کلمہ گو مشرک کے ذبیحہ کی شرعی حیثیت
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا کلمہ گو مشرک کا ذبیحہ حلال ہے، یعنی ایک شخص قرآن پاک کو مانتا ہے، رسالت پر یقین رکھتا ہے اور آخرت وغیرہ عقائد اسلامیہ کا اقرار کرتا ہے، لیکن اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک بھی کرتا ہے اور جب وہ جانور ”بسم اللہ، اللہ اکبر“ کہہ کر ذبح کرتا ہے تو کیا ایسا ذبیحہ حلال ہے؟

جواب :

جو شخص آسمانی کتاب کو مانتا ہو، اللہ تعالی کی ذات پر یقین رکھتا ہو، رسالت و معاد کا قائل ہو اور جانور ذبح کرتے وقت اسی پر اللہ تعالی کا نام لیتا ہو، اس کا ذبیحہ اہل اسلام کے لیے حلال ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہود و نصاری کا ذبیحہ اہل اسلام کے لیے حلال قرار دیا ہے، اس لیے کہ وہ اپنے زبیجوں پر اللہ کا نام لیتے تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ﴾
(المائدة : 5)
”آج کے دن تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ بھی تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے۔“
اس آیت کریمہ میں ”طعام“ سے مراد ذبیحہ ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، ابو امامه سعید بن جبیر، عکرمہ عطا، حسن بصری، مکحول، ابراہیم نخعی ، سدی اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر ذبیحہ ہی سے کی ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا أمر مجمع عليه بين العلماء أن ذبائحهم حلال للمسلمين لأنهم يعتقدون تحريم الذبح لغير الله ولا يذكرون على ذبالجهم إلا اسم الله وإن اعتقدوا فيه تعالى ما هو منزه عن قولهم تعالى وتقدس
(تفسیر ابن کثیر2/ 478، 479)
”علماء کے درمیان یہ بات اتفاقی ہے کہ یہود و نصاری کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے، اس لیے کہ وہ غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنے کی حرمت کا عقیدہ رکھتے اور اپنے ذبیجوں پر اللہ تعالی ہی کا نام لیا کرتے تھے، اگر چہ انھوں نے اللہ تعالٰی کے بارے میں ایسا عقیدہ اختراع کر لیا تھا جس سے وہ منزہ و مبرا ہے۔“
یہود و نصاری نے عزیز اور مسیح کو اللہ تعالٰی کا بیٹا قرار دے کر صریح شرک کا ارتکاب کر لیا تھا، لیکن وہ کتاب کو مانتے تھے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے تھے، اس لیے ان کا ذبیحہ امت مسلمہ کے لیے حلال قرار دیا گیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کو مانتا ہے، اللہ تعالٰی پر اعتقاد رکھتا ہے، اگر چہ اس کے عقیدہ میں خرابی و فساد آچکا ہے، لیکن جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کا نام لے تو اس کا ذبیحہ حلال ہی تصور ہوگا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خیبر کے یہود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھنی ہوئی بکری پیش کی، جس کی دستی میں زہر بھر دیا تھا، آپ کو دستی پسند تھی، آپ نے اس دعوت کو قبول کیا اور اس میں سے گوشت کھایا۔ یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو ابن کثیر (479/2) وغیرہ۔ یہ حدیث بھی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی ذبح کی ہوئی بکری کا گوشت تناول کیا ہے جو ان کے ذبیحہ کی حلت پر بڑی واضح دلیل ہے۔ یاد رہے اگر کوئی مسلمان بوقت ذبح غیر اللہ کا نام نہ لے، بلکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے اور اس ذبیحہ سے اس کا مقصود غیر اللہ کا تقرب ہو تو وہ ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ شمار ہوگا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے تفسیر نیشاپوری کے حوالے سے لکھا ہے:
أحمع الملماء لو أن مسلما ذبح ذيحة وقصد بذبحها التقرب إلى غير الله صار مرتدا و ذبيحته ذبيحة مرتد
(فتاوی عزیزی ص (537، 515) ط ایچ ایم سید کمپنی کراچی)
”علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ کسی نے کوئی ذبیحہ ذربح کیا اور اس ذبح سے خیر اللہ کے تقرب کا قصد کیا تو وہ شخص مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کے ذبیحہ کی مانند ہوگا۔“
پس معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیا ہوا جانور مرقد کا ذبیحہ ہونے کی بنا پر حرام ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے