کفن پر تحریر اور قبر میں تبرکات وغیرہ رکھنے سے متعلق روایات
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

کفن پر لکھنا بدعت ہے!

میت کے کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنے، قبر میں شجرہ، غلاف کعبہ، یا دیگر تبرکات رکھنے کا عمل ناجائز، بدعتِ سیئہ، اور قبیح فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں ملتی، اور سلف صالحین سے بھی یہ ثابت نہیں ہے۔ یہ اعمال دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش ہیں، جو اہل سنت والجماعت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔

ان اعمال کی مخالفت اور دلائل کا جائزہ

جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی (١٣٢٤۔١٣٩١ھ) نے لکھا:

"قبر میں بزرگان دین کے تبرکات، غلاف کعبہ، یا عہد نامہ رکھنا مردے کی بخشش کا وسیلہ ہے۔” (جاء الحق از احمد یار خان نعیمی: ١/٣٣٦)

اس بات کی قرآن سے دلیل کے طور پر آیت "وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ” پیش کی جاتی ہے، لیکن یہ استدلال باطل قرار دیا گیا ہے کیونکہ صحابہ کرام اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے یہ مفہوم نہیں نکالا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"ان ائمہ نے جو کہا ہے (کہ وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں)، اس میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔” (تفسیر ابن کثیر: ٢/٥٣٥)

بعض لوگ اس اتفاقی مفہوم کو ترک کرکے اپنی مرضی کا مطلب نکالتے ہیں، جسے علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م٧٩٠ھ) نے بدعت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"ہر وہ شخص جو غیر ثابت شدہ قول کی تقلید کرتا ہے یا بغیر معقول وجہ کے اسے ترجیح دیتا ہے، اس نے شریعت کے خلاف عمل کیا۔ یہ طریقہ دین میں نئی بدعات میں سے ہے۔” (الاعتصام للشاطبی: ٢/١٧٩)

حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کا واقعہ

احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:

"حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے فرمایا: ’میری قمیص لے جا کر والد صاحب کے چہرے پر ڈال دو، وہ بینائی حاصل کر لیں گے۔‘ (سورۃ یوسف: ٩٣) اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بزرگوں کا لباس شفا بخش ہے۔” (جاء الحق از نعیمی: ١/٣٣٦)

تاہم، یہ نبی کا معجزہ تھا، جس سے شرعی احکام اخذ نہیں کیے جا سکتے، اور نہ ہی یہ سلف صالحین سے ثابت ہے۔ اس لیے اسے دین کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

نبی اکرم ﷺ کے تبرکات

نعیمی صاحب ذکر کرتے ہیں:

"نبی کریم ﷺ نے اپنا تہبند اپنی بیٹی سیدہ زینب کے کفن میں شامل کیا تھا۔” (جاء الحق از نعیمی: ١/٣٣٦)

نبی اکرم ﷺ کی ذات سے مخصوص تبرکات کو دوسروں پر قیاس کرنا جائز نہیں، جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی اور کے لیے یہ تبرک مقرر نہ کیا۔” (الاعتصام للشاطبی: ٢/٨-٩)

قبر میں شجرہ رکھنے کا مسئلہ

نعیمی صاحب کے مطابق:

"قبر میں شجرہ رکھنا بزرگان دین کا معمول ہے، لیکن اس کے دو طریقے ہیں: ایک، مردے کے سینے پر کفن کے اوپر یا نیچے رکھنا، جسے فقہاء نے منع کیا ہے۔ دوسرا، قبر میں طاقچہ بنا کر شجرہ رکھنا، جسے جائز سمجھا جاتا ہے۔” (جاء الحق: ١/٣٣٧)

یہ عمل سلف صالحین یا ائمہ محدثین سے ثابت نہیں، بلکہ اسے فقہاء کی طرف سے مختلف مواقع پر جائز یا ناجائز قرار دیا گیا ہے، جو قرآن و حدیث کی مخالفت ہے۔

میت کے کفن پر کلمہ لکھنے کی روایات

احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:

"میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا جائز ہے۔ امام ترمذی نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’جو شخص اس دعا کو لکھے اور میت کے سینے اور کفن کے درمیان رکھے، اسے عذاب قبر نہ ہوگا۔‘” (جاء الحق: ١/٣٣٨)

تاہم، یہ روایت دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ملتی اور اسے بے سند اور من گھڑت قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کی روایات پر شرعی احکام کی بنیاد رکھنا بدعتیوں کا طریقہ ہے۔

"فتاوٰی بزازیہ” کی روایت کا جائزہ

نعیمی صاحب فتاوٰی بزازیہ سے نقل کرتے ہیں:

"اگر میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھا جائے تو امید ہے کہ اللہ اس کی بخشش کرے گا اور اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔” (جاء الحق: ١/٣٣٩-٣٤٠)

یہ دلیل غیر مستند سمجھی جاتی ہے اور اس کا معتبر حوالہ فراہم نہیں کیا گیا۔

خلاصہ

یہ ثابت ہوتا ہے کہ کفن پر عہد نامہ یا کلمہ لکھنا، قبر میں شجرہ یا تبرکات رکھنا، اور ان سے متعلقہ روایات غیر مستند اور غیر شرعی ہیں۔ ان اعمال کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور یہ دین میں نئی بدعتیں پیدا کرنے کے مترادف ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے