سوال : اسلامی ممالک کے درمیان رمضان یا شوال کے چاند کے ظہور میں فرق واقع ہوتا ہے۔ تو کیا ان ممالک میں سے کسی ایک میں چاند کی رویت سے تمام مسلمان صوم رکھیں ؟
جواب : چاند کا مسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جب کسی جگہ شرعی طریقہ پر رمضان کے چاند کی رویت ثابت ہو جائے تو تمام مسلمانوں پر صوم رکھنا لازم ہے، اسی طرح جب شوال کے چاند کی رویت ہو جائے تو تمام مسلمانوں پر صوم توڑنا ضروری ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے۔ اس قول کی بنیاد پر جب مثلاً سعودی عرب میں چاند کی رویت ہو جائے تو دنیا کے تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رمضان کا صوم رکھنے اور شوال میں صوم توڑنے میں اس پر عمل کریں۔
ان علماء نے اس پر اللہ تعالیٰ کے اس عمومی فرمان سے استدلال کیا ہے :
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [2-البقرة:185 ]
’’ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پا ئے اسے صوم رکھنا چاہیے “۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم سے بھی استدلا ل کیا ہے۔
إذا رأيتموه فصوموا و إذا رأيتموه فأفطروا “ [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب فضل شهر رمضان 1، رقم 8۔ 1080 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما]
’’ جب تم چاند دیکھو تو صوم رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو “۔
اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ رمضان کے چاند سے صوم اور شوال کے چاند سے افطار صرف ان لوگوں کے لئے ضروری ہے جو چاند دیکھیں یا ان کا مطلع چاند دیکھنے والوں کے مطلع کے موافق ہو۔ کیونکہ اہل علم و معرفت کا اتفاق ہے کہ چاند کا مطلع مختلف ہوتا ہے۔ لہٰذا اختلاف مطالع کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہر ملک کے لئے اس کی رویت کا حکم لگایا جائے۔ اب رہے وہ ممالک جن کا مطلع ایک ہو تو تبعاً ان کے لئے بھی اس رویت کا حکم لگایا جائے گا ورنہ نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے قول فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [2-البقرة:185 ]
’’ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پا ئے اسے صوم رکھنا چاہیے “۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان إذا رأيتموه فصوموا وإذا رأيتموه فأفطروا کہ جب چاند دیکھو تو صوم رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔
سے استدلال کیا ہے۔ یعنی انہوں نے بھی وہی دلیل دی ہے جو دلیل چاند کے حکم کو عام قرار دینے والوں نے دی ہے۔ لیکن ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس آیت اور اس حدیث سے وجہ استدلال مختلف ہے۔ کیوں کہ صوم رکھنے کا حکم حاضر اور چاند دیکھنے والے شخص کے ساتھ معلق رکھا گیا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص اس ماہِ صیام میں حاضر نہ ہو یا چاند نہ دیکھے اس کے لئے صوم کا حکم لا زم نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اختلاف مطالع کی صورت میں عمومی طور پر چاند کے احکام کا ثبوت نہیں ہو گا۔ اور بلاشبہ استدلال کے سلسلہ میں یہ ایک قوی اور مضبوط وجہ ہے، اور نظر و قیاس بھی اس کی تائید کر تے ہیں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
جواب : چاند کا مسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جب کسی جگہ شرعی طریقہ پر رمضان کے چاند کی رویت ثابت ہو جائے تو تمام مسلمانوں پر صوم رکھنا لازم ہے، اسی طرح جب شوال کے چاند کی رویت ہو جائے تو تمام مسلمانوں پر صوم توڑنا ضروری ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے۔ اس قول کی بنیاد پر جب مثلاً سعودی عرب میں چاند کی رویت ہو جائے تو دنیا کے تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رمضان کا صوم رکھنے اور شوال میں صوم توڑنے میں اس پر عمل کریں۔
ان علماء نے اس پر اللہ تعالیٰ کے اس عمومی فرمان سے استدلال کیا ہے :
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [2-البقرة:185 ]
’’ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پا ئے اسے صوم رکھنا چاہیے “۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم سے بھی استدلا ل کیا ہے۔
إذا رأيتموه فصوموا و إذا رأيتموه فأفطروا “ [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب فضل شهر رمضان 1، رقم 8۔ 1080 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما]
’’ جب تم چاند دیکھو تو صوم رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو “۔
اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ رمضان کے چاند سے صوم اور شوال کے چاند سے افطار صرف ان لوگوں کے لئے ضروری ہے جو چاند دیکھیں یا ان کا مطلع چاند دیکھنے والوں کے مطلع کے موافق ہو۔ کیونکہ اہل علم و معرفت کا اتفاق ہے کہ چاند کا مطلع مختلف ہوتا ہے۔ لہٰذا اختلاف مطالع کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہر ملک کے لئے اس کی رویت کا حکم لگایا جائے۔ اب رہے وہ ممالک جن کا مطلع ایک ہو تو تبعاً ان کے لئے بھی اس رویت کا حکم لگایا جائے گا ورنہ نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے قول فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [2-البقرة:185 ]
’’ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پا ئے اسے صوم رکھنا چاہیے “۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان إذا رأيتموه فصوموا وإذا رأيتموه فأفطروا کہ جب چاند دیکھو تو صوم رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔
سے استدلال کیا ہے۔ یعنی انہوں نے بھی وہی دلیل دی ہے جو دلیل چاند کے حکم کو عام قرار دینے والوں نے دی ہے۔ لیکن ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس آیت اور اس حدیث سے وجہ استدلال مختلف ہے۔ کیوں کہ صوم رکھنے کا حکم حاضر اور چاند دیکھنے والے شخص کے ساتھ معلق رکھا گیا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص اس ماہِ صیام میں حاضر نہ ہو یا چاند نہ دیکھے اس کے لئے صوم کا حکم لا زم نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اختلاف مطالع کی صورت میں عمومی طور پر چاند کے احکام کا ثبوت نہیں ہو گا۔ اور بلاشبہ استدلال کے سلسلہ میں یہ ایک قوی اور مضبوط وجہ ہے، اور نظر و قیاس بھی اس کی تائید کر تے ہیں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “