کافر ، منافق اور زندیق میں فرق
کافر: جو دین حق کا نہ ظاہری طور پر اعتراف کرے اور نہ ہی باطنی طور پر ۔
منافق: جو زبان سے تو اعتراف کرے لیکن دل میں کفر رکھے ۔
زندیق: جو ظاہر و باطن میں اعتراف کرے لیکن بعض ثابت و واضح مسائل کی ایسی تاویل و تفسیر کرے جو صحابہ و تابعین کی تفسیر اور اجماع امت کے خلاف ہو ۔
مثلاً وہ قرآن اور اس میں مذکور جنت و جہنم کو برحق مانے لیکن ان میں یوں تاویل کرے کہ جنت سے مراد اچھی صلاحیتوں کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشی ہے اور جہنم سے مراد بری خصلتوں کی وجہ سے ندامت کا حصول ہے اور خارج میں جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے ۔
تاویل کی دو قسمیں ہیں:
① جو کتاب و سنت اور اتفاق امت سے قطعی طور پر ثابت مسائل کی مخالفت نہ کرے ۔
② جو ان مسائل کے خلاف ہو یہی زندقہ ہے ۔ ہر وہ شخص جو شفاعت ، روز قیامت ، رؤیۃ الٰہی ، عذاب قبر ، منکر نکیر کے سوال ، پل صراط اور حساب و کتاب کا انکار کرتے ہوئے ایسی فاسد تاویل پیش کرے جو پہلے کبھی نہ سنی گئی ہو تو وہ زندیق ہے ۔
اسی طرح جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کہے کہ وہ جنتی نہیں ہیں حالانکہ یہ بات تو اتر سے ثابت ہے ۔ یا کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبوۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی نبی کا نام رکھنا جائز نہیں ہے یہ بھی زندیق ہے ۔
جمہور متاخر احناف و شوافع ایسے شخص کے قتل پر متفق ہیں ۔
[فقه السنة: 54/2 ، الروضة الندية: 632/2]
واضح رہے کہ جس روایت میں یہ لفظ ہیں:
أولئك الذين نهاني الله عنهم
”ان لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے روکا ہے ۔“
وہ منافقین کے بارے میں ہے ۔ جیسا کہ ایک انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر منافقین میں سے ایک آدمی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا:
ألبس يشهد أن لا إله إلا الله
”كيا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ “
تو انصاری نے کہا ، ہاں ۔ اے اللہ کے رسول ! لیکن اس کے لیے کوئی شہادت نہیں ۔ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دریافت کیا کہ :
أليس بشهد أن محمدا رسول الله
”کیا وہ یہ شہادت نہیں دیتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔“
اس نے کہا ، ہاں ۔ اے اللہ کے رسول ! لیکن اس کے لیے کوئی شہادت نہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
ألیس يصلي
”کیا وہ نماز ادا نہیں کرتا ۔“
تو اس نے کہا ، ہاں ۔ اے اللہ کے رسول ! لیکن اس کے لیے کوئی نماز نہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أولئك الذين نهاني الله عنهم
”ان لوگوں (کے قتل ) سے اللہ تعالیٰ نے مجھے منع فرمایا ہے ۔“
[احمد: 432/5 – 433]
ان تمام سے توبہ طلب کر لینے کے بعد (انہیں قتل کیا جائے گا )
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت اُم رومان مرتد ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سلام پیش کرنے کا حکم دیا کہ اگر وہ تائب ہو جائے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔
[ضعيف: تلخيص الحبير: 49/4 ، دارقطني: 119/3 ، بيهقى: 203/8 ، الكامل لابن عدي: 1530/4 ، امام ابن عديؒ فرماتے هيں كه اس روايت ميں عبد الله بن عطارد بصري منكر الحديث هے اور حافظ ابن حجرؒ نے اس روايت كي دونوں سندوں كو ضعيف قرار ديا هے۔]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے چار مرتبہ توبہ طلب کی ۔
[ضعيف: تلخيص الحبير: 93/4 ، مجمع الزوائد: 265/6 ، اس كي سند ميں علاء بن هلال راوي متروك هے ۔ امام ابو حاتمؒ فرماتے هيں كه وه منكر الحديث اور ضعيف هے ۔ امام ابن حبانؒ فرماتے هيں كه وه اسناد اور اسماء كو تبديل كر ديتا هے ۔ المجروحين: 184/2 ، الجرح والتعديل: 361/6 ، الميزان: 106/3]
➌ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایک مرتد آدمی کو بیس راتوں کے قریب دعوت دیتے رہے ۔ پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے دعوت دی اور اس نے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کی گردن اڑا دی ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 3662 ، كتاب الحدود: باب الحكم فيمن أرتد ، أبو داود: 4356]
➍ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک آدمی نے آ کر ایک مرتد شخص کو قتل کرنے کے متعلق بیان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هلا حبستموه ثلاثا وأطعمتموه كل يوم رغيفا واستتبتموه لعله يتوب
”تم نے ایسا کیوں نہیں کیا کہ اسے تین دن قید کرتے اور ہر روز اسے کھانا کھلاتے اور اس سے توبہ طلب کرتے شاید وہ توبہ کر لیتا ۔
[مؤطا: 737/2 ، بدائع المنن: 189/2]
(جمہور ) اسے توبہ کے لیے کہا جائے گا اگر وہ توبہ کرے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا ۔
(حسنؒ ، اہل ظاہر ) اسے ہر حال میں قتل کیا جائے گا خواہ توبہ کرے یا نہ کرے ۔
(نخعیؒ ) اس سے صرف توبہ ہی طلب کی جائے گی قتل نہیں کیا جائے گا ۔
(شافعیؒ ) زندیق سے توبہ طلب کی جائے گی ۔
(ابو حنیفہؒ ، احمدؒ ) اس سے توبہ نہیں طلب کی جائے گی ۔
(مالکؒ ) اگر وہ تائب ہو کر آئے تو قبول کیا جائے گا ورنہ نہیں ۔
[نيل الأوطار: 656/4 ، فتح البارى: 273/14]
(راجح ) مرتد کو قتل کرنے کے صحیح و صریح دلائل میں توبہ طلب کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ فوراََ قتل کرنے کا حکم ہے اور بعض صحابہ سے جو توبہ سے پہلے قتل کرنے پر انکار منقول ہے وہ قابل حجت نہیں ہے اور اس پر اجماع کا دعوی بھی باطل ہے ۔
لٰہذا حق بات یہی ہے کہ مرتد کو کہا جائے گا کہ اسلام کی طرف لوٹ آؤ اگر وہ توبہ کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ورنہ اسی وقت اسے قتل کر دیا جائے گا ۔
جادو گر کاہن ، اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ یا اسلام یا کتاب اللہ یا سنتِ رسول کو گالی دینے والا ، دین میں طعن کرنے والا اور زندیق ، ان سب کو اسی طرح ایک مرتبہ دعوت دینا ضروری ہے جیسا کہ جنگی دشمن کو (قتال سے پہلے ) دعوت دینا ضروری ہے ۔
[الروضة الندية: 653/2 ، السيل الجرار: 373/4]
❀ ایک مرتبہ توبہ طلب کرنا کافی ہو گا یا تین مرتبہ ضروری ہے؟ اور تین مرتبہ ایک مجلس میں یا ایک دن میں یا تین دنوں میں توبہ طلب کی جائے گی ۔ ان تمام مسائل میں اختلاف ہے ۔ تفصیل کا طالب فقہ کی اُمہات الکتب کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔
[الأم: 257/1 ، بدائع الصنائع: 4384/9 ، المغنى: 264/12 ، بداية المجتهد: 495/2]