مؤلف تحفہ اہل حدیث کی گپ
امام صاحب نے پچپن حج کیے ہیں‘ صحابہ کرام میں جا کر نمازیں پڑھی ہیں ، جو کام صحابہ کرام کو کرتے دیکھا ہے‘ وہ آپ کا آخری عمل سمجھ کر امام صاحب محفوظ فرما لیتے اور جو روایات خیر القرون میں صحابہ نے ترک کر دیں وہ امام صاحب نے بھی ترک کر دیں اگر وہ روایات قابل عمل ہوتی تو آپ کے یار ضرور عمل کرتے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 59)
الجواب:-
اولاً:-
ہمارا پوری دنیا کے منکرین سنت کو کھلا چیلنج ہے کہ جس بات کا دعویٰ ابو بلال نے کیا ہے اس کا ثبوت کسی صحیح روایت سے ثابت کریں‘ یاد رکھیے پوری دنیا کے مقلدین سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود کوئی ایسی روایت ثابت نہیں کر سکتے‘ ان شاء الرحمٰن پہلے حضرت امام ابو حنیفہ کا اقرار نقل کیا جا چکا ہے کہ جس میں ان کے تابعی ہونے کی نفی ہوتی ہے‘ اور علامہ فتنی کی عبارت بھی ہم نقل کر آئے ہیں کہ امام صاحب تا بعی نہیں گو ان کے مقلدین کا یہ دعوٰی ہے مگر ان کے دلائل محققین کے نزدیک غیر معتبر ہیں، لیکن مؤلف تحفہ اہل حدیث ان کی ملاقات ایک گروہ صحابہ سے باور کرارہا ہے جو سرے سے قابل التفات ہی نہیں۔
ثانیاً:-
خود حضرت امام ابو حنیفہ کا اقرار ہے کہ میر اعلم فقہ تمام ترقیاس ورائے پر۔
(وقد روى ابویوسف والحسن بن زياد كلاهما عن أبي حنيفة انه قال علمنا هذا رأى وهو احسن ما قدرنا عليه )
یعنی قاضی ابو یوسف اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ ہمارا پورے کا پورا علم فقہ و فتاویٰ سب رائے و قیاس ہی ہے۔ اپنی رائے وقیاس کے مطابق مقدور بھر ہم نے صحیح بات کہی ہے۔
(اعلام الموقعین ص 75 ج 1 و تاریخ بغداد ص 352 ج 13)
امام ابو حنیفہ کے اس قول سے ثابت ہوا کہ ان کا مرتب و مدون کردہ یا بیان کردہ سارا علم فقه و علم کلام و غیرہ محض رائے و قیاس ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اہل الرای اور اہل الحدیث کا فرق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
(لم يكن عندهم من الاحاديث والآثار ما يقدرون به على استناد الفقه على الاصول التي اختار ها اهل الحديث ….. الخ)
یعنی اہل الرای کے پاس احادیث نبویہ اور آثار صحابہ کا اتنا علم نہیں تھا جس سے یہ لوگ اہل حدیث کے اختیار کردہ اصول پر فقہی مسائل استنباط کر سکتے اور نہ ان لوگوں کے دلوں میں اتنی وسعت و ہمت ہی تھی کہ وہ تمام علماء کے اقوال پر نظر کر سکتے اور نہ ان کے سینوں میں اتنی فراخی تھی کہ وہ اقوال اہل علم کو جمع کر کے ان پر بحث و نظر کرتے۔
(حجۃ اللہ البالغہ ص 152 ج 1)
پھر اہل الرای کے طریق کار پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(بل المراد من اهل الراى قوم توجهوا بعد المسائل المجمع عليها بين المسلمين أو بين جمهور هم الى التخريج على اصل رجل من المتقدمين وكان أكثر أمرهم حمل النظير على النظير والراى اصل من الاصول دون تتبع الاحاديث والاثار الخ ) ( الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ص 27)
یعنی اہل الرای سے مراد وہ لوگ ہیں جو متقدمین میں سے کسی آدمی کے وضع کردہ اصول کے مطابق مسائل کا استنباط و استخراج کرتے تھے‘ انہیں احادیث و آثار کی تلاش و جستجو نہیں ہوتی۔ انتہی پھر خاص امام ابو حنیفہ کے طریق کار پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(وكان ابو حنيفة الزمهم بمذهب ابراهيم واقرانه لا يجاوزه الاماشاء الله وكان عظيم الشان في تخريج على مذهبه دقيق النظر في وجوه التخريجات مقبلاً على الفروع اتم اقبال )
(حجۃ اللہ البالغہ ص 146 ج 1)
یعنی امام ابو حنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کو لازم پکڑتے تھے‘ اور بہت ہی کم ان سے تجاوز کرتے اور امام نخعی کے مذہب کی تخریج میں بڑی شان رکھتے اور تخریج کی وجوہ میں سے‘ فروغ پر پوری توجہ اور انہماک تھا۔ انتہی
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ اہل الرای کسی شخص کے وضع کردہ اصول پر مسائل کا استنباط قیاس ورائے سے کرتے تھے اور انہیں احادیث نبویہ اور آثار صحابہ کرام سے سرے سے کوئی سروکار ہی نہ تھا اور یہ کہ امام ابو حنیفہ امام ابراہیم نخعی کے اصول پر مسائل کا استنباط کرتے تھے۔
امام صاحب کی مجلس علمی پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(ماكان على ظهر الارض مجلس احب الى من مجلس سفيان الثوري كنت اذا شئت ان تراه مصلیا رايته واذا شئت ان تراه في ذكر الله عزوجل رايته وكنت اذا شئت أن تراه في الغامض من الفقه رايته واما مجلس لا اعلم اني شهدته صلى فيه على النبي قط فمجلس ثم سكت ولم يذكر فقال يعني مجلس أبي حنفية)
یعنی میرے نزدیک کرہ ارض کے اوپر امام سفیان ثوری کی مجلس سے زیادہ محبوب اور کوئی مجلس نہیں، میں نے جب چاہا کہ ان کو نماز کی حالت میں دیکھوں تو میں نے انہیں دیکھا‘ اور جب میں نے چاہا کہ انہیں اللہ کے ذکر میں مشغول پاؤں تو میں نے انہیں دیکھا اور جب میں نے انہیں فقہی مسائل میں غور و خوض کرتے دیکھنا چاہا تو دیکھا لیکن میں جب بھی امام ابو حنیفہ کی مجلس میں گیا تو میں نے وہاں نبی صلى الله عليه وسلم پر درود و سلام پڑھتے نہیں سنا۔
(کتاب السنتہ ص 214 ج 1 لابن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ)
اس روایت کی سند صحیح ہے اور کہنے والے بھی امام عبداللہ بن مبارک ہیں جنہیں مقلدین حضرات حنفی باور کراتے ہیں۔
(طائفہ منصورہ ص60)
مجلس امام ابو حنیفہ میں درود نہ پڑھا جانے کی صرف یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہاں حدیث رسول کا کبھی ذکر ہی نہیں آیا‘ اگر وہاں سنت مصطفی صلى الله عليه وسلم کا تذکرہ ہوا کرتا پھر اس کے ناسخ و منسوخ سے بھی بحث ہوتی تو وہاں ذکر رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم پر درود ضرور پڑھا جاتا‘ یہ ناممکن ہے کہ امام صاحب جیسا عابد وزاہد ذکر رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم پر درود نہ پڑھتا ہو، الغرض امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے نہایت احسن انداز میں امام صاحب کی مجلس کا حال بیان کر دیا کہ وہاں زیادہ تر مسائل کا حل رائے اور قیاس سے ہو تا تھا۔
ثالثاً:-
مؤلف تخفہ اہل حدیث کا یہ دعویٰ کہ امام صاحب نے خیر القرون میں جو کام صحابہ کرام کو کرتے دیکھا تھا اسے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا آخری عمل سمجھ کر محفوظ فرمالیا‘ دعویٰ بلادلیل ہے‘ اور بے دلیل دعویٰ سے آپ امام ابو حنیفہ کو پوری امت محمد یہ کا وارث اور متاع باور کرانا چاہتے ہیں‘ خاکسار راقم الحروف آواز بلند یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ امام صاحب کی صرف ایک حدیث کسی بھی صحابی سے صحیح متصل سند کے ساتھ کتب حدیث سے ثابت کر دیں تو راقم آپ کو اپنی جیب خاص سے دس روپے حق محنت دے گا‘ ان شاء اللہ
ہماری طرف سے آپ کو کھلی چھٹی ہے کہ دیو بند سے مدد حاصل کریں یا بریلی سے کمک منگالیں یا قادیان سے تحقیقات چوری کر کے‘ المصالح العقلیہ کا نام دے لیں۔ مگر یاد رکھئے آپ پوری ذریت خنفیت کو بھی ساتھ ملا لیں تو تب بھی آپ کو یقیناً ناکامی و نامرادی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ