کن اصناف خوراک سے صدقۂ فطر نکالنا چاہیے؟
133۔ زکاۃ الفطر کا معنی :
زکاۃ کا لغو ی معنی بڑھنا اور زیادہ ہونا ہے۔ اس کا اطلاق پاک کرنے پر بھی ہوتا ہے چونکہ یہ زکاۃ ادا کرنے والے کو گناہوں سے پاک کرتی اور اس کے اجر و ثواب کو بڑھاتی ہے۔ اس لئے اسے زکاۃ کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا [91-الشمس:9 ]
’’ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا “۔
فطر : فطر افطر الصائم إفطارا “ سے اسم مصدر ہے۔ یہ ’’ فطرت “ سے ماخوذ ہے جو اصل خلقت کے معنی میں ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد بدن کا صدقہ ہے۔
(اسی لیے اسے صدقۃ الفطر بھی کہتے ہیں۔ ) 135۔ زکاۃ الفطر کے وجوب کے دلائل :
اس کا ثبوت کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع تینوں سے ہے۔
دلیلِ کتاب : زکاۃ الفطر اللہ تعالیٰ کے فرمان وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ یعنی ’’ زکاۃ ادا کرو “ کے عموم میں داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس میں سے ’’ زکاۃ الفطر “ بھی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [87-الأعلى:14]
’’ یقیناًً ان لوگوں نے فلاح پالی جو پاک ہو گئے “۔
یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیت کریمہ زکاۃ الفطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
دلیلِ سنت : صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
فرض رسول اللہ صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثي والصغير والكبير من المسلمين وأمر بها أن تؤدي قبل خروج الناس إلى الصلاة [صحيح: صحيح بخاري، الزكاة 24 باب فرض صدقة الفطر 70 رقم 1503 وباب صدقة الفطر على العبد وغيره من المسلمين 71 رقم 1504 و باب صدقة الفطر على الحر والمملوك 77 رقم 1511 وباب صدقة الفطر على الصغير والكبير 78 رقم 1512، صحيح مسلم، الزكاة 12 باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير 4 رقم 12، 13، 14، 984]
’’ صدقۂ فطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو، غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے، اور لوگوں کے صلاۃ عید کے لئے نکلنے سے پہلے اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے “۔
دلیلِ اجماع : ابن منذر وغیرہ نے اس کے وجوب پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ [الإجماع، امام ابن المنذر، الزكاة، 106 ] 137۔ صدقۂ فطر کی مشروعیت کی حکمت :
صدقۂ فطر کی ادائیگی کی حکمتیں درج ذیل ہیں :
➊ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری۔
➋ ادائیگی اور اتمامِ صوم کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری۔
➌ لغو اور بیہودہ باتوں سے صائم کی پاکی۔
➍ فقراء اور مساکین کے ساتھ احسان اور عید کے دن انہیں مانگنے سے بےنیاز کرنا، تاکہ عید کی خوشی و مسرت میں مالداروں کے ساتھ یہ بھی شریک ہو سکیں۔ 138۔ کن اصناف خوراک سے صدقۂ فطر نکالنا چاہیے :
صدقۂ فطر ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث میں مذکور اشیاء سے نکالنا چاہیے :
كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط أو صاعا من زبيب [صحيح: صحيح بخاري، الزكاة 24 باب صدقة الفطر صاع من طعام 73رقم 1506 وباب صاع من زبيب 75 رقم 1508، صحيح مسلم، الزكاة 12 باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير 4 رقم 17، 18، 985]
’’ ہم صدقۂ فطر ایک صاع گیہوں، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع پنیر، یا ایک صاع کشمش سے نکالتے تھے “۔

139۔ ان اصناف کے علاوہ دیگر چیزوں سے نکالنے کا حکم :
حدیث میں مذکور اشیاء کے علاوہ دیگر چیزیں جن کا تعلق انسانی غذا سے ہو جیسے چاول اور مکئی وغیرہ ان کا نکالناجائز ہے، محققین اہل علم کی یہی رائے ہے۔

140۔ کس قسم کی چیز نکالنا افضل ہے ؟
کھجور، پھر کشمش، پھر گیہوں، پھر جو، پھر ان دونوں کا آٹا پھر ان دونوں کا ستو، پھر پنیر۔
اور بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ مذکورہ بالا چھ چیزوں میں افضلیت اس کی ہے جس کے نکالنے میں فقراء کی مصلحت اور شہر کی عام غذا کی رعایت کی جائے۔ یہی اولیٰ و افضل ہے۔

141۔ صدقۂ فطر نقدی (قیمت) دینے کا حکم :
صدقۂ فطر میں نقدی (قیمت) نکالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ شرعی دلیلوں کے خلاف ہے اس لئے کہ نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور نہ آپ کے کسی صحابی سے کہ انہوں نے صدقۂ فطر میں قیمت نکالی ہو۔ جبکہ وہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے جانکار (اور سب سے بڑے پیروکار) تھے۔

142۔ صدقہ فطر کی واجبی مقدار :
(صاعِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ) ایک صاع یعنی موجودہ وقت میں تقریباً سوا دو کلو گرام۔ شیخ ’’ طیار “ نے بذاتِ خود ناپنے کے بعد ذکر کیا ہے کہ ہمارے علم کے مطابق یہ سب سے واضح پیمانہ ہے۔ اور یہی زیادہ محتاط بات ہے۔ واللہ اعلم۔

143۔ کن لوگوں پر صدقۂ فطر واجب ہے ؟
صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے جس کے پاس اس کے اور اس کے اہل و عیال کے لئے عید کے دن اور اس کی رات کے کھانے اور ضروری اخراجات سے زائد ہو۔ یہ صدقہ آدمی اپنی اور اپنے زیرِ کفالت مسلمان افراد جیسے اس کی بیوی، اس کی اولاد، اس کے خادم کی طرف سے نکالے جن کا وہ ولی ہو اور ان پر خرچ کرتا ہو۔

144۔ بچہ کا حکم :
بچہ کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں :
➊ اگر وہ (عید کی رات میں) غروبِ آفتاب سے پہلے پیدا ہو تو اس کی طرف سے صدقہ نکالنا ضروری ہے۔
➋ اور اگر غروبِ آفتاب کے بعد پیدا ہو تو واجب نہیں ہے، لیکن مستحب ہے۔ اسی طرح کافر آدمی اگر غروبِ آفتاب سے پہلے مسلمان ہو جائے تو اس پر صدقہ واجب ہے، اور اگر غروبِ آفتاب کے بعد اسلام لائے تو واجب نہیں ہے۔

145۔ جنین کا حکم :
پیٹ کے بچہ پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے لیکن مستحب ہے۔ لہٰذا اس کی طرف سے ایک صاع نکال دیا جائے۔

146۔ وجوب صدقہ کا وقت :
رمضان کی آخری تاریخ کو سورج ڈوبنے سے صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے۔

147۔ صدقہ کی ادائیگی کا وقت :
صدقہ فطر کی ادائیگی کا دو وقت ہے :
➊ وقتِ فضیلت : عید کے دن صلاۃِ فجر سے صلاۃِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے تک ہے۔
➋ وقتِ جواز : عید کے ایک یا دو روز پہلے ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص صلاۃ عید کے بعد صدقہ نکالے تو وہ دو حال سے خالی نہیں :
➌ تاخیر سے نکالنا بلاعذر کے ہو، ایسی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ صدقہ مقبول نہیں ہو گا۔ بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہے۔ [صحيح: صحيح سنن أبى داؤد، الزكاة باب زكاة الفطر 18 رقم، 1420. 1609، صحيح سنن ابن ماجه، الزكاة 8 باب صدقة الفطر 21 رقم 1480. 1827، صحيح الجامع رقم 3570، الإرواء رقم 843]
➋ تاخیر کرنے کا کوئی عذر ہو مثلاً عید آ گئی اور آدمی آبادی سے باہر ہے اور اس کے پاس صدقہ دینے کی کوئی چیز نہیں ہے یا اس کے پاس صدقہ لینے والا کوئی شخص نہیں ہے۔ یا آدمی کے پاس عید کی خبر اچانک آ گئی اور صلاۃ سے پہلے صدقہ نکالنے کا موقع نہیں مل سکا۔ یا صدقہ نکالنے کی ذمہ داری کسی شخص کو دے دی تھی اور وہ نکالنا بھول گیا، ایسی صورتوں میں عید کے بعد نکالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ آدمی معذور تھا۔

148۔ صدقۂ فطر کے مستحقین :
صدقۂ فطر صرف فقراء اور مساکین وغیرہ کو جن کے لئے زکاۃ کا مال لینا جائز ہے دیا جائے اور یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے درج ذیل فرمان میں کیا ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [9-التوبة:60]
’’ صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کی دل جوئی کی جاتی ہو اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہ گیر اور مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے “۔

149۔ صدقۂ فطر کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم :
صدقۂ فطر کو اس کے وجوب کے مقام سے دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔ الایہ کہ اس مقام پر اس کا کوئی مستحق نہ ہو۔ ایسی صورت میں اسے قریب ترین شہر میں تقسیم کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ بدن کا صدقہ ہے۔

150۔ صدقۂ فطر نکالنے کی جگہ :
صدقۂ فطر کی ادائیگی کے وقت انسان جس جگہ رہے اسی جگہ صدقہ نکالے، کیوں کہ صدقہ فطر کا تعلق بدن سے ہے۔ لہٰذا جب صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت آئے تو آپ جس جگہ رہیں وہیں صدقہ ادا کریں۔

اسے آپ درج ذیل مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں :
مثلاً اگر آپ ’’ شارقہ “ میں ہوں اور وہیں عید ہو جائے تو آپ صدقہ فطر ’’ شارقہ “ میں ادا کریں۔
اور اگر آپ کا تعلق مثلاً ”شارقہ“ سے ہے اور عید کے وقت آپ مکہ وغیرہ میں ہوں تو صدقہ فطر آپ مکہ میں ادا کریں جہاں آپ عید کے وقت موجود ہیں۔
لیکن اگر کوئی شخص کسی شہر میں ہو اور جن کی یہ کفالت کرتا ہے وہ کسی دوسر ے شہر میں ہوں تو اس شخص پر اپنا اور اپنے زیرِ کفالت افراد کا صدقہ اسی جگہ نکالنا ضروری ہے جہاں پر وہ صدقہ دینے کے وقت موجود ہے۔ اس صدقہ کی طرح جسے آدمی دوسرے کی طرف سے نکالتا ہے۔

151۔ صدقۂ فطر کی تقسیم کا طریقہ :
پوری جماعت کے لئے اپنا صدقۂ فطر ایک آدمی کو دینا جائز ہے۔ اسی طرح ایک آدمی کا اپنا صدقہ ایک جماعت کو دینا جائز ہے۔ [الكتاب والشريط الخيري. شارقه. تهوڑے تصرف كے ساته]

152۔ صدقۂ فطر میں وکالت (کسی دوسرے کے ذریعہ تقسیم کرانا) :
➊ ایسے شخص کو وکیل بنانا جو آدمی کی طرف سے صدقۂ فطر کی ادائیگی کرے۔
کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی کو اپنے شہر میں وکیل بنا دے کہ جب میں کسی دوسری جگہ سفر کروں تو تم میرا صدقہ ادا کر دینا۔
➋ فقیر شخص کا کسی آدمی کو صدقۂ فطر کی وصولی کے لئے وکیل بنانا۔
فقیر کے لئے کسی شخص کو صدقہ کی وصولی کے لئے وکیل بنانا جائز ہے۔ ایسی صورت میں جب صدقہ پہنچ گیا تو گویا موکل کے پاس پہنچ گیا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وکیل خود صدقہ نکالنے والا نہ ہو۔
➌ کسی شخص کے لئے دوسرے کی طرف سے بغیر اس کی اجازت کے صدقہ نکالنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک قسم کی عبادت ہے، جس میں نیت اور اجازت ضروری ہے۔

153۔ میت کی طرف سے صدقۂ فطر کا حکم :
اس مسئلہ میں درج ذیل تفصیل ہے :
➊ اگر کوئی شخص غروب آفتاب سے پہلے وفات پا جائے تو اس پر صدقہ واجب نہیں ہے۔
➋ اور اگر غروبِ آفتاب کے بعد وفات پائے تو اس کے متروکہ مال سے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے اور اگر اس کا کوئی وارث یا دوسرا شخص اپنی طرف سے ادا کر دے تو جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کی صلاۃ، صیام، زکاۃ، حج اور تمام اعمال صالحہ قبول فرمائے۔ اور ہماری، ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔
وصلي الله على نبينا محمد وعلي آله وصحبه وسلم .

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: