

فيه ضعف، وهو من أهل الصدق، سيئ الحفظ
"اس میں ضعف ہے، وہ سچا تو ہے مگر اس کا حافظہ خراب ہے۔”
(تاریخ بغداد)

8. امام احمد بن حنبل (متوفی 241ھ):

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي ليس بقوي في الحديث، مضطرب الحديث
"ابو جعفر الرازی حدیث میں قوی نہیں ہے، مضطرب الحدیث ہے۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال لابن حنبل)

9. امام ابن حبان (متوفی 354ھ):

امام ابن حبان فرماتے ہیں:

كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير، لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات
"یہ مشہور راویوں سے منکر روایتیں بیان کرنے میں منفرد ہے، اس کی خبر حجت نہیں جب تک یہ ثقہ راویوں کی موافقت نہ کرے۔”
(المجروحین لابن حبان، رقم: 706)

10. امام ابو الفرج ابن الجوزی (متوفی 594ھ):

ابن الجوزی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي مضطرب الحديث، وينفرد بالمناكير
"ابو جعفر الرازی مضطرب الحدیث ہے اور منکر روایات میں منفرد ہے۔”
(العلل المتناہیۃ، رقم: 1338)

11. امام ابو عبداللہ الجورقانی (متوفی 543ھ):

امام جورقانی نے فرمایا:

كان يتفرد بالمناكير عن المشاهير، لا يعجبني الاحتجاج بحديثه إلا فيما وافق الثقات
"یہ مشہور راویوں سے منکرات میں منفرد ہے، اس کی روایت صرف اسی وقت قبول ہے جب یہ ثقہ کی موافقت کرے۔”
(الأباطیل والمناکیر للجورقانی)

12. امام ابو جعفر العقیلی (متوفی 322ھ):

امام ابو جعفر العقیلی نے کہا:

ليس بالقوي في الحديث
"یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔”
(الضعفاء الکبیر للعقیلی، رقم: 1428)

13. حافظ ذہبی (متوفی 748ھ):

حافظ ذہبی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي ليس بالقوي، وهو منفرد بالمناكير عن المشاهير، والحديث الذي ينفرد به منكر.

"ابو جعفر الرازی قوی نہیں، وہ مشہور راویوں سے منکرات میں منفرد ہے اور جس روایت میں وہ منفرد ہو وہ منکر ہے۔” (میزان الاعتدال، المغنی)

14. حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ):

ابن کثیر فرماتے ہیں:

الأظهر أنه سيئ الحفظ، ففيما تفرد به نظر، وحديثه فيه غرابة ونكارة شديدة.

"ظاہر یہی ہے کہ اس کا حافظہ خراب ہے، اس کی منفرد روایات قابلِ غور ہیں، اور اس کی احادیث میں شدید نکارۃ پائی جاتی ہے۔” (تفسیر ابن کثیر)

15. حافظ ابن عبدالہادی المقدسی (متوفی 744ھ):

ابن عبدالہادی نے فرمایا:

هذه الأحاديث ضعاف، أبو جعفر الرازي كان يخلط ويخطئ.
"یہ احادیث ضعیف ہیں، ابو جعفر الرازی خلط ملط اور غلطیاں کرنے والا تھا۔”

(تنقیح التحقیق لابن عبدالہادی)

16. علامہ نورالدین ہیثمی (متوفی 807ھ):

علامہ ہیثمی کہتے ہیں:

أبو جعفر الرازي ثقة وفيه ضعف.

"ابو جعفر الرازی ثقہ ہے لیکن اس میں ضعف بھی ہے۔”
(مجمع الزوائد)

17. حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ):

حافظ ابن حجر کہتے ہیں:

صدوق سيئ الحفظ. "سچا مگر خراب حافظے والا ہے۔”
(تقریب التہذیب)

18. علامہ عینی حنفی (متوفی 855ھ):

علامہ عینی کہتے ہیں:

في أبي جعفر الرازي مقال. "ابو جعفر الرازی میں کلام ہے۔”
(البنایۃ شرح الہدایۃ)

19. علامہ زیلعی حنفی (متوفی 762ھ):

علامہ زیلعی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي فيه ضعف وليس بالقوي، مضطرب الحديث. "ابو جعفر الرازی میں ضعف ہے، یہ قوی نہیں بلکہ مضطرب الحدیث ہے۔”
(نصب الرایہ للزیلعی)

20. ابن ترکمانی حنفی (متوفی 750ھ):

ابن ترکمانی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي يهم كثيرًا وسيئ الحفظ، وليس بالقوي. "ابو جعفر الرازی کثرت سے غلطیاں کرنے والا ہے اور اس کا حافظہ خراب ہے، یہ قوی نہیں ہے۔”
(الجوہر النقی)

21. ابن الجوزی (متوفی 597ھ):

ابن الجوزی فرماتے ہیں:

أبو جعفر الرازي مضطرب الحديث وينفرد بالمناكير. "ابو جعفر الرازی مضطرب الحدیث ہے اور منکرات روایت کرنے میں منفرد ہے۔”
(الضعفاء والمتروکون)

خلاصہ کلام:

اس تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابو جعفر الرازی پر محدثین نے سخت جرحیں کی ہیں اور اسے خراب حافظے والا، مضطرب الحدیث، کثیر الوہم اور منکرات روایت کرنے والا قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کی روایت جس میں حضرت اُبی بن کعبؓ سے بیس رکعت تراویح باجماعت کا ذکر ہے، قابلِ اعتماد نہیں بلکہ ضعیف و منکر ہے۔

اہم حوالاجات کے سکرین شاٹس

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1