سوال
کہتے ہیں ابن خزیمہ کی کتاب میں ابو ہریرہؓ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ کسی کو جماعت کی نماز میں رکوع مل جانے سے اُسے رکعت ملنا شمار کیا جائے گا تو اس بارے میں حقیقت کیا ہے؟ باوجود قیام نہ ملنے اور سورۂ فاتحہ نہ پڑھ سکنے کے رکعت شمار کی جائے گی؟
الجواب
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ (ج ۳ ص ۵۸ ح ۱۶۲۲) میں یحیٰی بن ابی سلیمان عن زید بن ابی العتاب وابن المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے موجود ہے۔ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں:
في القلب من هذا الإسناد فإني كنت لا أعرف يحيى بن أبي سليمان بعدالة ولا جرح
اس سند سے دل میں (ایک کھٹک) ہے کیونکہ میں یحییٰ بن ابی سلیمان کو جرح یا تعدیل کے ساتھ نہیں پہچانتا۔
صحیح ابن خزیمہ کے علاوہ یہ روایت سنن ابی داود (۸۹۳) سنن دار قطنی سنن بیہقی اور مستدرک الحاکم (ج اص ۲۱۶ ،۲۷۴،۲۷۳ و صحه ووافقہ الذہبی وخالفه مرة اخری) میں بھی یحییٰ بن ابی سلیمان کی سند سے موجود ہے۔
راقم الحروف نے ابوداود شریف کے حاشیہ ’’نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود‘‘(ج اص ۲۸۸، قلمی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ یحییٰ مذکور، جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام بخاری نے اسے”منکر الحدیث“ کہا ہے۔
(جزء القرأت للبخاري ص ٥٧ ح ١٥٧)
جو کہ شدید جرح ہے۔ یحییٰ بن ابی سلیمان کی حدیث کے جتنے شواہد ہیں سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی نے ’’مسائل احمد واسحاق‘‘لاسحاق بن منصور المروزی سے ایک شاہد ذکر کر کے ”وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين“ قرار دیا ہے۔
(سلسلة الاحاديث الصحيحة ٣/ ١٨٥ ح ١١٨٨)
حالانکہ اس سند میں ابن مغفل المزنی کا تعین محل نظر ہے۔
تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب وغیر ہما میں عبداللہ بن مغفل المزنی الصحابی کے حالات میں عبدالعزیز بن رفیع کا بطور شاگرد تذکرہ نہیں ہے، بلکہ شداد بن معقل الکوفی الاسدی کے شاگردوں میں عبدالعزیز اور عبدالعزیز کے استادوں میں شداد کا ذکر ملتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ اصل مخطوطہ میں ”ابن معصل‘‘ غیر منقوط ہو جسے شیخ صاحب نے ابن مغفل سمجھ لیا ہے، حالانکہ اسے ابن معقل بھی پڑھا جا سکتا ہے، لہذا ضرورت یہ ہے کہ اس کتاب کے قلمی نسخوں کو دیکھا جائے تا کہ ابن مغفل یا ابن معقل کا تعین ہو سکے۔ ابن معقل کے تعین کی صورت میں یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو جاتی ہے۔