قصہ نمبر 31 :
روح کیا ہے ؟
——————
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کے غیر آباد حصہ میں چلا جارہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے اثناء راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر یہودیوں کی ایک جماعت کی طرف سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یہودی ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کا حال پوچھو، دوسرا بولا مت دریافت کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے نا گوار خاطر کوئی کلمہ لے کر بیٹھیں مگر بعض لوگ بولے ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ (خواہ کچھ ہو ) چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا ابوالقاسم روح کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ( کچھ دیر ) خاموش رہے میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی ہورہی ہے اس لئے میں کھڑا ہوگیا جب آپ سے وحی کی تکلیف دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی وہ لوگ تم سے روح کے متعلق استفسار کرتے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور ان کو (اس کا )علم بہت تھوڑا سا دیا گیا ہے۔ [بخاري شريف : 125، 4444، 686، 7018، 7024]
فائدہ:
کائنات کو انسان نے جس قدر حدود سمجھ رکھا ہے، حقیقت اور علم خداوندی کے اعتبار سے تو نہیں، البته انسان ہونے کے ناطے یہ سوچ شاید جدی تعلیم یافتہ طبقے کے نزدیک بھی صحیح نہیں اور ہم اب تک کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں مکمل کامیاب نہیں ہو سکے۔
انسانی عقل وشعور جس قدر محتاج اورضعیف ہے اس کا کچھ اندازہ اس طرح سے کیا جاسکتا ہے کہ اب تک بے شمار بیماریوں کا علاج دریافت کرنے میں انسانی عقل ٹھوکریں کھارہی ہے تو پر’’روح‘‘ کی حقیقت کو پہنچنا، اسے سمجھنا اور اس سے واقفیت حاصل کرنا کہاں انسان کے بس کی بات ہے اسی لئے قرآن میں صرف اتنا فرمادیا گیا ہے کہ ”روح ایک امررب ہے “ کیونکہ اس سے زیادہ سمجھے کی اس میں صلاحیت ہی نہیں۔
قصہ نمبر 32 :
بندوں پر اللہ کے حقوق
——————
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ (راستہ میں) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ! معاذ ! انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا معاذ!عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں یہ بات تین مرتب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، پھر فرمایا جو شخص دل سے لا الہ الا الله اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دے گا خدا اس پر دوزخ کو حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی لوگوں کو اطلاع نہ کر دوں کہ وہ خوش ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اطلاع کر دو گے تو لوگ اعتماد پر بیٹھے رہیں گے (اعمال خیر ترک کر دیں گے ) حضرت معاذ عنہ نے گناہ کے خوف سے مرتے وقت یہ حدیث بیان کی۔
فائدہ :
الله تعالی پرکسی کام کا کرنا لازمی اور ضروری نہیں البتہ وہ اپنی مہربانی سے اپنے ذمہ کوئی کام لے لیں تو یہ ان کا فضل ہے اور ہم گنگا تو اللہ تعالی کے فضل ہی کے محتاج ہیں، اس کا عدل برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں، ورنہ شاید کوئی بھی نہ بچ سکے اس لئے محترم قارئین کرام سے درخواست ہے کہ عقیدہ توحید کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھئیے، کہیں کسی راستے سے شیطان اس گوہر بے بہا پر ڈاکہ نہ ڈالے۔
قصہ نمبر 33 :
عرفات اور مزدلفہ کی وادیوں میں
——————
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبه حج کے ایام میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے چلے، جب پہاڑ کی گھاٹی میں پہنچے تو سواری سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر کے وضو کیا لیکن پورا وضو نہیں کیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (مغرب) کا وقت ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز آگے ہوگی اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور مزدلفہ میں پہنچ کر سواری سے اترے، کامل وضو کیا، نماز کی اقامت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہرشخص نے اپنا اپنا اونٹ اپنی اپنی جگہ پر جا کر ٹھرا دیا اور عشاء کی نماز کی تکبیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عشاء کی نماز پڑھی اور عشاء و مغرب کے درمیان کوئی اور سنت یا نفل ) نہیں پڑھے۔ [بخاري شريف : 139، 179، 1584، 1586، 1588]
فائده :
ہوسکتا ہے کہ ہمارا مخاطب زیارت حرمین شریفین سے فیض یاب ہو چکا ہو اور شاید اس کا ذہن عرفات اور مزدلفہ کی وادیوں میں بھی گھومنے لگا ہو، کیا سہانا وقت ہوگا کہ جب امام الانبیاء فخر موجودات، سروردوعالم، احمد مجتبیٰ،،حمد مصطفیٰ (پڑھ لیجئے) صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثار اور وفاشعار قدسی صفات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان وادیوں میں ’’لبیک‘‘ کے ترانے پڑھتے ہوں گے، میدان ان کے نعر ہائے تکبیر سے گونجتا ہوگا۔ اے کاش! ہم نے بھی وہ روح پرور منظر دیکھا ہوتا۔
قصہ نمبر 34 :
اگر پانی کم پڑ جائے تو؟
——————
حضرت عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وضو کیا، اول منہ اس طرح دھویا کہ ایک چلو پانی لے کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر دوسرا چلو لے کر دوسرا ہاتھ ملا کر اس سے منہ دھویا، پھر ایک چلو پانی لے کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلولے کر بایاں ہاتھ دھویا اس کے بعد سرکا مسح کیا پھر چلو پانی لے کر دائیں پاؤں پر چھڑک کر اس کو دھویا، پھر ایک اور چلو لے کر بایاں پاؤں دھویا اور اخیر میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [بخاري شريف: 140]
فائدہ:
اگر انسان کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں پانی کی قلت ہو، نماز کا وقت آجائے، پانی کی کمی کا بہانہ مت بنائے بلکہ ایک ایک مرتبہ ہی اپنے اعضاء وضو کو اس انداز میں دھولے کہ کوئی جگہ خشک نہ رہے، مذکورہ صدر واقعے میں اس بات کیطرف اشارہ کیا گیا ہے اور یاد رہے کہ اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھونا سنت ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ کوئی عضو خشک نہ رہ جائے، اگر یہ کیفیت ایک مرتبہ دھونے سے حاصل ہو جائے تو فرضیت ساقط ہو جائے گی تا ہم سنت کے نور سے محرومی کوئی اچھی بات نہیں۔
قصہ نمبر 35 :
حجاب اور امہات المومنین
——————
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جب قضاء حاجت کے لئے کھلے میدان میں جاتی تھیں تو رات کو جاتی تھیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیں، ایک روز ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عشاء کے وقت نکلیں چونکہ لمبے قد کی عورت تھیں اس لئے حضرت عمر عنہ نے (پہچان کر ) آواز دی ہم نے تم کو پہچان لیا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بڑے مشتاق تھے اس کے بعد خدائے تعالی نے پردہ کا حکم نازل فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم سب کو اپنی حاجتوں کے لئے باہر جانے کی اجازت ہے، ہشام کہتے ہیں کہ حاجت سے مراد قضاء حاجت کیلئے جانا ہے۔ [بخاري شريف :146، 4517، 4939،5886 ]
فائدہ :
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، گو کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مساوی درجہ رکھتے تھے لیکن مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں واحد و یکتا اور یگانہ تھے، ملہم من اللہ اور محدث ہونے کے تنہا وارث تھے اس لئے کائنات ارض و سماء کو تخلیق کرنے والا بھی ان کی خواہشات اور تمناؤں کا احتر م کیا کرتا تھا۔
اس واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جب ’’ماں‘‘ کو پردہ کا حکم ہوگا تو بیٹی، بہن اور بہو کیلئے اس علم کی تاکید میں یقیناً اضافہ ہی ہوگا اور ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں، اب جو اپنے آپ کو ان کی بیٹی کہے اور سمجھے، اسے پردہ کی آڑ میں رہنا بھی ضروری ہوگا ورنہ اسے ایمانی نسبت ان مقدس ہستیوں کی طرف کرتے ہوئے کچھ سوچنا ہوگا۔
قصہ نمبر 36 :
پتھر سے استنجاء
——————
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے چلے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ چلتے میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے چند پتھر تلاش کر کے لاؤ تا کہ میں استنجا کروں لیکن ہڈی اور گو برلید وغیرہ نہ لانا، چنانچہ میں اپنے کپڑے کے دامن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چند پتھر لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر رکھ دیئے اور آپ کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فارغ ہو گئے تو یکے بعد دیگرے ان سے استنجاء کیا۔ [بخاري شريف : 154، 3647 ]
فائدہ:
پتھر سے استنجا کرنا سنت ہے اور اس کے بعد پانی استعمال کرنا نور علی نور اور محبت خداوندی کا ذریعہ ہے تاہم یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ہاتھ میں ڈھیلا پکڑے ہوئے استنجاء کرتے چلے جارہے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ نامناسب حرکت ہے، بہتر یہ ہے کہ ایک مقام پر اپنے پیشاب کو خشک کر لیا جائے اور پھر اپنی ضرورت میں مشغول ہو لیا جائے، ورنہ سنت کی بدنامی کا سبب بن کر ہم شاید کوئی نیکی نہ کما سکیں۔
قصہ نمبر 37 :
وضو کا مسنون طریقہ
——————
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری آنکھوں کے سامنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی کا برتن منگوایا (جب پانی آگیا ) تو آپ نے اول ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا اور ان کو دھویا، دھونے کے بعد دائیں ہاتھ کو پانی میں ڈال کر اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر چہرہ کو تین بار دھویا اور کہنیوں تک دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اس کے بعد ٹخنوں تک دونوں پاؤں کو تین مرتبہ دھویا پھر اخیر میں فرمایا کہ جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کر کے دو رکعتیں (تحیتہ الوضو کی ) پڑھے اور اس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
حضرت حمران کی دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وضو کر چکے تو فرمایا کہ اگر آیت ان الذين يكتمون ما انزلنا الخ نہ ہوتی تو میں تم سے نہ بیان کرتا مگر اب ایک حدیث بیان کرتا ہوں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھتا ہے اس کی پچھلی نماز کے وقت تک کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ [بخاري شريف : 158، 162، 1832، 6069]
فائدہ :
مجھے اپنے مخاطب سے قوی امید ہے کہ وہ آج ضرور اس انداز میں وضو کر کے انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ دو رکعت نماز نفل ادا کرے گا کیونکہ حقیقی مخاطب وہ ہوتا ہے جو عمل کی نیت سے کسی کتاب کو ہاتھ میں لیتا ہے اور اس کے مندرجات کو اپنے قلب و جگر میں پیوست کر لیتا ہے، اے کاش ! کوئی صاحب دل اس پر بھی عمل کر کے دکھائے۔ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ پروردگار اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی لاج ضرور رکھے گا اور اس کے گناہوں کو ضرور اپنی باران رحمت سے دھو دے گا۔
قصہ نمبر 38 :
اتباع سنت کی ایک نادر مثال
——————
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عبید بن جریح نے عرض کیا کہ میں آپ کو چار کام ایسے کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جو آپ کے دوسرے ساتھیوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھتا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ کیا باتیں ہیں ؟ عبید کہنے لگے :
➊ آپ کعبہ کے چار ارکان میں سے صرف دو یمانی رکنوں کو چھوتے ہیں۔
➋ بغیر بالوں کا جوتے پہنتے ہیں۔
➌ کپڑوں کو زردرنگ دے کر پہنتے ہیں۔
➍ اور جس وقت آپ مکہ مکرمہ میں ہوتے ہیں تو لوگ تو چاند دیکھتے ہی حج کا احرام باندھ لیتے ہیں مگر آپ آٹھویں تاریخ سے قبل احرام نہیں باندھتے، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا (میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پابندی کرتا ہوں) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف یمانی رکنوں کو چھوتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے میں بھی ان ہی کو چھوتا ہوں، باقی بے بالوں کا جوتے پہنے کے متعلق یہ ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی بے بالوں کا جوتا پہنے دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتار کر پاؤں دھوتے تھے اس لئے مجھے بھی یہی پسند ہے کہ بغیر بالوں کا جوتا استعمال کروں۔ رہا زرد رنگ کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زردرنگ سے رنگ کر کپڑا استعمال فرماتے تھے لہذا میں بھی زردرنگ رنگنے کو دل سے چاہتا ہوں اور احرام کی بھی یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک احرام نہ باندھتے تھے جب تک کہ اونٹنی (جانے کے لئے) کھڑی نہ ہوجاتی تھی۔ [بخاري شريف : 164، 5513، 1443، 1529]
فائدہ:
دورصحابہ کا ایک شاہکار، درخشاں اور تابندہ ستارہ جسے دنیا نے ہمیشد ”ابن عمر‘‘ کے نام سے خراج تحسین پیش کیا، اتباع سنت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی نجی مجالس میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیائے آب وگل سے پردہ فرمانے کے بعد ہر صحابی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئی لیکن یہ ”عمر “ کا فرزند ولخت جگر اتباع سنت کے نشے میں ایسا چور تھا کہ اسے کوئی چیز تبدیل نہ کرسکی، سفر کے دوران اگر کہیں پیغمبر اسلام قضاء حاجت کیلئے اترے ہیں اور اسی مقام سے ”ابن عمر رضی اللہ عنہ“ کا گزر ہوا ہے تو تقاضا نہ ہونے کے باوجود اتباع سنت کے جذبے میں وہاں جا کر بیٹھ گئے کہ یہ سنت بھی چھوٹ نہ جائے پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خلاف سنت عمل کریں، ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ وفاداری ہم میں بھی بیدار ہوجائے۔ الله کرے۔ آمین!
قصہ نمبر 39 :
یہ تھے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
——————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، لوگوں نے وضو کے لئے پانی تلاش کیا لیکن پانی نہ ملا اتنے میں ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی قدر پانی لے کر حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے اور اتنا پانی نکلا کہ اس سے سب لوگوں نے وضو کرلیا۔
[بخاري شريف : 167، 192، 197، 3379، 3382]
فائدہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزاتی واقعہ کا تذکرہ بخاری شریف ہی میں دوسرے مقامات پر بھی کیا گیا ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس انگلیوں سے نکلنے والے اس بابرکت پانی سے وضو کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس سے بھی زائد بیان کی گئی ہے، اس موقع پر علماء کرام نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ کوثر و سلسبیل اور زمزم و تسنیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے نکلنے والا یہ پانی ہر پانی سے افضل اور بابرکت تھا، اس سے افضل پانی ہونے کا شرف نہ تو کوثر کو حاصل ہوسکا اور نہ ہی زمزم کو۔
قصہ نمبر 40 :
بے زبان پر ترس کھانے کا اتنا بڑا اجر
——————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص راستہ میں جارہا تھا، سخت پیاس معلوم ہوئی، وہاں ایک کنواں ملا، یہ شخص کنویں میں اتر کر پانی پی کر باہر نکلا، نکلا ہی تھا کہ ایک کتا زبان نکالے ہوئے پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹتا نظر آیا، یہ شخص کہنے لگا جو تکلیف پیاس کی وجہ سے مجھے ہوئی تھی ہی اس کے کو ہوتی ہوگی، یہ سوچ کر فورا کنویں میں اتر اور موزہ میں پانی بھرا، منہ پکڑ کر (باہر نکل کے) کتے کو پلایا، خدا تعالی نے اس کی قدردانی کی اور اسے بخش دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کیا چوپایوں کے ساتھ سلوک کرنے سے بھی ہم کو ثواب ہے ؟ فرمایا ہر تشنہ جگر کے پانی پلانے میں ثواب ہے۔ [بخاري شريف : 171، 2234، 2334، 5663 ]
فائدہ :
قارئین کرام ! مادیت کی اس زندگی میں خوب سے خوب تر کی تلاش شاید ہماری نجات کا کوئی ممکنہ سبب نہ بن سکے، غور طلب بات یہ ہے کہ جس ارحم الراحمین کے رحم و کرم کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک کتے کو پانی پلانے پر بخشش اور ایک بلی کو بھوکا رکھنے پر عذاب کا فیصلہ فرمانے وہ اشرف مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک کو کیونکر رائیگاں جانے دے گا، سوچئے اور اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کیجئے۔