اٹھارویں اور انیسویں صدی میں سائنس کی دریافتوں نے یہ بات واضح کی کہ کائنات میں علت و معلول (سبب و نتیجہ) کا ایک نظام موجود ہے۔ ان ادوار کے ملحد مفکرین نے ان دریافتوں کو بڑے پیمانے پر اپنایا اور انہیں خدا کے وجود کا متبادل سمجھا۔ حالانکہ جن سائنس دانوں نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا، ان کا مقصد ایسا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر نیوٹن کا کہنا تھا کہ یہ قوانین دراصل خدا کا طریقہ کار ہیں اور خدا ان اسباب کے ذریعے اپنی مرضی ظاہر کرتا ہے۔ مگر اس وقت کے فلسفیوں نے، جو سائنسی دریافتوں کی بنیاد پر فلسفے تشکیل دے رہے تھے، اس کو الحاد کا ثبوت سمجھا اور اس پر ایک مکمل فکری نظام کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح، ایک نظریہ وجود میں آیا جسے "کائنات کی مشینی تعبیر” کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کائنات کے تمام واقعات مادی اسباب کے تحت واقع ہوتے ہیں اور کسی خارجی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں، کائنات کو ایک مسلسل علت و معلول کی زنجیر سمجھا گیا۔
انیسویں صدی میں یہ نظریہ بہت مقبول ہوا۔ اس زمانے کی ایک انسائیکلوپیڈیا، Chamber’s Encyclopaedia (1874) میں یہ لکھا گیا:
"طبعی فلاسفہ، کیمسٹری اور فزیالوجی کے ماہرین کا یہ یقین ہے کہ ایک سبب سے ہمیشہ یکساں نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اور ایک بار اگر کسی تصور کو کامیابی مل جائے، تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا۔ اس وجہ سے طبعی علوم میں اب قانون تعلیل کے حوالے سے کوئی اختلاف باقی نہیں ہے۔ اس موضوع پر اختلاف صرف مابعد الطبیعیات میں ہے۔”
(Chamber’s Encyclopaedia (1874) V.II p.691)
لیکن ان ملحد مفکرین کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز میں سائنس نے ایسے حقائق دریافت کیے جو مشینی تعبیر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
طویل بحث و مباحثے کے بعد، اب سائنسی دنیا میں تسلیم کیا جا چکا ہے کہ قانون تعلیل ان معنوں میں مطلق حقیقت یا تشریح نہیں ہے جیسے کہ انیسویں صدی میں سمجھا گیا تھا۔ انسانیت دوبارہ اسی نقطے پر لوٹ آئی ہے جہاں وہ پہلے کھڑی تھی: "کائنات کا نظام محض اتفاقی طور پر وجود میں آنے والے کسی علت و معلول کے قانون کے تحت نہیں چل رہا، بلکہ اس کے پیچھے ایک شعوری ذہن ہے جو بالارادہ اسے چلا رہا ہے۔” سائنس کی یہ واپسی مذہب کی صداقت کا واضح ثبوت ہے، جس کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
پچھلے پچاس برسوں میں اس موضوع پر بے شمار کتب لکھی گئی ہیں۔ یہاں ہم اس مسئلے کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصول تعلیل کے حوالے سے جو باتیں آگے بیان کی جائیں گی، وہ زیادہ تر سر جیمز جینز کی کتاب بر اسرار کائنات سے اخذ کی گئی ہیں۔
کائنات کا بنیادی سوال
جب انسان کائنات کو دیکھتا ہے تو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے: اس کا بنانے والا کون ہے؟ کون ہے جو اس عظیم کارخانہ کو چلا رہا ہے؟ پرانے زمانوں میں لوگوں کا ماننا تھا کہ بہت سی غیر مرئی طاقتیں کائنات کی مالک ہیں اور ایک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے خدا اس کا انتظام چلاتے ہیں۔ یہ نظریہ آج بھی بعض لوگوں میں موجود ہے، مگر علمی حلقوں میں یہ نظریہ متروک ہو چکا ہے۔ اب اسے ایک مردہ نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ ایک اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے۔ اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجاتا ہے تو اس سے دیگر واقعات جنم لیتے ہیں، اور یوں ایک طویل سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اتفاق اور قانون علت کی بنیاد
یہ جدید توجیہہ دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہے: "اتفاق” اور "قانون علت”۔ اس نظریے کے مطابق تقریباً 20 نیل سال پہلے کائنات کا وجود نہیں تھا۔ اس وقت نہ ستارے تھے، نہ سیارے، مگر فضا میں مادہ موجود تھا۔ یہ مادہ ابتدائی ذرات کی شکل میں پوری فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ ان ذرات کی حالت متوازن تھی، اور ان میں کوئی حرکت نہیں تھی۔
مگر پھر مادے کے اس بادل میں ایک معمولی سی گڑبڑ پیدا ہوئی، جیسے کوئی حوض کے پانی کو ہاتھ لگا کر ہلا دے۔ اس پرسکون کائنات میں یہ خلل کیسے آیا، اس کا کچھ معلوم نہیں۔ تاہم، یہ خلل بڑھتا چلا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادہ مختلف جگہوں پر جمع ہونا شروع ہوگیا۔ یہی جمع شدہ مادہ ستاروں، سیاروں، اور سحابیوں کی شکل اختیار کر گیا۔
کائنات کی مشینی تشریح کی تنقید
یہ توجیہہ سائنس کی جانب سے پیش کی گئی تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ توجیہہ بہت کمزور تھی۔ سائنس دان خود بھی اس پر کبھی مکمل مطمئن نہ ہو سکے۔ یہ نظریہ تسلیم کرتا ہے کہ کائنات کو پہلی بار کس نے حرکت دی، یہ معلوم نہیں، مگر پھر بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کے محرک اول کا نام "اتفاق” ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ تھا تو یہ حیرت انگیز اتفاق کہاں سے پیدا ہوا، جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی؟ اس نظریے کی بنیاد یہ تضاد ہے کہ یہ ہر واقعہ سے پہلے ایک واقعہ کا وجود ضروری سمجھتا ہے، مگر اپنی ابتدا ایک ایسے واقعہ سے کرتا ہے جس کا کوئی سبب موجود نہیں۔
کائنات کی اتفاقی پیدائش پر سوالات
یہ نظریہ کہ کائنات محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:
- کیا واقعات کا وہی رخ اختیار کرنا لازمی تھا جو انہوں نے کیا؟ کیا کوئی اور امکان نہیں تھا؟
- جب مادہ میں حرکت پیدا ہوئی تو کیا یہ ضروری تھا کہ یہ حرکت ارتقائی شکل اختیار کرے اور موجودہ کائنات کو وجود میں لانے کی طرف بڑھے؟
- کس منطق نے ستاروں کو منظم طریقے سے گردش کرانا شروع کیا؟
- کس منطق نے کائنات کے کسی دور دراز گوشے میں نظام شمسی کو جنم دیا؟
- کس وجہ سے ہمارے کرۂ ارض پر وہ تبدیلیاں آئیں، جن سے زندگی کا قیام ممکن ہوا، جبکہ ایسی تبدیلیاں کائنات کی کسی دوسری جگہ پر نظر نہیں آتیں؟
- بے جان مادہ سے جاندار مخلوق کی پیدائش کیسے ممکن ہوئی؟
- زندگی کی مسلسل پیدائش کا کیا اصول ہے؟
- کیا محض ایک اتفاقی واقعہ تمام ان عجیب و غریب واقعات کا سبب بن سکتا ہے جو اتنے حسن و ترتیب سے پیش آئے ہیں؟
دو خدا کا مفروضہ
یہ نظریہ دراصل دو خدا کے تصور کی طرف لے جاتا ہے۔ حرکت اول کی توجیہ کے لیے اتفاق کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے ایک دوسرے خدا کی تلاش کی ضرورت پڑتی ہے۔
اصول تعلیل کی وضاحت
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اصول تعلیل پیش کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی حرکت کے بعد کائنات میں علت و معلول کا ایک سلسلہ قائم ہوگیا، جس میں ایک واقعہ دوسرے کا سبب بنتا ہے، جیسے بچے اینٹوں کی قطار بنا کر ایک اینٹ گرا دیں تو باقی اینٹیں خود بخود گرتی چلی جاتی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کے اندر جو بھی واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے، اس کا سبب کائنات کے اندر ہی موجود ہے۔
کائنات کا میکانکی نظریہ اور اس کی ناکامی
سترھویں صدی میں اصول تعلیل کو قدرت کا بنیادی قانون سمجھا گیا۔ انیسویں صدی میں یہ خیال اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اس دور میں انجینئر اور سائنس دان قدرت کے میکانکی ماڈلز بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہیلم ہولٹز نے اس وقت کہا تھا کہ "تمام قدرتی سائنسوں کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کرنا ہے۔”
تاہم، اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی وضاحت کرنے میں سائنسدان مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ روشنی اور قوتِ کشش جیسے مظاہر نے اس نظریے کو چیلنج کیا، اور بالآخر بیسویں صدی میں سائنس پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ کائنات کے کئی مظاہر میکانکی وضاحت کو قبول نہیں کرتے۔
سائنس کی واپسی مذہب کی طرف
قدیم سائنس یہ دعویٰ کرتی تھی کہ کائنات کا نظام ایک ہی راستے پر چل سکتا ہے، جو ابتدا سے تعین شدہ ہے۔ مگر بیسویں صدی میں سائنس کو تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس کے مستقبل کی ضمانت نہیں ہے۔ جدید تحقیقات نے ثابت کیا کہ کائنات کی پیدائش اور حرکت کے بارے میں کوئی حتمی سائنسی وضاحت موجود نہیں۔ اس طرح، سائنس کی یہ واپسی مذہب کی سچائی کو ثابت کرتی ہے۔ اب انسان پھر سے اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے اپنا نیا سفر شروع کیا تھا۔