کفار سے محبت کی علامات
دوستی اور دشمنی کی ان حدود کی معرفت کے بعد معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں۔ (ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کے دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اتر رہا ہے۔)
زیل میں ہم ان امور کو بیان کرتے ہیں جو کفار سے دوستی اور محبت کی دلیل ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:
(1)لباس و گفتار کی تقلید:
یعنی ہم اپنے لباس و گفتار میں جس قوم کی نقل کریں گے تو گویا ان سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ لباس و گفتار وغیرہ میں کسی قوم کی تشبیہ ان سے محبت ہی کی دلیل ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من تشبه بقوم فهو منهم”
ترجمہ: جو کسی قوم کی نقالی کرے گا، وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔
لہٰذا کفار کی وہ عادات، عبادات، اخلاق اور طور طریقے جو ان کا خاصہ بن چکے ہیں، ان کی تشبیہ اختیار کرنا حرام ہے۔ مثلاً: داڑھی منڈوانا، لمبی موچھیں رکھنا، بلا ضرورت ان کی زبان بولنا، لباس میں ان کی نقل اتارنا اور کھانے پینے میں ان کے طور طریقے اختیار کرنا وغیرہ۔
(2)ان کے علاقوں میں اقامت اختیار کرنا:
یعنی کفار کے علاقوں میں مستقل اقامت اختیار کر لینا اور مسلمانوں کے علاقوں میں سکونت پذیر ہونے سے گریز کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔
حالانکہ محض اپنے دین کے تحفظ کے خاطر کفار کے علاقوں سے بچ نکلنا اور مسلمانوں کی سرزمین میں سکونت اختیار کرنا شرعی مطلوب ہے۔ بلکہ اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لیے ہجرت کرنا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے، کیونکہ سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونا کفار سے محبت کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ایک مسلمان کا اگر وہ ہجرت پر قادر ہو کفار کے درمیان رہنا حرام قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا . إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا.﴾
(4-النساء:97،98)
ترجمہ: جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی راستہ جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کو معاف کر دے، اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونے والوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے البتہ جو لوگ کمزور ہیں اور ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے انہیں کچھ چھوٹ ہے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی ناقابل گرفت ہے جن کے سرزمین کفر میں رہنے میں کوئی دینی مصلحت ہو۔مثلا : ان علاقوں میں دعوت الی اللہ اور اسلام کی نشر و اشاعت کا کام کر رہے ہوں۔ (بلکہ یہ تو عظیم جہاد ہے۔)
(3)محض تفریح کی خاطر کفار کے علاقوں کا سفر اختیار کرنا:
کفار کے علاقوں کا سفر کرنا ناجائز ہے، الا یہ کہ کوئی شدید ضرورت ہو، مثلاً علاج، تجارت کی غرض سے یا ایسے مفید قسم کے مضامین کی تعلیم کی خاطر جن کا حصول اس سفر کے بغیر ممکن نہ ہو۔ ان حالات میں کفار کے علاقوں میں بقدر ضرورت سفر کر کے جانا جائز ہے، اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو فوری طور پر اپنے علاقوں کی طرف رجوع واجب ہے۔
لیکن اس سفر کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ سفر کرنے والے پر اپنے دین اسلام کا رنگ غالب ہو۔ شر اور فساد کے مقامات سے دور اور نفور ہو، دشمن کے مکر و فریب سے چوکنا اور محتاط ہو۔ اسی طرح کفار کے علاقوں کی طرف دعوتِ الی اللہ اور تبلیغِ اسلام کے لیے سفر کرنا جائز بلکہ بعض حالات میں واجب ہے۔
(4)مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد کرنا اور ان کا دفاع کرنا:
یہ بھی کفار سے محبت کی علامت ہے، بلکہ یہ فعل قبیح انسان کو اسلام کی دولت سے محروم کر دیتا ہے اور اسے مرتد بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اس مرض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
(5)کفار سے مدد چاہنا اور ان پر اعتماد کرنا، اور انہیں مسلمانوں کے خفیہ رازوں سے متعلق عہدوں پر فائز کرنا، اور انہیں اپنا ھمراز یا مشیر بنانا:
یہ سب ان کی محبت کی علامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ . هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ . إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا.﴾
( آل عمران: 118 تا 120)
ترجمہ: مومنو ! کسی غیر مذہب کے ادمی کو اپنا رازداں نہ بناؤ ،یہ لوگ تمہاری خرابی( اور فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہو چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں۔اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں۔ دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کے ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو،حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو( اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے )اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے ائے اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ان سے کہہ دو کہ (بدبختو ! ) اپنے غصے ہی میں مر جاؤ۔اللہ تعالی تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔
ان آیات کریمہ نے واضح کر دیا کہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے کس قدر کینہ اور بغض چھپا ہوا ہے۔
وہ مسلمانوں کے خلاف مکر و خیانت کی تدبیریں اور پالیسیاں مرتب کرتے رہتے ہیں۔ ہر حیلہ اور وسیلہ بروئے کار لا کر مسلمانوں کو مبتلائے ضرور رکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ مکرو فریب سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ان کی مضرت و تذلیل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا” میرے پاس ایک عیسائی کاتب ہے“ تو امیر المؤمنین نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کرے۔ عیسائی کاتب رکھنے کی کیا سوجھی کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا !اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم نے کوئی مسلمان کا تب کیوں نہ رکھا؟ میں نے کہا: امیر المؤمنین اس کا دین اس کے لئے ہے۔ مجھے تو اپنی کتابت چاہئیے۔ فرمایا:
جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذلیل ورسوا کر دیا ہے میں انہیں عزت و کرامت نہیں دے سکتا اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم سے دور کر دیا۔ میں انہیں اپنے سے قریب نہیں کر سکتا“
مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے نکلے۔ تو ایک مشرک آدمی بھی ساتھ ہو لیا اور حرہ مقام پر ملاقات کرتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم واپس لوٹ جاؤ۔ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیا کرتے۔
ان دلائل سے واضح ہوا کہ مسلمانوں کے امور سے متعلق کفار کو کسی منصب پر فائز کرنا حرام ہے، کیوں کہ وہ اس طرح مسلمانوں کے حالات اور خفیہ بھیڈ بڑی آسانی سے حاصل کر لیں گے اور نتیجہ ان کی ضرر رسانی کا سامان تیار کرنے کی سازشیں کرنے لگیں گے۔
آج کل کفار کو مسلمانوں کی سرزمین ،حرمین شریفین پر مزدور، کاریگر، ڈرائیور یا خدمت گار کے طور پر لایا جا رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے علاقوں میں مخلوط زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ گھروں میں مربی کی حیثیت سے رکھا جا رہا ہے اور وہ مسلمانوں کی فیملیوں کے ساتھ مخلوط زندگی گزار رہے ہیں۔ آج کے دور میں یہ روش حرمت اور انجام کار کی تباہی کے اعتبار سے سابقہ روش سے کوئی مختلف نہیں ہے۔
(6) کفار کے ہاں مروجہ تاریخ کو اپنانا :
یعنی جو تاریخ بلاد کفر میں رائج و مستعمل ہے، اسے اختیار کر لینا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ پھر خاص طور پر ایسی تاریخ جو ان کی کسی مناسبت یا عید کی ترجمانی کر رہی ہو، مثلاً: عیسوی تاریخ
عیسوی تاریخ:
عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی یادگار کے طور پر ہے، یہ تاریخ عیسائیوں نے خود اختراع کی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کے دین سے اس تاریخ کا کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس تاریخ کا رواج و استعمال، ان کے اشعار اور عید کو زندہ کرنے میں ان کے ساتھ مشارکت کے مترادف ہے۔
امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے مسلمانوں کے لئے تاریخ مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو کفار کی مروجہ تمام تاریخوں کو ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی تاریخ مقرر کر دی۔
اس سے ثابت ہوا کہ تاریخ کے تقرر اور اس قسم کے دیگر کفار کے خصائص میں ان کی مخالفت کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔ واللہ المستعان
(7) کفار کے تہوار میں شرکت
کفار کے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان کے تہواروں کے انعقاد میں ان کے ساتھ تعاون کرنا یا ان کے تہواروں کی مناسبت سے انہیں مبارک باد کے پیغامات بھیجنا، یہ سب ان سے دوستی اور محبت کے نشانات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ﴾ (الفرقان:72)
اي من صفات عباد الرحمن انهم لا يحضرون اعياد الكفار ( الزور (یعنی جھوٹ) میں ان محفلوں میں شریک ہونا بھی شامل ہے جو بدعت پر قائم ہیں، اس قسم کی محفلیں کذب کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے دین کے مخالف اور معاند ہیں اور قطعی طور پر دین کے مفاد میں نہیں ہیں۔)
جس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ رحمٰن کے نیک بندے کفار کے تہواروں اور عیدوں میں حاضر نہیں ہوتے۔
(8) کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و تشہیر
یعنی کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و توصیف اور ان کے عقائد باطلہ کو صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے اخلاق اور مہارت سے خوش ہونا، یہ سب ان کی محبت کی علامات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ (طہ:131)
ترجمہ: (اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تا کہ ان کی آزمائش کریں، ان پر نگاہ نہ کرنا۔ اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔)
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنی قوت اور استحکام کے اسباب ہی چھوڑ کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ (8-الأنفال:6)(8-الأنفال:60)مختلف صنعتوں کی تعلیم حاصل کریں، اقتصادیات کو مستحکم کرنے والی جائز راہیں اپنائیں اور دور حاضر کے تقاضوں کے ہم آہنگ عسکری اور حربی اسالیب کی تعلیم حاصل کریں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾ (الانفال:60)
ترجمہ: (جس قدر طاقت ہو تیر اندازی (وغیرہ) سیکھ کر کفار کے مقابلے میں تیار رہو)
کائنات کے یہ تمام وسائل و منافع در حقیقت مسلمانوں ہی کے لئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ (الاعراف:32)
ترجمہ: (پوچھو کہ جو زینت و آرائش اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں، ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو! کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان لانے والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے دن خالص انہی کا حصہ ہوں گی) ۔
نیز فرمایا:
﴿وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ﴾ (الجاثیہ:13)
ترجمہ: (اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمہارے ہی واسطے مسخر کیا ہے۔)
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ (البقرہ:29)
ترجمہ: (اور اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے ہی واسطے پیدا کیا ہے)۔
تو پھر یہ ضروری ٹھہرا کہ عقلمان ان منافعتوں اور قوتوں کے حصول میں سب سے آگے ہوں اور کفار کو یہ چیزیں حاصل کرنے کا موقع فراہم نہ کریں۔ یہ تمام کارخانے، فیکٹریاں مسلمانوں ہی کا حق اولین ہے۔
(9) کفار کے نام رکھنا:
بعض مسلمان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اجنبی نام رکھتے ہیں اور اپنے آباؤ واجداد کے نام، یا ایسے نام جو ان کے معاشرے میں معروف ہوتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خير الأسماء عبد الله وعبد الرحمن
ترجمہ: (بہترین نام عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں)۔
ناموں کی اس تبدیلی کے مرض کے عام ہونے کی وجہ سے باقاعدہ ایسی مسلمان نسلیں وجود میں آگئیں، جو مغربی ناموں کی حامل ہیں۔ نتیجہ سابقہ نسلوں سے رشتہ و ناطہ توڑ بیٹھیں اور ایسے خاندانوں سے تعارف کا سلسلہ بھی مفقود ہو گیا، جنہوں نے اپنے مخصوص اسلامی ناموں کو اپنائے رکھا۔
(10) کفار کے حق میں دعا کرنا:
کفار کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے اور فرمایا:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (التوبہ:113)
ترجمہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کو لائق نہیں، کہ جن پر ظاہر ہو گیا ہو کہ مشرکین اہل دوزخ ہیں تو ان کے لئے بخشش مانگیں۔ خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔)
اس دعا کی حرمت کی وجہ بالکل ظاہر ہے، اور وہ یہ کہ دعا کرنا ان سے محبت کی نشانی ہے۔ نیز یہ ظاہر کرتی ہے کہ مشرکین بھی صحیح عقیدے پر قائم ہیں۔ (حالانکہ شرک اور مشرک انتہائی بخس اور پلید ہیں)