"کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ” کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

کیا "کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ” حدیث ہے؟

جواب

"کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ ایک معروف فقہی قول ہے جسے عطاء رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں "کتاب الایمان” کے ایک باب کے ترجمہ میں اس قول کو ذکر کیا ہے اور اس کا مضمون صحیح احادیث سے ثابت کیا ہے۔

مفہوم

"کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ” کا مطلب ہے ایسا کفر جو حقیقی کفر نہیں ہوتا، یعنی جو ایمان سے بالکل خارج کرنے والا کفر نہیں، بلکہ ناشکری یا نافرمانی کے معنوں میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔”
صحابہ نے پوچھا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔”
(صحیح بخاری)

یہاں کفر سے مراد اللہ کا انکار نہیں بلکہ شوہر اور احسان کی ناشکری ہے، جو "کفرانِ نعمت” کہلاتا ہے۔ اسی قسم کے کفر کو "کفر دون کفر” کہا جاتا ہے۔

خلاصہ

"کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ” کوئی حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا مطلب ایسا کفر ہے جو حقیقی یا شرعی کفر نہیں ہوتا، بلکہ ناشکری یا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا استعمال بعض فقہی مباحث میں کیا جاتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے