کلمہ گو مشرک لوگوں کے عقائد و نظریات کی ایک جھلک

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

عصر حاضر سے کلمہ گو مشرک لوگوں کے عقائد و نظریات کی ایک جھلک :

’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘‘ گزشتہ صفحات میں اقوام ماضیہ اور مشرکین مکہ کے جو عقائد شرکیہ بیان کئے گئے ہیں وہ سب کے سب بلکہ اس سے بھی زیادہ گندے خیالات و نظریات عصر حاضر کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہود و ہنود اور نصاریٰ کے علاوہ مسلمانوں میں بھی توحید کے منافی شرکیہ عقائد کثرت سے پائے جاتے ہیں، ہم یہاں ان عقائد کی ایک جھلک پیش کریں گے۔

➊ ایک شاعر اپنے پیر غلام مرتضی قلعہ شریف ضلع شیخو پورہ والے کی مدح میں کہتا ہے کہ یہ خدا کا نور ہے اور نبی ﷺ کا نائب ہے، بلکہ ربّ اور پیر ایک ہی ہیں، اس لئے ہمیں کیسے جا کر طواف و زیارت کی ضرورت نہیں کیونکہ پیر کا آستانہ و روضہ بذاتِ خود کعبہ ہے۔ العیاذ باللہ! اس لئے ہم یہیں طواف کریں گے ۔

دوستی رب دی لوڑنائیں قلعے والے دا پلڑا چھوڑنا ہیں
قلعے والے دے گرد طواف کر لے سکے جاونے دی کوئی لوڑنا ہیں
ایہہ قصور نگاہ دا نادانوں رب ہور نائیں پیر ھورنا ہیں
فضل رب دا جے مطلوب ہووے قلعے والے والوں مکھ موڑنا ہیں.
سه حرفی رموز معرفت، ص: ۳.

قارئین! ذرا اس نظریہ کو قرآن وسنت کی روشنی میں دیکھیے گا ، اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ خود کیجیے گا۔

دوستی رب دی لوڑنائیں.

یہاں پر مشرک رب سے بڑھ کر قلعہ والے سے محبت جتا رہا ہے، ان کی اس روش کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ
”اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے۔‘‘
(البقرة : ١٦٥)

اور ایمان والوں کا شیوہ بیان فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
” اور ایمان والے اللہ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔“
(البقره : ١٦٥)

پہلے گروہ کو تنبیہ:
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٣﴾
’’اور اللہ اور اس کے رسول کا مشرکوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہا ، پس تم لوگ توبہ کر لو گے تو تمہارے لیے بہتر رہے گا، اور اگر تم نے اسلام سے روگردانی کی تو جان لو کہ تم اللہ کو کسی حال میں عاجز نہیں بنا سکتے ہو اور کافروں و مشرکوں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے۔“
(التوبة : ٣)

ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ
” اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں کو لائے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔“
(المائده : ٥٤)

اور دوسرے گروہ مبارک کو مزید یوں تسلی دی:
‏إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا
’’یقیناً تم لوگوں کے دوست اللہ اور اس کے رسول اور مومنین ہیں۔‘‘
(المائده : ٥٥)

قلع والے دے گرد طواف کر لے کے جاونے دی کوئی لوڑنائیں:

یہاں شاعر نے رب کی گستاخی کی ہے اور اس کے گھر کی بھی توہین کی ہے، اور جو اس کے گھر کی توہین کرتا ہے، اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو انجام ہاتھیوں کے لشکر لیکر آنے والوں کا ہوا تھا۔

اور اس گھر کے طواف کے بارے میں رب تعالیٰ فرماتا ہے:
‏وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
’’اور اپنی نذریں پوری کریں اور بیت عقیق یعنی خانہ کعبہ کا طواف کریں۔‘‘
(الحج :٢٩)

رب کعبہ کے طواف کا حکم دیتا ہے اور یہ قلع والے کا..
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
گر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

اور رب تعالیٰ مزید فرماتا ہے کہ؛
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
”اور جو کوئی اللہ کے شعائر (نشانیوں) کی تعظیم کرتا ہے تو یہ کام دلوں کی پرہیز گاری کی دلیل ہے۔“
(الحج : ٣٢)

رب ھورنا ہیں پیر ہورنا ہیں :

کہ رب اور پیر یہ دونوں علیحدہ نہیں، بلکہ ایک ہی ہیں،

جب کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‎﴿٤﴾‏
’’اس نے کسی کو نہیں جنا ہے، اور نہ ہی اس کو کسی نے جنا (پیدا) کیا ہے اور (نہ ہی) کوئی اس کا ہمسر ہے۔“
(اخلاص:٣-٤)

سورہ بنی اسرائیل (آیت: ۱۱۱) میں رب تعالیٰ نے مزید فرمایا :
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ‎﴿١١١﴾‏
اور آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ (آسمان و زمین کی) بادشاہت میں کوئی اس کا شریک ہے، اور نہ عاجزی کی بنیاد پر کوئی اس کا دوست ہے اور آپ اس کی خوب بڑائی بیان کرتے رہیں۔“

اور دوسری جگہ فرمایا:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
’’پس تم لوگ اللہ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو، بے شک اللہ جانتا ہے جب کہ تم لوگ (کچھ بھی) نہیں جانتے ہو۔“
(النحل : ٧٤)

[اب فیصلہ خود کریں]
اور اسی طرح لکھا ہے:
تو ہیں نور خدا قلع والیا
نائب مصطفیٰ قلع والیا
سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نہیں
کعبہ روضه تیرا قلع والیا

➋ اسی طرح خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان ، صفحہ ۲۰۷ میں لکھا ہے:
چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تحبلی
ظاہر دے وچ مرشد هادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ.
حج فقیر بر آستانه پیر، ص ٤٥

چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ :

شاعر کہتا ہے کہ چاچڑ شہر مدینہ کی طرح ہے، اور مجھے کوٹ مٹھن بیت اللہ معلوم ہوتا ہے۔
(أَعَاذَنَا اللَّهُ مِنْ هَذِهِ الْخُرَافَاتِ)
۱) اس میں بیت اللہ کی تو ہین ہے
۲) مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کے شہر کی توہین کی گئی ہے اور مدینہ کی توہین کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کی گستاخی و توہین ہے۔

جیسا کہ ثمامہ بن اثال اسلام قبول کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں:
يَا مُحَمَّدُ وَاللهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجُهُ اَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجُهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجُهُكَ اَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينِ اَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ اَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍأَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ اَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ
’’اے محمد ﷺ اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ مرے نزدیک برا نہ تھا، لیکن اب آپ کے چہرہ انور سے زیادہ مجھے کوئی چہرہ محبوب ہی نہیں ہے، اللہ کی قسم! کوئی دین مجھے آپ ﷺ کے دین سے زیادہ برا نہیں لگتا تھا، لیکن اب آپ ﷺ کے دین کے علاوہ کوئی دین بھاتا ہی نہیں ہے اور اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ میری نظروں میں برا نہ تھا، لیکن اب آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب و عزیز ہے۔ (اب اس کے علاوہ کوئی شہر اچھا لگتا ہی نہیں ہے)۔“
صحيح،بخاری، کتاب المغازی، باب وفد بنى حنيفة وحديث ثمامة بن اثال (٤٣٧٢) ومسلم كتاب الجهاد والسير، باب ربط الاسير وحَبسه وجواز المس عليه (١٧٦٤).

اس سے معلوم ہوتا ہے مدینہ سے محبت نبی ﷺ سے محبت ہے اور مدینہ کی گستاخی نبی کریم ﷺ کی گستاخی ہے۔

امام بخاریؒ نے باب باندھا ہے۔
بَابُ من رغب عن المدينة.
’’جو شخص مدینہ سے نفرت کرے۔‘‘

اور اس کے تحت حدیث ذکر کرتے ہیں:
تَتْرُكُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى خَيْرٍ مَا كَانَتْ ، لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِ يُرِيدُ عَوَافَى السّبَاعِ وَالطَّيْرِ وَآخِرُ مَنْ يُحْشَرُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا فَيَجِدَانِهَا وُحُشًا حَتَّى إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَى وُجُوهِهِمَا .
’’تم لوگ مدینہ کو بہتر حالت میں چھوڑ جاؤ گے، پھر وہاں ایسا اجاڑ ہو جائے گا کہ وہاں وحشی جانور درند اور پرند بسنے لگیں گے، اور آخر میں مدینہ کے دو چرواہے مدینہ آئیں گے، تا کہ اپنی بکریوں کو ہانک لے جائیں، لیکن وہاں انہیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے۔ آخر ثنیۃ الوداع تک جب پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔“
صحیح بخاری، کتاب فضائل المدينه، باب من رغب عن المدينه، رقم : ١٨٧٤.
اور اللہ کے نبی ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے۔

نوٹ : اگلے اشعار کا رد ’’فلسفہ وحدت الوجود‘‘ کے ضمن میں آ جائے گا۔ ان شاء اللہ

ولی کیا مرسل آئیں خود حضور آئیں
وہ تیری وعظ کی محفل یا غوث

ولی کیا مرسل آئیں :

مذکورہ شعر میں شاعر کہہ رہا ہے کہ ولی تو ولی ، سارے رسول بھی آتے ہیں حتی کہ خود خضور ﷺ بھی تیرے حلقہ وعظ میں تشریف لاتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)
حدائق بخشش، حصه دوئم، ص : ٦ .

گویا اس شعر میں منہ سے عشق رسول کا دعوی کرنے والے گستاخ شاعر نے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا رتبہ نبی ﷺ سے بھی بڑھا دیا ہے اور گویا اس نے نبی ﷺ کو ان کا شاگرد بنا دیا ہے۔
(معاذ اللہ ۔ معاذ اللہ)

اور اس بارے سلف کی غیرت تو یہ ہے کہ امام شافعی ، امام مالک اور اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں کہ جو شخص نبی ﷺ کے قول کے مقابلہ میں کسی اور کے قول کو لائے گا تو اس سے توبہ کرنے کو کہا جائے ، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے اور اسحاق بن راھویہ تو کہتے ہیں کہ وہ کافر مشرک ہے۔
التلخيص لوجه التلخيص لابن حزم، ص: ۱۳۷، ۱۳۸.

سلف کی نبی ﷺ سے محبت دیکھئے اور اپنی بیزاری حالی نے سچ کہا ہے۔
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

احد سے احمد اور احمد سے تجھ کو
کن اور سب کن مکن حاصل ہے یا غوث
حدائق بخشش حصه دوئم، ص: ۷ .

احد سے احمد :

یہ بھی عقیدہ وحدت الوجود سے تعلق رکھتا ہے، اور اس کا رد آگے آئے گا۔

➎ ایک شخص نے اپنی کتاب ” باغ فردوس معروف بہ گلزار رضوی‘‘ کے صفحہ ۲۵ میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے بارے میں لکھا ہے:
پار بیڑے کو لگا دیتے ہیں غوث الاغواث
ڈوبی ناو ونکو ترا دیتے ہیں غوث الاغواث

میرے سرکار کی مٹھی میں ہیں عالم کے قلوب
دم میں روتوں کو ہنسا دیتے ہیں غوث الاغواث

کچھ خبر تجھے کو ہے افسردگی تحل مراد
پھول مرجھائے کھلا دیتے ہیں غوث الاغواث

جس نے یاغوث مصیبت میں پکارا دل سے
کام سب اس کے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث

پار بیٹے کو لگا دیتے ہیں :

ان اشعار میں دو چیزیں سامنے آتی ہیں :
۱) مدد کرنا۔
۲) علم غیب۔
ان دونوں ہی صفات کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے اندر تسلیم کرنا شرک ہے، اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں۔

دیکھئے قرآن میں رب تعالیٰ فرماتا ہے:
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٦٠﴾
’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا ؟ اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔“
(آل عمران : ١٦٠)

اور سورہ ھود میں نوح علیہ السلام کے تذکرہ میں فرمایا :
وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِن طَرَدتُّهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٣٠﴾
”اے میری قوم کے لوگو! اگر میں نے انہیں بھگا دیا تو پھر کون میری مدد کرے گا؟ (اللہ کے سوا) کیا تم لوگ غور و فکر نہیں کرتے ۔“
(هود: ۳۰)

اور جن کو پکارا جارہا ہے ان کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿١٩٤﴾
”بے شک اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تم ہی جیسے اللہ کے بندے ہیں، تو تم انہیں پکارو اور اگر تم سچے ہو تو انہیں تمہاری پکار کا جواب دینا چاہیے۔“
(الاعراف : ١٩٤)

علم غیب کے بارے میں فرمایا:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ
”اور غیب کے خزانے کی کنجیاں اسی (اللہ) کے پاس ہیں اس کے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا۔“
(انعام : ٥٩)

بگڑی بنانے والا ، اور ڈوبی تیرانے والا ، اور پھنسی نکالنے والا ، اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ‎﴿٦٥﴾
’’پس جب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کے لیے بندگی کو خالص کر کے اسے پکارتے ہیں، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی تک پہنچادیتا ہے تو دوبارہ شرک کرنے لگتے ہیں۔“
(العنكبوت : ٦٥)

یعنی ڈوبتوں کو بچانے والا اللہ ہے، نہ کہ اولیاء کرام اور نہ ہی کوئی اور اللہ کے سوا۔ اور جو کسی اور کے بارے یہ عقیدہ رکھے وہ اللہ کے ساتھ اس کو شریک بناتا ہے۔

میرے سرکار کی مٹھی :

اس شعر میں شاعر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ دل میرے پیر کے ہاتھوں میں ہیں، جب کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ‎﴿٤٦﴾‏
’’آپ ﷺ پوچھیئے تمہارا کیا خیال ہے اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو کیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں دوبارہ عطا کر دے‘‘
(الانعام : ٤٦)

یعنی اللہ کے علاوہ یہ کسی اور کے اختیار میں نہیں ہے، جیسا کہ حدیث رسول ﷺ ہے :
قَلْبُ ابْنِ آدَمَ بَيْنَ إِصَبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الْجَبَّارِ عَزَّوَجَلَّ إِذَا شَاءَ اَنْ يُقَلَّبَهُ قَلَّبَهَ فَكَانَ يُكْثِرُ اَن يَقُولَ ” يَا مُصَرِفَ الْقُلُوبِ
مسند احمد : ١٧٣/٢ (٦٦١٠) بسند صحيح

اور صحیح مسلم میں ہے:
إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كقَلْب وَاحِدٍ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اَللّهُمَّ مُصَرِف القُلُوبِ صَرِفَ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ.
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدم کی ساری اولاد کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں ، وہ جس طرح چاہتا ہے(اور جب چاہتا ہے) دلوں کو پھیر دیتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ ! دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔“
صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء: ٢٦٥٤.

یہ رسول اللہ ﷺ کا عقیدہ اور وہ نام نہاد مسلمان عاشق کا۔

دم میں روتوں کو ہنسا دیتے ہیں :

یہ شعر بھی شرکیہ ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں آتا ہے، عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَي.
’’کہ اللہ ہی رولاتا اور ہنساتا ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه اذا كان النوح الخ ۲۸۸ ، صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب الميت يعذب ببكاء اهله عليه.(۹۲۹)

اسی طرح عمرؓ نے نبی ﷺ کو دعاء دی اور نبی ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
عمرؓ نے کہا تھا:
أَضْحَكَ اللهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
”اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کے دانتوں کو ہمیشہ مسکراتا رکھے۔“
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم، باب مناقب عمر بن حفص القرشي العدوى رضى الله عنه : ٣٦٧٩.

اسی طرح رسول اللہ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسُلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضِلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ.
”اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم والم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی، بخل، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے۔“
صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الاستعاذة من الجبن والكسل: ٦٣٦٩.

یعنی غم دور کرنا، خوشیاں عطا کرنا یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان کو غیر کی طرف منسوب کرنا شرک ہے۔

جس نے یا غوث :

مدد و نصرت کے بارے پیچھے گزر چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ (کام سب اس کے بنا دیتے ہیں۔ الخ)

تو قرآن کہتا ہے:
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏
’’یا وہ ذات بہتر ہے جسے پریشان حال جب پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار و دعاء کا جواب دیتا ہے ، اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور کر دیتا ہے، اور تمہیں زمین میں جانشیں بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی یہ کام کرتا ہے۔ لوگو! تم بہت کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔“
(النمل : ٦٢)

رب تعالیٰ نے دوسرے مقام پر اپنے نبی ﷺ سے فرمایا:
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿١٧﴾
’’اور اگر اللہ تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا کر دے، تو اللہ کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں ، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔‘‘
(الانعام :١٧)

ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ قدرت ، طاقت ، اختیار اور کام بنانا یہ معبود برحق کا کام ہے، جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف ان چیزوں کی نسبت کرتا ہے، گویا وہ اس کو اللہ کے مقابلہ میں ایک اور الہ ، معبود بناتا ہے۔

پھر اس (مذکورہ بالا شعر) کے نیچے حاشیہ میں لکھا ہے:
’’حضور پرنور سیدنا غوث اعظمؓ کے مدرسہ کے طلبہ کہتے ہیں کہ حضور ہمیں درس دے رہے تھے کہ یکا یک آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، دست اقدس اپنی چادر میں پوشیدہ فرمالیا۔ تھوڑی دیر میں دست اقدس نکالا تو آستین سے ٹپک رہا ہے اور ہاتھ تر ہے۔ ہم بوجہ جلال و ہیت کے دریافت نہ کر سکے مگر وہ دن اور تاریخ اپنے پاس لکھ لیا، دو ماہ بعد کچھ سوداگر حاضر ہوئے اور نذرو تحائف پیش کئے ۔ حضور نے ہمارے آگاہ ہونے کے لئے اُن سے کیفیت پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ یہاں سے دو ماہ کے فاصلہ پر ہمارا جہاز ڈوبنے لگا تھا اور ہم نے یا شیخ عبد القادر جیلانی المدد کا نعرہ لگایا۔ اسی وقت دریا میں سے ایک ہاتھ برآمد ہوا، جس نے ہمارے جہاز کو کنارے لگا دیا ۔ تاریخ و دن ملایا تو صحیح و مطابق پایا۔‘‘
بركات قادریت، ص : ٣٥

مذکورہ بالا اشعار کے بعد جو اس نے حاشیہ لگایا، اس کا رو پہلے ہو چکا ہے، مزید ذیل کی سطور میں آنے والی عبارت میں ہو جائے گا۔

➏ اولیاء کرام کو اللہ عزوجل نے بڑی طاقت دی ہے۔ ان میں جو اصحاب خدمت ہیں اُن کو تصرف کا اختیار دیا جاتا ہے۔ سیاہ وسفید کے مختار بنا دئیے جاتے ہیں، یہ حضرات نبی ﷺ کے سچے نائب ہیں، اُن کو اختیارات و تصرفات حضور ﷺ کی نیابت میں ملتے ہیں، علوم غیبیہ اُن پر منکشف ہوتے ہیں، اُن میں بہت کو ’’ما كان وما يكون “ اور تمام لوحِ محفوظ پر اطلاع دیتے ہیں، مگر سب حضور اقدس ﷺ کے واسطے سے، بے وسطات رسول ﷺ کوئی غیر نبی کسی غیب پر مطلع نہیں ہو سکتا ۔
بهار ،شریعت حصه اوّل، ص : ٦٣.

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ الفوز الکبیر مع فوزا العظیم ، صفحہ ۵۱ پر لکھتے ہیں:

وَلَمْ يَكُنِ الْمُشْرِكُونَ يُشْرِكُونَ اَحَدًا فِي خَلْقِ الْجَوْهَرِ وَتَدْبِيرِ الأمُورِ الْعِظَامِ وَلَا يُثْبِتُونَ لاَحَدٍ قُدْرَةٌ عَلَى الْمُمَانَعَةِ إِذْ أَبْرَمَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى اَمْرًا إِنَّمَا كَانَ إِشْرَاكُهُمُ فِى الْأُمُورِ الْخَاصَّةِ. الخ
کہ مشرکین جواہر کو پیدا کرنے اور اہم چیزوں کا انتظام کرنے میں کسی کو شریک نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کے لیے رکاوٹ ڈالنے کی قدرت ثابت کرتے تھے، اس صورت میں جب کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کا اٹل فیصلہ کر لے، ان کا شرک تو صرف ان چیزوں کے بارے میں تھا جو بعض بندوں کے ساتھ خاص ہوتی ہیں اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ شہنشاہ مطلق جل مجدہ نے بعض بندوں کو خدائی کے مرتبہ سے اعزاز بخشا ہے اور (بندوں) کی خوشی و ناخوشی سبھی بندوں کے حق میں اثر انداز ہوتی ہے، جیسا کہ بادشاہوں میں سے کوئی عظیم المرتبت بادشاہ اپنے مخصوص غلاموں کو سلطنت کے اطراف و جوانب میں بھیج دیتا ہے اور انھیں جزئی معاملات کا فرمانروا مقرر کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بادشاہ وقت کی طرف سے کوئی صریح حکم آجائے ، لہذا جزئی معاملات کے انتظام کی طرف وہ خود متوجہ نہیں ہوتا ہے اور تمام عباد (رعایا) کے معاملات ان ہی (خصوصین) کے حوالہ کر دیتا ہے اور ان لوگوں کے معاملات میں جو ان کی (مخصوصین) کی خدمت کرتے ہیں ان کو واسطہ بناتے ہیں ان کی سفارش قبول کرتا ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ مخصوص بندوں کے ذریعہ قرب خداوندی کی جستجو کے ضروری ہونے کے قائل تھے، تاکہ شہنشاہ مطلق کی محبوبیت حاصل ہو سکے اور ضرورت کے مواقع پر ان کی سفارشات ان لوگوں کے حق میں قبول کی جائیں جو ان (مقربین) کے واسطے سے قرب چاہتے ہیں اور جائز سمجھتے تھے، ان امور (خیالات) کی پاسداری میں کہ ان کو سجدہ کیا جائے اور ان کے لیے (جانور) ذبح کیے جائیں اور ان کی قسم کھائی جائے اور ضرورت کی چیزوں میں ان سے مدد مانگی جائے (ان میں) كُنْ فَيَكُون کا زور ہونے کی وجہ سے جسے وہ ان ارواح کی طرف متوجہ ہونے کا ذریعہ بناتے تھے ۔“

قارئین کرام! معذرت کہ آپ کو اتنی طویل عبارت پڑھنی پڑی، لیکن انصاف کیجیے گا کہ کیا یہ وہی عقائد نہیں جن کو مذکورہ سابقہ اور آنے والے اشعار میں بیان کیا گیا ہے؟ ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ شاہ ولی اللہ چودہ سو(۱۴۰۰) سال قدیم مشرکین کے عقائد بیان کر رہے تھے اور یہ نام نہاد مسلمانوں کے اشعار ہیں۔

اور یہی بات صحیح مسلم، كتاب الحج، باب التلبية وصفتها ووقتها (رقم: ۱۱۸۵) میں عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمُلكُهُ وَمَا مَلَكَ يَقُولُونَ هَذَ اَوْ هُوَ يَطُوفُونَ.
’’مشرکین تلبیہ پڑھتے ہوئے کہتے ؟ اے اللہ ! ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں ، مگر صرف ایک شریک ۔ اے اللہ ! تو اس کا مالک ہے اور اس کے مملوک کا مالک نہیں، یہ کلمات کہتے کہتے وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ۔“

تو اللہ کے نبی ﷺ فرماتے:
وَيُلَكُمُ قَدْ قَدُ’’تم پر اللہ کا عذاب ہو۔“ (صرف) لبيك …… لا شَرِيكَ لَكَ ’’پر اکتفا کرو۔‘‘

قرآن میں رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ
’’اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو دوست بنا رکھا ہے، (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔‘‘
(الزمر : ٣)

غور کیجیے اے عقل والو! رہی بات نبی ﷺ کے غیب دان ہونے یا مختار کل ہونے کی تو قرآن واضح الفاظ میں اعلان کرتا ہے:
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ
’’آپ کہیے میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔“
(الانعام : ٥٠)

اور یہی بات سورہ ھود (آیت: ۳۰) میں بیان فرمائی ہے۔ اور سورہ اعراف (۱۸۸) میں فرمایا :
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ
’’آپ کہیے میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں ، سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کا علم رکھتا تو بہت ساری بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔‘‘

لیجیے جناب مسئلہ صاف ہو گیا، جب اللہ کے نبی ﷺ کو ہی نہ کی اختیار ہے، نہ غیب کا علم تو باقی کہاں سے مختار و وقادر اور مدد کرنے والے اور غیب دان بن گئے؟

➐ شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے بارے میں یوں کہا گیا ہے :
بنده قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبدالقادر
سر باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبدالقادر
ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی ہے مختار بھی ہے
کار عالم کا مدبر بھی ہے عبد القادر
حدائق بخشش، حصه اوّل، ص: ۷۳.

کار عالم کا مدبر:

یہ عقیدہ مشرکین قدیمہ کے عقیدہ سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ان کے بارے میں تو قرآن کہتا ہے:
وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٣١﴾
”اور کون ہے جو تمام امور کی دیکھ بھال (تدبیر) کرتا ہے، وہ جواب میں کہیں گے کہ اللہ، تو آپ کہیے کہ پھر تم لوگ شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو؟“
(یونس : ۳۱)

’’باغ فردوس معروف به گلزار رضوی‘‘صفحہ ۲۶ میں مرقوم ہے:
لوح محفوظ میں تثبیت کا حق ہے حاصل
مرد عورت سے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث

اس شعر میں یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ پیر عبد القادر جیلانی راہ یہ لوح محفوظ میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور عورت کو مرد بنا دیتے ہیں یعنی وہ قادر مطلق بھی ہیں اور اللہ کے فیصلہ تبدیل کرنے والے بھی ۔ (معاذ اللہ) پہلی بات کا رد تو پیچھے کی آیات میں ہو چکا۔ عقیدہ ثانی کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ‎﴿٢٩﴾
”میرے فیصلے بدلے نہیں جاتے اور میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔“
(ق : ۲۹)

اور دوسرے مقام پر فرمایا :
هِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ‎﴿٤٩﴾‏ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ‎﴿٥٠﴾‏
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے بے شک وہ بڑا جاننے والا ، قدرت والا ہے۔“
(الشورى:٤٩-٥٠)

لیجیے قرآن پڑھیئے اور اشعار پڑھیئے اور موازنہ کیجیے۔

➒ اور اسی طرح مندرجہ ذیل شعر میں رسول اللہ ﷺ تعلیم کو تقدیر بدلنے کا مجاز اور مختار کہا گیا ہے:
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے۔
محو و اثبات کے دفتر پر کڑوڑا تیرا۔
حدائق بخشش حصه ،اوّل، وصل اوّل، ص : ٤.

➓باغ فردوس معروف بہ گزار رضوی کے صفحہ ۲۶ حاشیہ نمبر ۵ کے تحت مرقوم ہے:
’’شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ جو سلسلہ سہر وردیہ کے امام ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ حضور غوث الثقلینؓ کے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ حضور دعا فرمائیں میرے لڑکا پیدا ہو آپ نے لوح محفوظ میں دیکھا اس میں لڑکی مرقوم تھی۔ آپ نے فرما دیا کہ تیری تقدیر میں لڑکی ہے۔ وہ بی بی سن کر واپس ہوئیں۔ راستہ میں حضور غوث اعظمؓ ملے ۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا ۔ حضور نے ارشاد فرمایا۔ جا تیرے گھر لڑکا ہوگا، مگر وضع حمل کے وقت لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بی بی بارگاہ غوثیت میں اس مولود کو لے کر آئیں اور کہنے لگیں حضور لڑکا مانگوں اور لڑکی ملے؟ فرمایا: یہاں تو لاؤ، اور کپڑا ہٹا کر ارشاد فرمایا: یہ دیکھو تو یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ دیکھا تو لڑکا اور وہ یہی شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ تھے ۔ آپ کے حلیہ مبارک میں ہے کہ آپ کی پستان مثل عورتوں کے تھیں ۔“

⓫ اسی کتاب کے صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے:
بخدا ایسی حمایت تو نہ دیکھی نہ سنی
پاؤں پھسلے تو جما دیتے ہیں غوث الاغواث
آسرا توڑ نہ ایوب نہ لاول پر ہراس
بخت خوابیدہ جگا دیتے ہیں غوث الأغواث

⓬ پھر صفحہ ۲۸ پر حاشیہ نمبر ۸ کے تحت لکھا :
’’حضور پیران دستگیرؓ کا ارشاد ہے کہ اگر میرا مرید مشرق میں ہو اور میں مغرب میں ہوں اور اُس کا ستر کھل جائے تو میں وہیں سے ہاتھ بڑھا کر اس کا ستر ڈھانک دوں، اور فرماتے ہیں؛ قیامت تک جو کوئی ہمارے سلسلے میں داخل ہو اور اپنے آپ کو ہمارا مرید کہے، بے شک وہ ہمارے مریدوں میں داخل ہے۔ ہمیشہ ہم اس کے حامی و ناصر و دستگیر ہیں ۔ مرتے وقت اس کو توبہ کی توفیق ملے گی۔“

قارئین کرام! اس میں جو دعاویٰ کیے گئے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مرید کہیں بھی ہو مجھے اس کی حالت کی خبر ہوتی ہے۔ پھر یعقوبؑ کو یوسفؑ کی خبر کیوں نہ ہوئی ؟ ابراہیمؑ اسماعیلؑ کی خبر گیری کو کیوں جاتے تھے؟ اللہ کے نبی ﷺ کو خادمہ عورت (جو کہ مسجد کی صفائی کرتی اور مسجد میں رہتی تھی) کی وفات کی خبر کیوں نہ ہوئی؟ تو پھر اللہ کے نبی ﷺ کو اس بات کا علم کیوں نہ ہوا کہ عثمان بن عفانؓ شہید نہیں ہوئے بلکہ یہ افواہ ہے؟
اسی طرح موت کے وقت توبہ کی توفیق کی گارنٹی گویا موت علی الایمان کی گارنٹی دی جارہی ہے، جب کہ یوسفؑ دعا فرمایا کرتے تھے:
تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ‎﴿١٠١﴾
”اے اللہ ! تو مجھے بحیثیت مسلمان دنیا سے اٹھانا اور نیک لوگوں سے ملا دے۔“
(يوسف :١٠١)

اور نبی ﷺ کی دعا پیچھے گزر چکی ہے کہ:
صَرّف قَلْبِى طَاعَتِكَ.
اور شعر نمبر ۴ میں تو جو بعد از وفات مدد کا دعویٰ کیا گیا ہے، گویا اس نے الوہیت کا دعویٰ کیا ہے، کیوں کہ مدد و نصرت کرنا الہ کا کام ہے، جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ اور رب تعالیٰ نے سورۃ انعام میں ارشاد فرمایا :
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ
”اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر افتراء پر دازی کرتا ہے، یا کہتا ہے کہ مجھ پر وحی اتری ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں اتری ، اور اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے کہ جو کہتا کہ جیسا کلام اللہ نے اتارا ہے ویسا ہی میں بھی لاسکتا ہوں۔“
(الانعام :۹۴)

لیجیے جو اللہ جیسی وحی لانے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کے لیے یہ وعید میں ہیں اور جو الہی صفات کا دعوی کرے، اس کے لیے کیا ہوگا ؟

⓭ ’’نالہ امداد غریب“ میں لکھا ہوا ہے:
یا رسولِ كبرياء فریاد ہے، یا محمد مصطفی فریاد ہے
آپ کی امداد ہو میرا یا نبی حال ابتر ہوا فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل
اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
کلیات امدادیه، ص : ۹۰.

⓮ ایک صاحب نے رقم کیا ہے:
’’انبیاء و مرسلین، اولیاء و صالحین سے ان کے وصال کے بعد استعانت و استمداد جائز ہے۔ اولیاء اللہ بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔“
رساله حيات الموات، بحواله فتاویٰ رضويه ٤ / ٣٠٠.

⓯ مزید لکھا ہوا ہے:
”صوفیہ کے مشائخ سختی کے وقت اپنے پیروں اور مریدوں کی نگہبانی فرماتے ہیں۔“
أيضًا، بحواله فتاوی رضویه ٤/ ٣٠٠.

⓰ ’’سید احمد بدوی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : جسے کوئی حاجت ہو تو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر اپنی حاجت مانگے تو میں اس کی حاجت کو پورا کروں گا ۔“
انوار الإنتباء في نداء يا رسول الله، بحواله مجموعه رسائل رضويه ۱/ ۱۸۱.

قارئین کرام! حالانکہ قبروں والے تو مٹی ہو گئے، کسی کو کیا دیں گے؟
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ‎﴿٢١﴾‏
”اور اللہ کے سوا وہ دوسری ہستیاں (انبیاء وصلحاء) جن کو لوگ پکارتے ہیں، کسی چیز کے بھی خالق نہیں ، بلکہ وہ تو خود مخلوق ہیں، مردہ ہیں، ان میں جان کی رمق بھی باقی نہیں ، انہیں تو اتنا بھی شعور نہیں کہ کب دوبارہ زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے۔“
(النحل : ۲۱،۲۰)

قبروں میں پڑے ہوئے سن بھی نہیں سکتے :

وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ‎﴿٢٢﴾
’’اور آپ انہیں نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں ۔“
(فاطر : ۲۲)

کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے :

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ
’’اللہ کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو ، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک کو نہیں ہیں۔“
(فاطر :۱۳)

⓱ ’’اللہ کے سوا کچھ ایسے بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاجت روائی خلق کے لئے خاص فرمایا ہے کہ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لاتے ہیں۔“
الأمن والعلى، ص: ۲۹.

⓲ ایک صاحب رقم طراز ہیں:
ا : ’’بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں۔“

ب : وفات یافتہ بزرگوں کی روح سے امداد کے مسئلہ میں علماء دیوبند کا خیال بھی وہی ہے جو عام اہل سنت والجماعت کا ہے۔
حاشیه سوانح قاسمی ۱/ ۳۳۲.
(یہاں اہل سنت والجماعت سے مراد فرقہ بریلوی ہے، جو انڈیا سے شروع ہوا۔)
پھر اس کے بعد مولوی قاسم نانوتوی صاحب کا مرنے کے بعد دار العلوم دیوبند میں جسد عصری کے ساتھ آنے کا واقعہ نقل کیا ہے۔ یہی واقعہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب ’’ارواح ثلاثہ‘‘ صفحہ ۲۲۲ میں درج کیا ہے۔

⓳ ایک صاحب نے رقم کیا ہے:
’’بنده قبل وجود خود باطن خدا تھا اور خدا ظاہر بندہ“
شمائم امدادیه، ص: ۳۸.

⓴ اسی طرح صفحہ ۸۱ میں لکھا ہے:
’’فقیر مرتا نہیں صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے۔ فقیر کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہوگا ، جو زندگی ظاہری میں میری ذات سے ہوتا ہے۔ فرمایا (حضرت صاحب نے) کہ میں نے حضرت کی قبر مقدس سے وہی فائدہ اٹھایا جو حالت حیات میں اٹھایا تھا۔“

(۲۱) ”اولیائے کرام ایک ہی جگہ سارے عالم کو اپنے کف و دست کی طرح دیکھتے ہیں اور بعید و قریب کی آوازیں سنتے ، یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرتے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کر سکتے ہیں۔‘‘
جاء الحق، ص : ٢٣.

(۲۲) ”نبی ﷺ ہر آن ہر مقام پر حاضر و ناظر ہیں۔‘‘
تسكين الخواطر في مسئلة الحاضر والناظر، ص : ٥.

جب کہ قرآن کہتا ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ‎﴿٦٨﴾‏
’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں کے خلاف باتیں بناتے ہیں تو آپ ان سے اعراض کیجیے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے۔‘‘
(الانعام : ٦٨)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ نبی ﷺ اٹھ جانے کے بعد وہاں حاضر نہیں ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ناظر (یعنی ان کو دیکھنے والے) ہوتے تھے ، اگر اٹھ جانے کے بعد بھی حاضر و ناظر ہیں تو پھر کیا رب تعالیٰ نے معاذ اللہ اپنے نبی ﷺ کو ایک لغو حکم صادر فرمایا؟
اور جب نبی ﷺ حاضر و ناظر نہیں ہو سکتے تو کوئی اور کیسے؟

(۲۳) صرف انبیاء و اولیاء ہی نہیں، بلکہ امام بریلویت جناب احمد رضا خان بریلوی بھی اس صفت میں ان کے شریک ہیں۔ چنانچہ ان کے ایک پیروکار ارشاد کرتے ہیں: ’’احمد رضا آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں ، وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔“
انوار رضا، ص: ٢٤٦.

(۲۴) انبیاء کرام مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کر سکتے ہیں۔ اور ان کو اس قدر قدرت وقوت ہے، جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کر سکتے ہیں۔
جاء الحق، ص : ١٩٥، ١٩٦.

(۲۵) ”جب حضور کچھ چاہ لیں تو اس کے خلاف نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی اس کو روک سکتا ہے اور آپ کی زبان کن کی کنجی ہے ۔“
سلطنت مصطفى، ص : ٣٦.

جب حضور ﷺ کچھ چاہ لیں :

مگر قرآن کہتا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ‎﴿٥٦﴾
”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہیں، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔“
(القصص : ٥٦)

سعید بن مسیب اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابیؓ نے بیان کیا کہ :
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتُهُ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أبو جَهل ، فَقَالَ أَى عَمّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَحَاجُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللهِ. فَقَالَ أَبُوجَهُلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّة : يَا أَبَا طَالِب تَرُغَبُ عَنْ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ؟ فَلَمْ يَزَالَا يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى قَالَ آخِرُ شَيْءٍ كُلَّمَهُم بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أَنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ ﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ أَنَّهُمُ اَصْحَبَ الْجَحِيمِ﴾[التوبه : ۱۱۳] ﴿وَنَزَلَتُ إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾ [القصص : ٥٦].
’’جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے ، اس وقت وہاں ابو جہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چچا کلمہ لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آجائے گی ، اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا، اے ابو طالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے؟ یہ دونوں انہی کلمات پر زور دیتے رہے، اور آخری کلمہ جو ابوطالب کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں ، پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کے لیے اس وقت تک دعاء مغفرت کرتا رہوں گا، جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ توبہ) میں یہ آیت اتری؛ ” نبی کے لیے اور مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے دعاء مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ دوزخی ہیں‘‘۔ اور ’’سورہ نقص‘‘ میں یہ آیت اتری کہ ”بے شک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں عطا کر سکتے۔“
صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب قصه ابی طالب : ٣٨٨٤.

دیکھئے جناب! چاہت نبی ﷺ تو ہدایت ابو طالب ہے، لیکن کیا ابو طالب کو کلمہ توحید پڑھنا نصیب ہو سکا ؟ نہیں ، ہر گز نہیں۔

قارئین کرام! المختصر ان نام نہاد مسلمانوں کے عقائد و اعمال مشرک اقوام کے ساتھ ملتے جلتے ہیں۔ گزشتہ اقوام کے شرک میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اکثر قومیں ”شرک فی الاسماء“ کی مرتکب رہی ہیں۔ بالکل اسی طرح آج بھی اولیاء اللہ کو خدائی ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے،

کسی کو کہتے ہیں ”داتا‘‘ تو کسی کو ” لکھ داتا کوئی غوث“ تو کوئی ’’مشکل کشا“ اور ”دستگیر“ ہے۔ کسی کو ” گنج بخش‘‘ کہتے ہیں اور کسی کا نام ”غوث اعظم“ اور ”قطب عالم“ رکھا ہوا ہے۔ مشرکین مکہ کام شروع کرتے وقت ’’بسم اللہ، باسم لات“ کہتے تھے۔ یہ لوگ ’’یا پیر استاد رکھیں لاج“ کہہ کر کام شروع کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا وظیفہ حاجات ” علی نبی‘‘ ’’اللہ پنجتن پاک‘‘ ہے اور ان کا ورد زبان ”اللہ نبی‘‘ جیسے کلمات ہیں ۔

ہندو اپنے بچوں کے نام، مشرکانہ نام ”دیوی دتہ، گوراندتہ‘‘ رکھتے ہیں، تو یہ لوگ اپنے بچوں کا نام ” پیراں دتہ“ اور ” میراند تہ‘‘ رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوا کہ وہ لوگ مشرک اور کافر ہیں اور یہ لوگ کلمہ گو اور عاشق رسول ؟

کس قدر بد قسمتی ہے کہ یہ نام کے مسلمان مشرکون الاولون کے نقش پا پر چل رہے ہیں، شرک کی شراب وہی کہنہ شراب ہے ، مگر فی زمانہ عشق و محبت کے خوشنما پیمانوں میں بک رہی ہے، عشق رسول کے نام سے کتابیں لکھی گئی ہیں، جن کے سرورق ’’شان مصطفی‘‘ ’’سلطنتِ مصطفی “ ،” جاء الحق‘‘ ’’شان حبیب الرحمن“ ” حدائق بخشش“ ”بہار شریعت‘‘ ایسے خوبصورت اسلامی لیبلوں سے مزین ہیں، مگر ان کے اندر زہر ہے۔ جس نے اسلامی توحید کے عقیدہ کو مجروح کر رکھا ہے۔ سم قاتل ہے۔ جس نے دین حنیف کی روح کو فنا کر دیا ہے عوام بیچارے کیا جانیں کہ زہر ہلاہل بھی تو شوگر کوٹڈ کر کے کھلائی جاسکتی ہے، مگر نتیجہ اس وقت کھلتا ہے، جب وہ بدن میں مستحیل ہو کر جان سے مار ڈالتی ہے، اسی طرح ان مے فروشوں اور محبت کے متوالوں کی آنکھ اس وقت کھلے گی۔ جب شرک کا نتیجہ عذاب جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا۔ عرب میدانِ مسابقت میں کہتے ہیں۔
فَسَوْفَ تَرَى إِذَا انْكَشَفَ الْغَبَارُ
ءَ فَرَسٌ تَحْتَ رِجُلِكَ أُمُ حِمَارُ
”میدان مقابلہ کا جب گرد و غبار بیٹھ جائے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ تو گھوڑے پر سوار تھا یا گدھے پر، ہارا ہے یا جیتا ہے۔‘‘

کلمه گو مشرک :

سوال : کیا کلمہ توحید پڑھنے والے لوگوں کو مشرک کہا جا سکتا ہے؟
جواب : ہاں! کلمہ توحید پڑھنے والے لوگوں کو مشرک کہا جا سکتا ہے جب وہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد غیراللہ کو مالک و مختار، مشکل کشا، حاجت روا، اور حلال وحرام کا مختار سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ
” اور ان میں سے اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے ۔“
(يوسف : ١٠٦)

’’اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر اللہ کے ساتھ مگر اس حالت میں کہ وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔“
(پیر محمد کرم شاہ ، سجادہ نشین بھیرہ ، ضیاء القرآن ۴۶۲٫۲)

’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔“
(غلام رسول سعیدی، شیخ الحدیث دار العلوم نعیمیہ کراچی نمبر ۳۸ ، تبیان القرآن ۸۷۵٫۵)

ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ ، اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
”اکثر و بیشتر انسانوں کا حال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان سے تو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرتے ہیں، لیکن عمل کی زندگی میں مشرک ہوتے ہیں، اللہ کے بجائے غیروں کی پرستش کرتے ہیں، انسانوں کو اللہ کے بیٹے اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہتے ہیں، جو شرک اکبر ہے، اور جس کا شرک ہونا واضح اور جلی ہے۔ شرک کی ایک دوسری قسم شرک خفی ہے، جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔‘‘

حسن بصری اس آیت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ منافق ہے جو لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نیک کام کرتا ہے، وہ مشرک ہے، اس لیے کہ اس نے عبادت میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا۔ وہ اگرچہ اللہ کی وحدانیت کا اعتقاد رکھتا ہے، لیکن اللہ کے لیے اپنی عبودیت میں مخلوق نہیں ہوتا ہے، بلکہ حصول دنیا یا جاہ و منزلت کی خاطر نیک عمل کرتا ہے، یہی وہ شرک ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس امت میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی طور پر پایا جائے گا۔
(صحیح ابن حبان)

معلوم ہوا کہ جو نیک کام بھی لوگوں کے دکھلاوے کے لیے کیا جائے گا، وہ شرک ہے۔
تيسير الرحمن، ص: ۷۰۱

سیدنا ثوبانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ .
’’اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک میری امت میں سے کچھ قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں گے، اور یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبائل بتوں کی پرستش کریں گے۔“
صحیح سنن ابو داؤد للألباني ٢/ ٩ – ١٠، رقم: ٤٢٥٢، مسند أحمد ٥/ ۲۷۸ ، ۲۸٤ ، مسند ابو داؤد ،طیالسی ،رقم ۹۹۱، مستدرك حاكم ٤ / ٤٤٨ .

رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی اس وقت بالکل سچ ثابت ہوتی ہے، جب لوگ قبور کی عبادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور یقیناً قبر کی پرستش کرنا بت پرستی ہی تو ہے۔ رسول اللہ ﷺ دعا فرماتے:
اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلُ قَبْرِي وَثُنَّا لَعَنَ اللهُ قَوْمًا اِتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَاءِ هِمُ مسَاجدَ .
” اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی پرستش کی جائے) اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ایسی قوم پر جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“
مسند أحمد ٢ / ٢٤٦ ، رقم: ۷۳۵۸ ، مسند حمیدی، رقم! ۱۰۲۵ ، مصنف عبدالرزاق ٤٦٤/٨. ٢٥

رد المختار میں لکھا ہوا ہے:
أَصْلُ عِبَادَةِ الأصْنَامِ اِتِّخَاذُ قُبُورِ الصَّالِحِينَ مَسَاجِدَ.
’’بتوں کی پرستش کا اصل سبب صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہے۔“
اكمل البيان، ص : ٤٥ .

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
وَالَّذِينَ يَرُورُونَ قُبُورَ الْأنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَيَحُجُونَ إِلَيْهِمُ لِيَدْعُوهُمْ وَلِيَسْأَلُوهُمْ اَوْ لِيَعْبُدُوهُمْ وَيَدْعُوهُم مِن دُون اللهِ هُمُ مُّشْرِكُونَ
’’اور جو لوگ انبیاءؑ اور صالحین کی قبروں کی زیارت کرنے کے لیے آتے ہیں، اور وہ اس غرض سے آتے ہیں کہ انہیں پکاریں اور ان سے سوال کریں یا ان کی عبادت کی غرض سے آتے ہیں تو وہ مشرک ہیں۔“
الرد على الأخنائي، ص: ٥٢.

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلْيَاتُ نِسَاءِ دَوُسٍ عَلَى ذِى كَانُوا يَعْبُدُونَهَا فِي الْخَلَصَةِ وَذُوا الْخَلَصَة : طَاغِيَةً دَوسِ الْجَاهِلِيَّةِ .
’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کے سرین ذی الخلصہ پر حرکت کریں گے۔ اور ذوالخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کو وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے ۔“
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تغير الزمان حتى تعبد الأوثان، رقم: ٧١١٦، صحيح مسلم، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعة حتى تعبد دوس ذا الخلصة، رقم : ۲۹۰٦، مسند أحمد ۲ / ۲۷۱.

’’سرین حرکت کریں گے“ کا مطلب ہے کہ اس بت کے گرد طواف کریں گے۔ معلوم ہوا کہ قبل از قیامت امت مسلمہ میں بت پرستی، (جسے ادنی سا مسلمان بھی شرک سمجھتا ہے) داخل ہو جائے گی ، اور ایسے لوگ مشرک کہلانے کے حق دار ہیں۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ :

بعض لوگ عدم فہم کی بنیاد پر کہہ دیتے ہیں کہ امت محمدیہ ﷺ میں شرک آجانے کا مطلق اندیشہ نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمُ أن تَنَافَسُوا فِيهَا .
’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے ، بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔“
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب الصلاة على الشهيد، رقم: ١٣٤٤.

اولاً : اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر شرک کا ارتکاب نہیں کرے گی ۔ البتہ بعض افراد اور قبیلے شرک کریں گے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فتح الباری : ۲۱۱/۳ میں لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ : مَا اَخَافُ عَلَيْكُمْ أَن تُشْرِكُوا ، أَي عَلى مَجْمُوعِكُمْ لأن ذلِكَ قَدْ وَقَعَ مِنَ الْبَعْضِ أَعَاذَنَا اللَّهُ تَعَالَى.
رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان ’’کہ مجھے تمہارے متعلق شرک کا اندیشہ نہیں کا معنی یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک نہیں ہو گے۔ لہذا امت مسلمہ میں سے بعض افراد و قبائل کی طرف سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔“

ثانيا : اس حدیث کا معنی و مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کے مخاطب صحابہ کرام ہوں، کہ آپ ﷺ کے بعد وہ شرک نہیں کریں گے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ رقم طراز ہیں:
وَأَنَّ أَصْحَابَهُ لَا يُشْرِكُونَ بَعْدَهُ فَكَانَ كَذَلِكَ
’’یقیناً آپ ﷺ کے بعد آپ کے اصحاب شرک نہیں کریں گے، پس اسی طرح ہوا کہ کسی بھی صحابیؓ سے شرک و بدعت سرزد نہیں ہوئے ۔“
فتح البارى : ٦١٤/٦.

پس اس حدیث سے مشرکین و مؤلین کا استدلال درست نہیں ہے۔
وَفِي هَذَا كَفَايَة لِمَن له دراية.

أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ حقیقت کے تناظر میں :

قرآنِ کریم سے یہ معلوم ہے کہ مِنْ دُونِ اللہ کو پکارنا ان کی عبادت ہے، اور چونکہ عبادت اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی روا نہیں ، اگر کوئی کرے گا تو مشرک ہو جائے گا۔ لہذا مِنْ دُونِ اللہ کو پکارنے والے ان کی عبادت کر کے صریحاً شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس پر علماء سوء و مبتدعین سے اور تو کچھ بن نہیں پاتا، وہ سادہ لوح عوام کو یہ کہہ کر فریب دیتے ہیں کہ مِنْ دُونِ اللہ سے مراد ”بت“ ہیں اور اولیاء اللہ و انبیاء اس زمرے میں نہیں آتے ۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں مِنْ دُونِ اللہ کا لفظ نبی پر بھی بولا گیا ہے نبی کی ماں پر بھی، اور دوسرے بزرگوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

آیات قرآنی ملاحظہ ہوں :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ‎﴿٢١﴾‏
’’اور اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں، وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود مخلوق ہیں۔ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ (قبروں سے) کب اٹھائے جائیں گے۔“
(سورۃ النحل آیت: ۲۱،۲۰)

اب ظاہر ہے کہ ’’مردہ‘‘ کا لفظ ”بتوں‘‘ پر نہیں بولا جاتا ، بت تو بت ہی ہوتا ہے۔ پھر قبروں میں بت کوئی بھی دفن نہیں کرتا ، قبروں میں انسان ہی دفن ہوتے ہیں۔

اسی طرح سورۃ الاحقاف میں ارشاد فرمایا:
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا مِنْ دُونِ اللهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ o وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَفِرِينَ
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے، اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے، وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے انکار کر دیں گے۔“
(الاحقاف : ٦،٥)

آیت (۵) میں مِنْ دُونِ اللہ کے الفاظ موجود ہیں، جب کہ اس سے اگلی آیت (۶) میں فرمایا :
”اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے انکار کر دیں گے۔“

اب سوچ لیجئے ، بت بیچارے دوستی دشمنی اور اقرار و انکار کیا جانیں؟ فافهم و تدبر !اور سورۃ الاعراف کی (آیت : ۱۹۴) میں تو فیصلہ ہی کر دیا گیا ہے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونِ مِنْ دُونِ اللهِ عِبَادُ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوالكُمُ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ
’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم اُن کو پکارو، اگر تم سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔“

یعنی جن مِنْ دُونِ اللہ کو تم پکارتے ہو، وہ تمہاری مثل بندے ہیں! اب بھی اگر کوئی مِنْ دُونِ اللہ سے صرف بہت ہی مراد لے، تو یہ اس کی مرضی ہے، قرآنِ مجید اس کی تائید نہیں کرتا۔ ہاں بلکہ قرآنِ مجید یہ بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کسی کی بھی عبادت کی جائے ، وہ مِنْ دُونِ اللہ میں داخل ہے، اور اس کی عبادت شرک ہے۔

مذکورہ بالا آیات کے علاوہ سورۃ الکہف (الآیۃ : ۱۰۲) میں ارشاد ہوا :
أَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ نُزُلًا
’’کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا کارساز بنائیں گے؟ ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے۔“

یہاں بھی ” بندوں‘‘ پر ”مِنْ دُونِی“ کے لفظ کا استعمال ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ان بندوں کو کارساز بنانے والوں کو کافر قرار دے کر جہنم کی وعید بھی سنادی گئی ہے۔

سورۃ المائدہ میں فرمایا:
وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَاُمِّيَ الْهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ
”جب اللہ فرمائے گا ، اے عیسی ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو۔‘‘
(المائده : ١١٦)

اب دیکھ لیجئے ، یہاں مِنْ دُونِ اللہ کا لفظ عیسیؑ پر بھی بولا گیا ہے جو نبی ہیں، اور آپؑ کی والدہ پر بھی ، جو یقیناً ولیہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرک کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل ہی نہیں فرمائی۔ ذرا دیکھئے تو ان مِنْ دُونِ اللہ کے بارے میں قرآنِ مجید کیا بیان فرما رہا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ‎﴿٧٣﴾
”اے لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے، اسے غور سے سنو، بلاشبہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے ، اگرچہ سب کے سب جمع ہو کر بنانا چاہیں۔ اور اگر کبھی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے چھڑا تک نہیں سکتے۔ طالب و مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں۔“
(الحج : ۷۳)

اب بھی اگر کوئی ولیوں، بزرگوں، پیروں، فقیروں کو پکارے، ان کے نام کی دہائی دے، ان سے مدد چاہے، مشکلات و مصائب میں ان سے فریاد کرے، انہیں مختار و حاجت روا جانے ، ان کی قبروں کے چکر کاٹے ، وہاں سجدے کرے، تو یقیناً وہ عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرتا ہے۔ ایسا شخص خود بھی فریب خوردہ ہے اور دوسروں کو بھی دھوکا دے رہا ہے:

يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
’’یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں (یہ لوگ) اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے ہیں۔“
(البقره: ۹)

ذاتی اور عطائی کی بحث :

شرک کی تائید میں ایک اور عذر با رد پیش کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ بالذات عالم الغیب، خالق، اور رازق ہے اور انبیاء و اولیاء عطائی طور پر، اللہ تعالیٰ بالذات متصرف فی الامور ہے۔ اور انبیاء و اولیاء عطائی طاقت سے متصرف ہیں، اسی طرح دوسری سب مافوق الاسباب طاقتیں اللہ تعالیٰ کو بلا واسطہ حاصل ہیں اور ان کو بالواسطہ، لہذا قرآن پاک میں جہاں بھی ان صفات کی غیر اللہ سے نفی کی گئی ہے وہاں بالذات اور بالاستقلال کی نفی ہے، نہ کہ بالعرض اور بالواسطہ کی ۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ اپنے شرکاء کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ محض سفارشی اور تقرب الہی کا ذریعہ جان کر پوجتے تھے ۔ مگر پھر بھی ان کو مشرک کہا گیا ہے۔

امام رازی تفسیر کبیر ۱۱۲/۲ میں آیت لَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا ’’پس تم اللہ کا شریک اور مقابل نہ ٹھہراؤ‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں :
إِعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْعَالَمِ أَحَدٌ يُثْبِتُ لِلَّهِ شَرِيكًا يُسَاوِيُهِ فِي الْوُجُودِ وَالْقُدْرَةِ وَالْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ، وَهَذَا مِمَّا لَمْ يُوجَدُ إِلَى الْآنِ وَأَمَّا إِتِّخَاذُ مَعُبُودٍ سِوَى اللَّهِ تَعَالَى فَفِي الذَاهِبِينَ إِلَى ذَلِكَ كَثُرَةٌ.انتهى.
’’یعنی دنیا بھر میں کوئی بھی ایسا مشرک نہیں ہے جو اللہ کا ایسا شریک مانتا ہو جو وجود، قدرت، علم اور حکمت میں اس کے برابر ہو، یہ بات ایسی ہے جو آج تک نہیں پائی گئی۔ باقی رہا اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنانا تو اس کی طرف جانے والے بہت ہیں۔‘‘

اس عبارت سے واضح ہو رہا ہے کہ مشرک ہمیشہ معبود حقیقی اور معبودان باطلہ کے درمیان بالذات اور بالعرض کا فرق کرتے چلے آئے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ مشرکین مکہ طواف بیت اللہ کے وقت یہ تلبیہ پڑھا کرتے تھے:
لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمُلِكُهُ وَمَا ملک
” اے اللہ ! ہم تیری عبادت کے لئے حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے، سوائے اُس شریک کے جو تیری مخلوق ہے ، تو اُس کا بھی مالک ہے اور اُس کے اختیارات بھی تیرے قبضے میں ہیں۔“
صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم: ٢٨١٥.

اس تلبیہ سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ اگرچہ بالذات اور مستقل طور پر اللہ کے ساتھ کارسازی ، اور فریاد رسی اور تصرفات و اختیارات میں کوئی بھی شریک اور حصہ دار نہیں ہے، لیکن اس کے بندوں میں ایسے بزرگ اور اہل اللہ لوگ بہر حال موجود ہیں جن کو ملکیت عطائیہ حاصل ہے، اور اسی عطاء خداوندی کی وجہ سے وہ تصرفات و اختیارات اور کارسازی و حاجت روائی میں اللہ کے شریک ہیں۔

چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ” بدور بازغہ‘‘ صفحہ ۱۲۴،۱۲۳ میں لکھا ہے کہ :
’’مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ جہاں کا مدبر (بالذات) تو خدا تعالیٰ ہی ہے، مگر وہ اپنے بعض بندوں کو جزوی تصرف کا اختیار دے دیتا ہے، یہی عقیدہ یہود و نصاریٰ کا ہے اور یہی عقیدہ فی زمانہ منافقین امت محمدیہ کا ہے۔“

اسی بات کو رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان فرمایا:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبُرًا بَشِبُرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوْا جُحْرَضَتٍ لَسَلَكُتُمُوهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ فَمَنُ؟
’’تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے ، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاری ہیں؟ آپ نے فرمایا : پھر کون ہو سکتا ہے؟“
بخاری، کتاب احادیث الانبياء، باب ما ذكر عن بنی اسرائیل ،٣٤٥٦ ، مسلم، کتاب العلم، باب اتباع سنن اليهود ٢٦٦٩.

ان سب دلائل و براہین سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک یہی ہے کہ غیراللہ کو غیر مستقل اور بالعرض معبود و متصرف مانا جائے، یا اس خیال سے حاجات میں پکارا جائے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ طاقت وقوت سے میری حاجت کو جانتا، غائبانہ ندا کو سنتا اور فریاد رسی کرسکتا ہے، یہی وہ شرک ہے جس کی تردید کے لئے انبیاءؑ کی بعثت ہوئی۔ پس قرآن مجید میں جہاں غیر اللہ کے عالم الغیب، متصرف فی الامور اور مالک و مختار وغیرہ ہونے کی نفی کی گئی ہے، اس سے مراد عطائی صفات ہی کی نفی ہے۔ کیونکہ بالذات ان صفات فاعلیہ کا کسی ممکن الوجود میں پایا جانا خود محال ہے، بلکہ کوئی صفت اور کوئی کمال بھی کسی مخلوق میں ذاتی نہیں ہے۔ سب عارضی اور مستعار ہے۔

پس ان حقائق کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ انبیاء و اولیاء عطائی طور پر عالم الغیب متصرف فی الامور اور غائبانہ فریاد رس ہیں، اور اللہ تعالیٰ بالذات ان صفات سے متصف ہے، اور یہ کہنا کہ غیر اللہ سے ان صفات کی نفی بالذات کی نفی ہے بالعرض کی نفی نہیں ہے بالکل لغو اور فضول بلکہ شرک ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء