وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدَرِي عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَا يَنظُرِ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا تَنْظُرِ الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ ، وَلَا يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فِي يُوبِ وَاحِدٍ ، وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَرْأَةِ فِي [ال] ثَوْبِ [ال] وَاحِدٍ
حضرت عبدالرحمن بن ابی سعید خدری سے روایت ہے وہ اپنے باپ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کوئی مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے ، اور نہ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں ملے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں ملے ۔ [مسلم ۔]
تحقیق و تخریج : مسلم : 338
وَرَوَى بَهُزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ احْفَظُ عُورَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ – قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ: إِنِ اسْطَعْتَ أَنْ لَا يَرَيَنَهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا – قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا؟ قَالَ: اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ
بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہا کہ میں نے عرض کی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ستر کون سے ہیں جن کے پاس آئیں اور جن کو ہم چھوڑیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ”اپنے ستر کی حفاظت کر مگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی سے۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب قوم کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہوں؟ فرمایا : کوشش کرو کہ ستر پر کسی کی نگاہ نہ پڑے ۔ (یعنی لباس اس انداز سے پہنو کہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے) کہتے ہیں : میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم میں سے ایک الگ تھلگ ہو؟ فرمایا :” اللہ تعالیٰ لوگوں کی نسبت زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے ۔“ اس کو ابوداؤد نے نکالا ہے اور جو اس نسخہ کو صحیح جانتا ہے تو یہ حدیث اس کے ہاں صحیح ہے بہز تک اسناد کی صحت کی بنا پر ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل : 3/5-4 ، ابوداود : 4017 ، ترمذی : 2919 ، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب ”تقریب“ میں رقمطراز ہیں کہ بہز بن حکیم سچا راوی ہے ۔ ابن ماجه : 1920 ، مستدرک حاکم : 6/ 180
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: كُنتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ أَخِدًا بِطَرْفِ ثَوْبِهِ ، حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ النبى صلى الله عليه وسلم : أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کیا : میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا اچانک حضرت ابوبکر اپنی چادر کا ایک کونہ پکڑے ہوئے تشریف لائے یہاں تک کہ اس کے دونوں گھٹنے ظاہر ہو گئے یعنی برہنہ ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے ساتھی کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے ۔ بخاری ”غامر“ کا مطلب ہے کہ وہ کسی دوسرے سے جھگڑ پڑا ہے ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 3661
فوائد :
➊ اسلام حفاظت و احتیاط کا بھی سبق دیتا ہے ۔
➋ اپنی شرمگاہ کے علاوہ کسی دوسرے کی شرمگاہ دیکھنا حرام ہے ۔
➌ کوئی مرد ، مرد کی یا کوئی عورت ، عورت کی شرمگاہ کی طرف نہیں دیکھ سکتی مردوں کو اکٹھے بول و براز کے لیے نکلنا اور پھر ساتھ ساتھ بیٹھ جانا یا آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا ممنوع قرار دیا ہے ۔ اسی طرح عورتیں قضائے حاجت کے لیے نکلتے وقت آمنے سامنے بیٹھ کر نہ شر مگاہ کو دیکھ سکتی ہیں اور نہ باتیں کر سکتی ہیں یہ نرا بے حیائی کو دعوت دینا ہوتا ہے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا اور دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا اچھے انسان ہونے کی علامت ہے اور یہ باحیا ہونے کی نشانی ہے ۔
➍ جوان مرد آپس میں ایک چادر میں اکٹھے نہیں سو سکتے اور نہ ہی جوان عورت کسی عورت کے ساتھ ایک چادر میں سوسکتی ہے ۔ وہ بچے یا بچیاں جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ، قریب البلوغ ہوں ، ان کو بھی تربیت دینے کے لحاظ سے الگ الگ لٹایا جا سکتا ہے ۔ ایسے ہی سگے بہن بھائی ایک چادر میں نہیں سو سکتے ۔
➎ میاں ، بیوی یا لونڈیوں کے لیے شرمگاہ ننگی کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔
➏ جب افراد کی بہتات ہو تو جگہ دور جانے کی نہ ملنے پر آڑ میں بیٹھ کر پیشاب کرتے وقت حتی الوسع شرمگاہ کو چھپانا چاہیے ۔ انسان جب اکیلا ہو تو پھر بھی شرمگاہ کو چھپا کر رکھے اللہ تعالیٰ لوگوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان سے حیا کیا جائے ۔
➐ اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھنا انتہا درجے کا تقویٰ ہے اسی طرح میاں بیوی اور لونڈی بھی اس زمرہ میں شامل ہیں ۔
➑ کپڑا گھٹنوں تک اٹھ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ مذاق یا ہنسی کی بات اپنے رفیق وسنگی سے شائستہ انداز میں کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی سعید خدری سے روایت ہے وہ اپنے باپ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کوئی مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے ، اور نہ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں ملے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں ملے ۔ [مسلم ۔]
تحقیق و تخریج : مسلم : 338
وَرَوَى بَهُزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ احْفَظُ عُورَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ – قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ: إِنِ اسْطَعْتَ أَنْ لَا يَرَيَنَهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا – قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا؟ قَالَ: اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ
بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہا کہ میں نے عرض کی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ستر کون سے ہیں جن کے پاس آئیں اور جن کو ہم چھوڑیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ”اپنے ستر کی حفاظت کر مگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی سے۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب قوم کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہوں؟ فرمایا : کوشش کرو کہ ستر پر کسی کی نگاہ نہ پڑے ۔ (یعنی لباس اس انداز سے پہنو کہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے) کہتے ہیں : میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم میں سے ایک الگ تھلگ ہو؟ فرمایا :” اللہ تعالیٰ لوگوں کی نسبت زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے ۔“ اس کو ابوداؤد نے نکالا ہے اور جو اس نسخہ کو صحیح جانتا ہے تو یہ حدیث اس کے ہاں صحیح ہے بہز تک اسناد کی صحت کی بنا پر ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل : 3/5-4 ، ابوداود : 4017 ، ترمذی : 2919 ، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب ”تقریب“ میں رقمطراز ہیں کہ بہز بن حکیم سچا راوی ہے ۔ ابن ماجه : 1920 ، مستدرک حاکم : 6/ 180
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: كُنتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ أَخِدًا بِطَرْفِ ثَوْبِهِ ، حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ النبى صلى الله عليه وسلم : أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کیا : میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا اچانک حضرت ابوبکر اپنی چادر کا ایک کونہ پکڑے ہوئے تشریف لائے یہاں تک کہ اس کے دونوں گھٹنے ظاہر ہو گئے یعنی برہنہ ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے ساتھی کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے ۔ بخاری ”غامر“ کا مطلب ہے کہ وہ کسی دوسرے سے جھگڑ پڑا ہے ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 3661
فوائد :
➊ اسلام حفاظت و احتیاط کا بھی سبق دیتا ہے ۔
➋ اپنی شرمگاہ کے علاوہ کسی دوسرے کی شرمگاہ دیکھنا حرام ہے ۔
➌ کوئی مرد ، مرد کی یا کوئی عورت ، عورت کی شرمگاہ کی طرف نہیں دیکھ سکتی مردوں کو اکٹھے بول و براز کے لیے نکلنا اور پھر ساتھ ساتھ بیٹھ جانا یا آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا ممنوع قرار دیا ہے ۔ اسی طرح عورتیں قضائے حاجت کے لیے نکلتے وقت آمنے سامنے بیٹھ کر نہ شر مگاہ کو دیکھ سکتی ہیں اور نہ باتیں کر سکتی ہیں یہ نرا بے حیائی کو دعوت دینا ہوتا ہے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا اور دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا اچھے انسان ہونے کی علامت ہے اور یہ باحیا ہونے کی نشانی ہے ۔
➍ جوان مرد آپس میں ایک چادر میں اکٹھے نہیں سو سکتے اور نہ ہی جوان عورت کسی عورت کے ساتھ ایک چادر میں سوسکتی ہے ۔ وہ بچے یا بچیاں جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ، قریب البلوغ ہوں ، ان کو بھی تربیت دینے کے لحاظ سے الگ الگ لٹایا جا سکتا ہے ۔ ایسے ہی سگے بہن بھائی ایک چادر میں نہیں سو سکتے ۔
➎ میاں ، بیوی یا لونڈیوں کے لیے شرمگاہ ننگی کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔
➏ جب افراد کی بہتات ہو تو جگہ دور جانے کی نہ ملنے پر آڑ میں بیٹھ کر پیشاب کرتے وقت حتی الوسع شرمگاہ کو چھپانا چاہیے ۔ انسان جب اکیلا ہو تو پھر بھی شرمگاہ کو چھپا کر رکھے اللہ تعالیٰ لوگوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان سے حیا کیا جائے ۔
➐ اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھنا انتہا درجے کا تقویٰ ہے اسی طرح میاں بیوی اور لونڈی بھی اس زمرہ میں شامل ہیں ۔
➑ کپڑا گھٹنوں تک اٹھ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ مذاق یا ہنسی کی بات اپنے رفیق وسنگی سے شائستہ انداز میں کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]