نبی اور امانت کی قسم کھانے کا حکم
سوال: نبی یا امانت کی قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت [صحيح البخاري ، كتاب الايمان ، باب لا تحلفوا بآباءكم ح 2670]
”جسے قسم کھانا ہو تو وہ اللہ عزوجل کی قسم کھائے ، ورنہ خاموش رہے ۔“
نیز مسند احمد اور سنن ترمذی میں بھی انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف بغير الله فقد كفر او اشرك [مسند احمد 125/2 ح 6072 حدیث صحیح ہے ۔ وسنن الترمذي ، كتاب النذور والايمان ، باب ما جاء فى كراهية الحلف بغير الله ، ح 1535]
”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو بلاشبہ اس نے کفر کیا یا شرک کیا ۔“
(اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے) ۔
امام حاکم نے یوں بھی روایت کیا ہے:
كل يمين يحلف بها دون الله شرك [المستدرك للحاكم 1/18 كتاب الايمان حدیث صحیح ہے]
”ہر وہ قسم جو ما سوا اللہ کے نام پر کھائی جائے شرک ہے ۔“
اور یہ اس لیے کہ قسم کھانے والا جب کسی کے نام کی قسم کھاتا ہے تو اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کا بڑا اونچا مقام ہے ۔ سودہ اس قسم کے ذریعہ اس کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور وہ جس کے نام پر قسم کھاتا ہے اس کو ساری مخلوق سے بڑا درجہ دیتا ہے ۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تعظیم و تقدیس تو صرف اللہ رب العزت کا مقام ہے ، کسی اور کے لیے نہیں ، اور اللہ پاک کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک اسم ”العظیم“ ہے ، جس کی تعظیم و تکریم اس کے بندوں پر واجب ہے ۔ خود اللہ جل جلالہ نے اپنا وصف عظمت و جلال اور عزت کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔ اور اس کانتیجہ یہ ہے کہ لوگ اللہ عزو جل کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور اس کے رو برو عجز و انکساری نیاز مندی و خاکساری کا اظہار کریں ، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حیثیت کے مقابلے میں اہلِ ایمان کے نزدیک دنیا وما فیہا کی کوئی حیثیت نہ ہو ، بلکہ دنیا معمولی اور حقیر چیز ہو ، نیز یہ کہ ان کے قلوب و اذہان میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے ماسوا کسی کے لیے تعظیم و تقدیس اور احترام و اکرام کی کوئی جگہ نہ ہو ۔
جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ضعیف و کمزور ہے شیطان ان کے دینی امور میں دخل انداز ہو چکا ہے ، اس نے عام لوگوں کے سامنے تعظیم اولیاء کو مزین کر کے پیش کیا ہے ، نیز اُن کے قلوب میں ان اولیاء کی قدر و منزلت کو افراط و غلو کے ساتھ بٹھا دیا ہے ، بایں طور کہ جب ان میں سے کوئی اللہ پاک کی قسم کھاتا ہے تو جھوٹ بول جاتا ہے ، اور جب کسی ولی یا پیر کی قسم کھاتا ہے تو صرف سچی قسم کھاتا ہے ۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ولی یا پیر اس سے انتقام نہ لے لے ۔ یہ حرکت عین شرک و کفر ہے ۔ ہم اللہ رب العزت سے شرک ، شک و شبہ ، نفاق اور برے اخلاق سے پناہ چاہتے ہیں ۔ اور جہاں تک ”امانت“ کی قسم کھانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف بالامانة فليس منا [سنن ابي داؤد ، كتاب الايمان ، باب فى كراهية الحلف بالامانة ح 3253 مسند احمد 352/5]
”جو شخص امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ۔“
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے ۔ امام منذری رحمہ اللہ نے بھی اپنی تہذیب میں سکوت کیا ہے لہٰذا حدیث ان کے نزدیک صالح (قابل حجت) ہے ۔
اس لیے کہ ”امانت“ اللہ کی شریعت اور اس کا حکم ہے بنابریں ”امانت“ کی قسم کھانا غیر اللہ کی قسم کھاتا ہے ۔ اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ”وامانة الله“ (اللہ کی امانت کی قسم) کھائے تو اس پر کفارہ واجب ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے کفارہ واجب نہیں ہو تا ۔ واللہ اعلم !