چوتھے آسمان کے فرشتے کی مدد سے ایک صحابی کی ڈاکو سے جان بچ گئی
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی ابو متعلق نامی بہت متقی پرہیزگار اور تجارتی کاروبار میں بہت مشہور تھے۔ ایک مرتبہ وہ مال تجارت لے کر باہر سفر میں تشریف لے گئے اتفاق سے راستہ میں ایک ڈاکو ملا اس ڈاکو نے کہا جو کچھ تیرے پاس مال ہے وہ یہاں رکھ دے ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ صحابی نے فرمایا : تو یہ مال لے لو۔ اس ڈاکو نے کہا : مال تو میرا ہو ہی چکا ہے۔ میں تجھ کو بغیر مارے نہ چھوڑوں گا۔ صحابی نے کہا : بہت اچھا مگر مجھے چار رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ ڈاکو نے اتنی مہلت دے دی۔ موصوف نے وضو کر کے چار رکعت نماز پڑھی اور آخری سجدہ میں اللہ تعالی کی جناب میں یہ دعا کی :
«يا ودود يا ذو العرش المجيد يا فعال لما يريد اسئلك بعزتك الذى لايرام وبملكك الذى لا يضام وبنورك الذى ملا اركان عرشك أن تكفيني شر هذا اللص يا مغيث اغثني يا مغيث اغثني يا مغيث اغثني»
”اے پیار اور محبت کرنے والے، اے بزرگ عرش والے، اے اپنی چاہت اور مرضی کے موافق کرنے والے میں تیری اس عزت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جن کا ارادہ نہیں کیا جا سکتا اور تیرے اس ملک کا سہارا لے کر درخواست کرتا ہوں جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور تیرے اس نور کے ذریعہ ملتمس ہوں جس نے تیرے عرشی حصوں کو جگمگا رکھا ہے کہ اس ڈاکو کی برائی سے تو مجھ کو بچا لے اے فریاد کو پہنچنے والے میری اس فریاد کو سن لے۔“ (تین بار)
حضرت ابو متعلق چوتھی رکعت کے سجدے میں اس دعا کو پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک مسلح سوار نیزہ لے کر سوار ہوا اور اس ڈاکو کو قتل کر کے صحابی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اب تم اپنا سر اٹھا لو۔ تمہارا دشمن ختم ہو گیا۔ یہ سجدہ سے سر اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ واقعی دشمن مرا پڑا ہے۔ صحابی موصوف دریافت فرماتے ہیں کہ آپ کون ہیں وہ جواب دیتے ہیں کہ میں چوتھے آسمان کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں۔ جب آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تو میں نے آسمان کے دروازہ کے کھلنے کی آواز سنی۔ آپ کی دوسری فریاد پر تمام فرشتوں میں شور و غل اور ہلچل مچ گئی، تیسری فریاد پر مجھے کہا گیا کہ یہ ایک مصیبت زدہ مظلوم کی فریاد ہے، میں نے اللہ تعالیٰ سے استدعاء کی کہ مجھے اس ظالم کے قتل کا حکم ملے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی۔ اس لیے میں تمہاری مدد کے لیے حاضر ہوا ابن ابی الدنیا کی کتاب المجانین فی الدنیا میں اور علامہ ابن القیم نے الجواب الکافی لمن سال عن دواء الشافی کے ص : 14 میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔

تحقیق الحدیث :

اسنادہ ضعیف .

[أخرجه ابن ابي الدنيا فى مجابي الدعوة ص 38، 39، رقم 23 و الهواتف ص 24، 25 رقم 14 ومن طريقه اللالكائي فى "كرامات الاولياء” ص 154، 155 رقم 111 و عبد الغني المقدسي فى الترغيب فى الدعاء ص : 104، 105 رقم 16 و ابن بشكوال فى المستغيثين بالله ص 17، 18 رقم 3 والضياء المقدسي فى العدة للكرب واشدة ص : 73، 72 رقم 32 و ابن حجر فى الاصابه 380/7 قال أخبرنا عيسي بن عبد الله التميمي، اخبرني فهير بن زياد الاسدي، عن موسى بن وردان، عن كلبي وليس بصاحب التفسير، عن الحسن، عن انس بن مالك۔]
اس میں کلبی صاحب التفسیر ہی ہے جس پر محدثین سے شدید جرح کی ہے۔
ابن معین کہتے ہیں : ثقہ نہیں۔
جوزجانی کہتے ہیں : کذاب ہے۔
دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا متروک ہے۔ اگر اس میں یہی کلبی ہے تو روایت سخت ضعیف ہے اگر کوئی دوسرا ہے تو مجھول ہے۔
دوسرا راوی موسیٰ بن وردان بھی ضعیف ہے قوی نہیں، نیز صحیح نام ابومعلق ہے اب معقل نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے