رَوَى مَالِكٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ مَنْ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ اللهِ يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ: أَنَّ طَائِفَةٌ وَصَفَتُ مَعَهُ، وَصَفَتْ طَائِفَةٌ وِجَاهَ الْعَدُوِّ فَصَلَّى بِالَّتِي مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَصَقُوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ وَجَاتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ مِنْ صَلَاتِهِ، ثُمَّ نَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُوا لَّا نُفُسِهِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمُ .
مالک نے یزید بن رومان سے، اس نے صالح بن خوات سے اور اس نے اس شخص سے روایت بیان کی، جس نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف اداکی تھی، ایک گر وہ نے آپ کے ساتھ صف باندھ لی اور ایک گر وہ دشمن کے سامنے صف آراء ہوا، آپ نے اس گر وہ کو نماز پڑھائی جو آپ کے ساتھ تھا ، پھر آپ کھڑے رہے اور انہوں نے از خود نماز پوری کی پھر وہ پلٹے اور دشمن کے سامنے صف آراء ہو گئے اور دوسراگروہ آیا، آپ نے اپنی نماز کی بقیہ رکعت ان کو پڑھائی پھر آپ بدستور بیٹھے رہے، انہوں نے اپنی نماز از خود پوری کی پھر آپ نے ان کے ساتھ مل کر سلام پھیرا ۔ متفق علیہ
تحقیق و تخریج:
بخاری 4129 مسلم 842
وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ وَجُهِ آخَرَ عَنْ صَالِحٍ بْنِ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أبِي حَثْمَةَ فَبَيَّنَ الْمُبْهَمَ فِي رِوَايَةِ مَالِكٍ.
شعبہ نے اس حدیث کو اس دوسرے طریق سے صالح بن خوات بن جبیر سے اور اس نے سہل بن ابی حثمہ سے روایت کیا اور اس نے مالک کی روایت میں جو ابہام پایا جاتا تھا اسے واضح کر دیا ۔
تحقيق و تخریج:
مسلم: 841
فوائد:
➊ حالت خوف میں انداز نماز بدل جاتا ہے البتہ قرآت، فرائض ، واجبات اور ادعیہ مسنونہ وہی ہوتے ہیں ۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کئی طریقوں سے ثابت ہے جیسا موقع رہا اسی طرح نماز رہی ۔ البتہ اس حدیث میں وہ طریقہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے ۔
➌ نماز خوف سفر و حضر دونوں میں جائز ہے یعنی حضر میں خطرہ ہو تو تب بھی اور سفر میں دشمن سے خطرہ ہے تو تب بھی یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے یہی مسلک جمہور علماء کا ہے بعض کہتے ہیں کہ نماز خوف کے لیے سفر شرط ہے یہ راجح قول نہیں ہے ۔
➍ اللہ تعالیٰ کو اپنے تذکرے محبو ب لگتے ہیں لیکن حالت خوف میں اپنے تذکرے کرنے والے نفسوں کی روحیں زیادہ عزیز ہیں انسان کی جان محفوظ رہے یہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کی حفاظت کا طریقہ بھی بتایا ۔
➎ اس حدیث میں آپ نے ہر ایک گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی ایک ایک انہوں نے خود پڑھی پہلے گروپ نے خود سلام پھیرا اور دوسرے گروپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سلام پھیرا ۔
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ شُعَيْبٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُهُ هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ لا يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عُمَرَ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: عَزَوْتُ مَعَ النبى سلام قِبَلَ نَحْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوِّ فَصَا فَفَنَاهُمْ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ لا / يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ فَرَكَعَ رَسُولُ اللهِ عَلى بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَحْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلُّ فَحَاوُوا فَرَكَعَ رَسُولُ الله عَلى بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَحْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةٌ وَسَجَدَ سَحُدَتَيْنِ۔
امام بخاری نے شعیب کی بیان کردہ حدیث زہری کے حوالے سے روایت کی اس نے کہا کہ میں نے اس سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نماز خوف پڑھی ہے؟ اس نے کہا مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے کہا: ””میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نجد کی جانب جنگ لڑی ہم دشمن کے بلمقابل آئے ہم ان کے سامنے صف آراء ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ہمیں نماز پڑھانے لگے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کے ساتھ رکوع اور دو سجدے کیے جو آپ کے ساتھ شریک نماز تھا پھر وہ پلٹ کر اس گروہ کی جگہ چلے گئے، جس نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ لوگ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کیے پھر ان کے ساتھ سلام پھیر دیا ان میں سے ہر ایک نے ایک رکعت اپنے طور پر کھڑے ہو کر پڑھی اور دو سجدے کیے۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1942، مسلم: 839۔
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روز مرہ زندگی کے معمولات کے بارہ میں دریافت کرتے رہنا بہت بڑا عمل ہے جو کہ حب نبی پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خوف کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔
➋ جس جنگ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شرکت فرما ئیں اسے غزوہ کہتے ہیں ۔
➌ نماز خوف کی یہ صورتیں اس وقت ہیں جب ایک جماعت ہو اس کے برعکس اگر انسان اکیلا ہو کفار کا وطن ہو اور جان کا بھی یقینی خطرہ ہو تو اشارہ بغیر خاص اہتمام کیے نماز پڑھی جا سکتی ہے یا پتا ہو کہ اتنے فاصلے پر جا کر امن مل جائے گا تو مؤخر کر لے اس طرح مصحف شریف کو لے کر کافروں کی سرحد میں جانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
➍ جماعت کی صورت میں امام کی نماز دو رکعت ہو گی جبکہ مقتدی یکے بعد دیگرے صرف ایک ایک جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے ۔
➎ خوف کے وقت نماز کی جگہ پر اسلحہ سے مسلح ہو کر کھڑے رہنا اور نمازیوں کی رکھوالی کرنا شرعاًً درست ہے ورنہ بلا خوف مسجد تو دور کی بات ہے عام حالت میں چلتے پھرتے ہوئے اسلحہ تان کر چلنا خلاف مروت امر ہے اور منع ہے ۔
وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِلَفْظ آخَرَ وَفِي آخِرِهِ: قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَإِذَا كَانَ خَوْفٌ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَلَّ رَاكِبًا وَقَائِمًا تُؤْمِيءُ إِيْمَاء
امام مسلم نے نافع کی بیان کردہ حدیث عبداللہ بن عمر کے حوالے سے بالفاظ دیگر بیان کی ، جس کے آخر میں کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا: ”جب اس سے زیادہ خوف ہو تو سوار ہو کر بھی نماز پڑھ سکتے ہو اور کھڑے کھڑے اشارے سے بھی نماز پڑھ سکتے ہو ۔“
تحقيق و تخریج:
مسلم: 839
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَحُوْا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ: إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا وَزَادَ
ابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ عَلَ: وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ النبى ال: وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا إِلَى الْقِبْلَةِ وَغَيْرِ الْقِبْلَةِ وَهُذَا الَّذِي أَشَارَ إِلَيْهِ مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِلَفْظِ: إِذَا اخْتَلَطُوا فَإِنَّمَا هُوَ الْإِشَارَةُ بِالرَّأْسِ وَالتَّكْبِيرِ
امام بخاری نے ابن جریج کی بیان کردہ حدیث، موسی بن عقبہ کے حوالے سے اور اس نے نافع سے اور اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی اس نے مجاہد کی بات کی مانند ہی کہا کہ جب وہ کھڑے مل جل جائیں اور عبداللہ بن عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ زائد بات کہی ”اگر وہ اس سے زیادہ خوف و ہراس میں مبتلا ہوں تو وہ کھڑے کھڑے یا سوار نماز ادا کر لیں قبلے کی جانب ہوں یا نہ ہوں“ یہ اشارہ ہے مجاہد کے قول کی طرف، امام بیہقی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ”جب وہ خلط ملط ہو جائیں تو سر کے اشارے اور تکبیر کے ذریعے نماز ادا کر لیں۔“
تحقيق و تخریج:
بخاری ، 943 بیهقی: 255/3
فوائد:
➊ شدت خوف کے وقت سواریوں پر پیادہ اور کھڑے ہوتے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔
➋ اس صورت میں اول پوزیشن میں قبلہ رخ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اگر نہ موقع ملے تو قبلہ و غیر قبلہ دونوں طرح درست ہے ۔
➌ اشارہ سر کے ساتھ ہو گا اور ساتھ ساتھ تکبیر بھی ہو گی ۔
➍ یہ انتہائی خوف و اندیشہ کا عالم ہے لیکن نماز نہ پڑھنے کا فرمان نہیں ملتا نماز ہے خواہ جیسے بھی ہے ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَان نَبِيِّكُم سلام فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ۔“
تحقیق و تخریج:
مسلم: 287
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے امر سے ہر بات فرماتے تھے اور ہر کام سر انجام دیتے تھے ۔ اسلام کے احکامات میں سے کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے صادر فرمایا ہو اس پر دلائل ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے جو کہ بالکل واضح الفاظ میں اس بات پر دال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے حضر کی چار، سفر کی دو اور خوف کی ایک رکعت فرض قرار دی ۔
➋ جیسے جیسے امن مفقود ہوتا جاتا ہے شرائع اسلام بھی تخفیف کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں جیسا کہ امن میں چار فرض ، سفر میں دو اور جب مزید دہشت کاسماں بنا تو ایک رکعت فرض ہوئی ۔ اب اس میں بھی مزید گنجائش ہے کہ ایک ایک رکعت نماز کے ساتھ اگر خوف بڑھ جائے تو پھر انفرا دی طور پر سوار یا پیادہ کی صورت میں سر کے اشارے اور تکبیر سے پڑھی جائے گی اگر یہ بھی حالت برقرار نہ رہ سکے تو پھر جیسے مجاہد کے لیے موقع فراہم ہو ویسے نماز پڑھ سکتا ہے ۔
وَعَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: شَهِدُتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَاةَ الْخَوْفِ فَصَفَفْنَا صَفَيْنِ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ وَالْعَدُوبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فَكَبَّرَ النبى سيم ، فَكَبَرْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكُوعِ فَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ السُّجُودِ وَالصَّفُ الَّذِي يَلِيهِ وَقَامَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ له السُّجُودَ وَقَامَ الصَّفُ الَّذِي يَلِيهِ الْحَدَرَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ السُّجُودِ وَقَامُوا ثُمَّ تَقَدَّمُ الصَّفُ الْمَوْخِرُ، وَتَأَخَّرَ الصَّفُ الْمُقَدِّمُ ثُمَّ رَكَعَ النَّبِيُّ الهِ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَرَفَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُ الَّذِي يَلِيْهِ الَّذِي كَانَ مَؤَخِّرًا فِي الرَّكْعَةِ الأولى، وَقَامَ الصَّفُ الْمُؤْخِّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ السُّجُودَ وَالصَّقُ الَّذِي يَلِيهِ الْحَدَرَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ بِالسُّجُودِ فَسَجَدُوا ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ لَهِ وَسَلَّمْنَا جَمِيعًا قَالَ جَابِرٌ: كَمَا يَصْنَعُ حَرُسُكُمْ هَؤُلَاءِ بِأَمَرَائِهِمْ . أَخْرَجَهُمَا مُسْلِمٌ.
عطاء نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا فرمایا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر ہوا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دو صفیں بنائیں دشمن ہمارے اور قبلے کے درمیان تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا تو ہم سب نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے بھی رکوع سے سر اٹھایا پھر آپ اور آپ سے متصل صف والے سجدے میں چلے گئے اور پچھلی صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ پورا کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والی صف کھڑی ہو گئی تو پچھلی صف سجدے میں چلی گئی، وہ لوگ سجدے کے بعد کھڑے ہوئے پچھلی صف والے آگے بڑھے اور اگلی صف والے پیچھے آگئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور ہم سب نے رکوع کیا پھر آپ نے اپنا سر رکوع سے اٹھایا ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے اور وہ صف بھی سجدے میں چلی گئی جو آپ کے متصل تھی میں جو کے متعد اور وہ پہلی رکعت میں پیچھے تھی پچھلی صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے متصل صف نے سجدہ پورا کر لیا تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی، انہوں نے سجدہ کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے سلام پھیرا۔ حضرت جابر فرماتے ہیں، جس طرح تمہارے چوکیدار اپنے امراء کا پہرہ دیتے ہیں“ ۔ مسلم نے دونوں نکالی ہیں۔
تحقيق و تخریج:
مسلم: 840
فوائد:
➊ اس حدیث میں ایک اور نماز خوف کا طریقہ سامنے آتا ہے ۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعت نماز پڑھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دو دو رکعت پڑھیں یعنی آپ صلى الله عليه وسلم کے دو فرض ہوئے اور دونفل ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام نفلی نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فرض پڑھے جا سکتے ہیں یہ درست ہے ۔
➋ یہاں یہ ذکر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دو دو رکعت نماز پڑھی جبکہ اس سے قبل والی حدیث میں یہ ہے کہ نماز خوف ایک رکعت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے ساتھ ایک رکعت ہے ورنہ دوسری رکعت صحابہ نے خود پڑھی ہے جو کہ ان کی دورکعت نماز بنی یہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا قول ہے ۔
➌ خوف و ہراس کی بنا پر آج بھی مساجد اور مدارس وغیرہ میں نماز کے وقت چوکیداران یا گارڈز وغیرہ تعینات ہوتے ہیں جن کا تعلق سول پرائیویٹ یاسرکار سے ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے وہ صرف پہرہ دیتے ہیں نماز نہیں پڑھتے اگر کوئی پڑھتا ہے تو رہ رہ کر نماز کے اکثر وقت نکل جانے کے بعد پڑھتا ہے ۔ کیونکہ ان حضرات کا مطمع نظر صرف نگہبانی ہوتا ہے یعنی اپنی ڈیوٹی سے غرض ہوتی ہے جو کہ ایک مجبوری بھی ہوتی ہے اور پیٹ پالنا بھی ہوتا ہے ۔ ورنہ ان محکموں میں کوئی خاص طور پر ان کو نمازوں کا عا دی تھوڑا بنایا جاتا ہے ۔ عبادت سے کنی کتراتے ہیں نماز پڑھنا ان کو صیح آتی نہیں یہ قابل توجہ امر ہے ۔ ایسے ہی منتظمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی نمازوں کا خیال رکھیں اور ان کو بروقت نماز پڑھنے کا موقع دیں ۔ گارڈز حضرات کو ہر نماز ایک فریضہ سمجھ کر پڑھنی چاہیے سستی اور ریاکاری سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
مالک نے یزید بن رومان سے، اس نے صالح بن خوات سے اور اس نے اس شخص سے روایت بیان کی، جس نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف اداکی تھی، ایک گر وہ نے آپ کے ساتھ صف باندھ لی اور ایک گر وہ دشمن کے سامنے صف آراء ہوا، آپ نے اس گر وہ کو نماز پڑھائی جو آپ کے ساتھ تھا ، پھر آپ کھڑے رہے اور انہوں نے از خود نماز پوری کی پھر وہ پلٹے اور دشمن کے سامنے صف آراء ہو گئے اور دوسراگروہ آیا، آپ نے اپنی نماز کی بقیہ رکعت ان کو پڑھائی پھر آپ بدستور بیٹھے رہے، انہوں نے اپنی نماز از خود پوری کی پھر آپ نے ان کے ساتھ مل کر سلام پھیرا ۔ متفق علیہ
تحقیق و تخریج:
بخاری 4129 مسلم 842
وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ وَجُهِ آخَرَ عَنْ صَالِحٍ بْنِ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أبِي حَثْمَةَ فَبَيَّنَ الْمُبْهَمَ فِي رِوَايَةِ مَالِكٍ.
شعبہ نے اس حدیث کو اس دوسرے طریق سے صالح بن خوات بن جبیر سے اور اس نے سہل بن ابی حثمہ سے روایت کیا اور اس نے مالک کی روایت میں جو ابہام پایا جاتا تھا اسے واضح کر دیا ۔
تحقيق و تخریج:
مسلم: 841
فوائد:
➊ حالت خوف میں انداز نماز بدل جاتا ہے البتہ قرآت، فرائض ، واجبات اور ادعیہ مسنونہ وہی ہوتے ہیں ۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کئی طریقوں سے ثابت ہے جیسا موقع رہا اسی طرح نماز رہی ۔ البتہ اس حدیث میں وہ طریقہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے ۔
➌ نماز خوف سفر و حضر دونوں میں جائز ہے یعنی حضر میں خطرہ ہو تو تب بھی اور سفر میں دشمن سے خطرہ ہے تو تب بھی یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے یہی مسلک جمہور علماء کا ہے بعض کہتے ہیں کہ نماز خوف کے لیے سفر شرط ہے یہ راجح قول نہیں ہے ۔
➍ اللہ تعالیٰ کو اپنے تذکرے محبو ب لگتے ہیں لیکن حالت خوف میں اپنے تذکرے کرنے والے نفسوں کی روحیں زیادہ عزیز ہیں انسان کی جان محفوظ رہے یہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کی حفاظت کا طریقہ بھی بتایا ۔
➎ اس حدیث میں آپ نے ہر ایک گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی ایک ایک انہوں نے خود پڑھی پہلے گروپ نے خود سلام پھیرا اور دوسرے گروپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سلام پھیرا ۔
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ شُعَيْبٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُهُ هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ لا يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عُمَرَ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: عَزَوْتُ مَعَ النبى سلام قِبَلَ نَحْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوِّ فَصَا فَفَنَاهُمْ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ لا / يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ فَرَكَعَ رَسُولُ اللهِ عَلى بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَحْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلُّ فَحَاوُوا فَرَكَعَ رَسُولُ الله عَلى بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَحْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةٌ وَسَجَدَ سَحُدَتَيْنِ۔
امام بخاری نے شعیب کی بیان کردہ حدیث زہری کے حوالے سے روایت کی اس نے کہا کہ میں نے اس سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نماز خوف پڑھی ہے؟ اس نے کہا مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے کہا: ””میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نجد کی جانب جنگ لڑی ہم دشمن کے بلمقابل آئے ہم ان کے سامنے صف آراء ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ہمیں نماز پڑھانے لگے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کے ساتھ رکوع اور دو سجدے کیے جو آپ کے ساتھ شریک نماز تھا پھر وہ پلٹ کر اس گروہ کی جگہ چلے گئے، جس نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ لوگ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کیے پھر ان کے ساتھ سلام پھیر دیا ان میں سے ہر ایک نے ایک رکعت اپنے طور پر کھڑے ہو کر پڑھی اور دو سجدے کیے۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1942، مسلم: 839۔
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روز مرہ زندگی کے معمولات کے بارہ میں دریافت کرتے رہنا بہت بڑا عمل ہے جو کہ حب نبی پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خوف کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔
➋ جس جنگ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شرکت فرما ئیں اسے غزوہ کہتے ہیں ۔
➌ نماز خوف کی یہ صورتیں اس وقت ہیں جب ایک جماعت ہو اس کے برعکس اگر انسان اکیلا ہو کفار کا وطن ہو اور جان کا بھی یقینی خطرہ ہو تو اشارہ بغیر خاص اہتمام کیے نماز پڑھی جا سکتی ہے یا پتا ہو کہ اتنے فاصلے پر جا کر امن مل جائے گا تو مؤخر کر لے اس طرح مصحف شریف کو لے کر کافروں کی سرحد میں جانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
➍ جماعت کی صورت میں امام کی نماز دو رکعت ہو گی جبکہ مقتدی یکے بعد دیگرے صرف ایک ایک جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے ۔
➎ خوف کے وقت نماز کی جگہ پر اسلحہ سے مسلح ہو کر کھڑے رہنا اور نمازیوں کی رکھوالی کرنا شرعاًً درست ہے ورنہ بلا خوف مسجد تو دور کی بات ہے عام حالت میں چلتے پھرتے ہوئے اسلحہ تان کر چلنا خلاف مروت امر ہے اور منع ہے ۔
وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِلَفْظ آخَرَ وَفِي آخِرِهِ: قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَإِذَا كَانَ خَوْفٌ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَلَّ رَاكِبًا وَقَائِمًا تُؤْمِيءُ إِيْمَاء
امام مسلم نے نافع کی بیان کردہ حدیث عبداللہ بن عمر کے حوالے سے بالفاظ دیگر بیان کی ، جس کے آخر میں کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا: ”جب اس سے زیادہ خوف ہو تو سوار ہو کر بھی نماز پڑھ سکتے ہو اور کھڑے کھڑے اشارے سے بھی نماز پڑھ سکتے ہو ۔“
تحقيق و تخریج:
مسلم: 839
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَحُوْا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ: إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا وَزَادَ
ابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ عَلَ: وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ النبى ال: وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا إِلَى الْقِبْلَةِ وَغَيْرِ الْقِبْلَةِ وَهُذَا الَّذِي أَشَارَ إِلَيْهِ مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِلَفْظِ: إِذَا اخْتَلَطُوا فَإِنَّمَا هُوَ الْإِشَارَةُ بِالرَّأْسِ وَالتَّكْبِيرِ
امام بخاری نے ابن جریج کی بیان کردہ حدیث، موسی بن عقبہ کے حوالے سے اور اس نے نافع سے اور اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی اس نے مجاہد کی بات کی مانند ہی کہا کہ جب وہ کھڑے مل جل جائیں اور عبداللہ بن عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ زائد بات کہی ”اگر وہ اس سے زیادہ خوف و ہراس میں مبتلا ہوں تو وہ کھڑے کھڑے یا سوار نماز ادا کر لیں قبلے کی جانب ہوں یا نہ ہوں“ یہ اشارہ ہے مجاہد کے قول کی طرف، امام بیہقی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ”جب وہ خلط ملط ہو جائیں تو سر کے اشارے اور تکبیر کے ذریعے نماز ادا کر لیں۔“
تحقيق و تخریج:
بخاری ، 943 بیهقی: 255/3
فوائد:
➊ شدت خوف کے وقت سواریوں پر پیادہ اور کھڑے ہوتے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔
➋ اس صورت میں اول پوزیشن میں قبلہ رخ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اگر نہ موقع ملے تو قبلہ و غیر قبلہ دونوں طرح درست ہے ۔
➌ اشارہ سر کے ساتھ ہو گا اور ساتھ ساتھ تکبیر بھی ہو گی ۔
➍ یہ انتہائی خوف و اندیشہ کا عالم ہے لیکن نماز نہ پڑھنے کا فرمان نہیں ملتا نماز ہے خواہ جیسے بھی ہے ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَان نَبِيِّكُم سلام فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ۔“
تحقیق و تخریج:
مسلم: 287
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے امر سے ہر بات فرماتے تھے اور ہر کام سر انجام دیتے تھے ۔ اسلام کے احکامات میں سے کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے صادر فرمایا ہو اس پر دلائل ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے جو کہ بالکل واضح الفاظ میں اس بات پر دال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے حضر کی چار، سفر کی دو اور خوف کی ایک رکعت فرض قرار دی ۔
➋ جیسے جیسے امن مفقود ہوتا جاتا ہے شرائع اسلام بھی تخفیف کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں جیسا کہ امن میں چار فرض ، سفر میں دو اور جب مزید دہشت کاسماں بنا تو ایک رکعت فرض ہوئی ۔ اب اس میں بھی مزید گنجائش ہے کہ ایک ایک رکعت نماز کے ساتھ اگر خوف بڑھ جائے تو پھر انفرا دی طور پر سوار یا پیادہ کی صورت میں سر کے اشارے اور تکبیر سے پڑھی جائے گی اگر یہ بھی حالت برقرار نہ رہ سکے تو پھر جیسے مجاہد کے لیے موقع فراہم ہو ویسے نماز پڑھ سکتا ہے ۔
وَعَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: شَهِدُتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَاةَ الْخَوْفِ فَصَفَفْنَا صَفَيْنِ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ وَالْعَدُوبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فَكَبَّرَ النبى سيم ، فَكَبَرْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكُوعِ فَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ السُّجُودِ وَالصَّفُ الَّذِي يَلِيهِ وَقَامَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ له السُّجُودَ وَقَامَ الصَّفُ الَّذِي يَلِيهِ الْحَدَرَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ السُّجُودِ وَقَامُوا ثُمَّ تَقَدَّمُ الصَّفُ الْمَوْخِرُ، وَتَأَخَّرَ الصَّفُ الْمُقَدِّمُ ثُمَّ رَكَعَ النَّبِيُّ الهِ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَرَفَعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُ الَّذِي يَلِيْهِ الَّذِي كَانَ مَؤَخِّرًا فِي الرَّكْعَةِ الأولى، وَقَامَ الصَّفُ الْمُؤْخِّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ السُّجُودَ وَالصَّقُ الَّذِي يَلِيهِ الْحَدَرَ الصَّفُ الْمُؤَخِّرُ بِالسُّجُودِ فَسَجَدُوا ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ لَهِ وَسَلَّمْنَا جَمِيعًا قَالَ جَابِرٌ: كَمَا يَصْنَعُ حَرُسُكُمْ هَؤُلَاءِ بِأَمَرَائِهِمْ . أَخْرَجَهُمَا مُسْلِمٌ.
عطاء نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا فرمایا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر ہوا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دو صفیں بنائیں دشمن ہمارے اور قبلے کے درمیان تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا تو ہم سب نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے بھی رکوع سے سر اٹھایا پھر آپ اور آپ سے متصل صف والے سجدے میں چلے گئے اور پچھلی صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ پورا کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والی صف کھڑی ہو گئی تو پچھلی صف سجدے میں چلی گئی، وہ لوگ سجدے کے بعد کھڑے ہوئے پچھلی صف والے آگے بڑھے اور اگلی صف والے پیچھے آگئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور ہم سب نے رکوع کیا پھر آپ نے اپنا سر رکوع سے اٹھایا ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے اور وہ صف بھی سجدے میں چلی گئی جو آپ کے متصل تھی میں جو کے متعد اور وہ پہلی رکعت میں پیچھے تھی پچھلی صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے متصل صف نے سجدہ پورا کر لیا تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی، انہوں نے سجدہ کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے سلام پھیرا۔ حضرت جابر فرماتے ہیں، جس طرح تمہارے چوکیدار اپنے امراء کا پہرہ دیتے ہیں“ ۔ مسلم نے دونوں نکالی ہیں۔
تحقيق و تخریج:
مسلم: 840
فوائد:
➊ اس حدیث میں ایک اور نماز خوف کا طریقہ سامنے آتا ہے ۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعت نماز پڑھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دو دو رکعت پڑھیں یعنی آپ صلى الله عليه وسلم کے دو فرض ہوئے اور دونفل ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام نفلی نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فرض پڑھے جا سکتے ہیں یہ درست ہے ۔
➋ یہاں یہ ذکر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دو دو رکعت نماز پڑھی جبکہ اس سے قبل والی حدیث میں یہ ہے کہ نماز خوف ایک رکعت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے ساتھ ایک رکعت ہے ورنہ دوسری رکعت صحابہ نے خود پڑھی ہے جو کہ ان کی دورکعت نماز بنی یہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا قول ہے ۔
➌ خوف و ہراس کی بنا پر آج بھی مساجد اور مدارس وغیرہ میں نماز کے وقت چوکیداران یا گارڈز وغیرہ تعینات ہوتے ہیں جن کا تعلق سول پرائیویٹ یاسرکار سے ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے وہ صرف پہرہ دیتے ہیں نماز نہیں پڑھتے اگر کوئی پڑھتا ہے تو رہ رہ کر نماز کے اکثر وقت نکل جانے کے بعد پڑھتا ہے ۔ کیونکہ ان حضرات کا مطمع نظر صرف نگہبانی ہوتا ہے یعنی اپنی ڈیوٹی سے غرض ہوتی ہے جو کہ ایک مجبوری بھی ہوتی ہے اور پیٹ پالنا بھی ہوتا ہے ۔ ورنہ ان محکموں میں کوئی خاص طور پر ان کو نمازوں کا عا دی تھوڑا بنایا جاتا ہے ۔ عبادت سے کنی کتراتے ہیں نماز پڑھنا ان کو صیح آتی نہیں یہ قابل توجہ امر ہے ۔ ایسے ہی منتظمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی نمازوں کا خیال رکھیں اور ان کو بروقت نماز پڑھنے کا موقع دیں ۔ گارڈز حضرات کو ہر نماز ایک فریضہ سمجھ کر پڑھنی چاہیے سستی اور ریاکاری سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]