چند مستند اور سبق اموز قصے (حصہ سوئم)
تحریر : فضیلۃ الشیخ مولانا محمد ظفر اقبال الحماد حفظ اللہ

قصہ نمبر 21 :
سترہ اور اس کا مسئلہ
——————
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں گدھے پر سوار ہو کر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) حاضر ہوا، اس وقت میں بالغ ہونے کے قریب تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام منی میں بغیر سترہ کے نماز پڑھ رہے تھے، میں بھی بعض صفوں کے سامنے سے گزرا، گدھے کو چرنے کو چھوڑ دیا اور خود صف میں شریک ہو گیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔ [صحیح بخاری : 76، 471، 823، 1758، 4150 ]
فائدہ:
سترہ یعنی نمازی اور اس کے آگے سے گزرنے والے درمیان کسی قسم کی آڑ کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس واقعے کے موقع پر چھوٹے بچے اور نا بالغ تھے اس لئے صف کے آگے سے گزرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی باز پرس نہیں فرمائی، یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر انسان کسی ایسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑ ھے جو عام لوگوں کی گزرگاہ نہ ہو تو وہاں سترہ کی وہ ضرورت اور اہمیت نہیں ہوتی جو عام گزرگاہ ہونے کی صورت میں ہوئی ہے۔

قصہ نمبر 22 :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب
——————
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا تھا کہ میں (ایک بار) سو رہا تھا، خواب میں مجھے دودھ کا ایک بڑا پیالہ دیا گیا، میں نے اس میں سے اتنا پیا کہ سیرابی اور تازگی کے آثار مجھے اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے معلوم ہونے لگے پھر میں نے اپنا پس خوردہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا تعبیر دی؟ آپ نے فرمایاعلم۔
[صحیح بخاری : 82، 3478، 6604، 6605، 6624، 6627 ]
فائدہ:
اس واقعے کے پیش نظر خوابوں کی تعبیر بتانے والے ائمہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں خود کو دودھ پیتا ہوا دیکھے تو اس کی تعبیر ”حصول تعلیم“ سمجھے اور یہیں سے علوم نبوت میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بلند مرتبہ اور فضیلت بھی واضح ہوتی ہے۔

قصہ نمبر 23 :
اگر کبھی شک ہو جائے تو ؟
——————
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا، نکاح کے بعد ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تجھ کو اور اس عورت کو دودھ پلایا ہے جس سے تو نے نکاح کیا ہے، میں نے جواب دیا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے مجھے (پہلے سے) اطلاع کی (تا کہ میں اس سے نکاح ہی نہ کرتا ) چنانچہ میں سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سے کہہ دیا گیا تو اب نکاح کیسے رہ سکتا ہے ؟ لہذا میں نے اس عورت کو علیحدہ کردیا اور اس نے ایک اور شخص سے نکاح کرلیا۔
[صحیح بخاری : 88، 1947، 2497، 2516، 2517، 4816 ]
فائدہ :
شریعت کی نظر میں ایک عورت سے دودھ پینے والے بچے اور بچی کا نکاح آپس میں کبھی نہیں ہوسکتا اور نسبی رشتوں کی طرح حرمت نکاح کے سلسلے میں یہ رشتہ بھی انتہائی مؤثر ہے، قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت قطعی طور پر میں ملتا ہے، اسی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو ایک عورت سے شادی کرنے کی ممانعت فرمادی جس کےمتعلق یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں ان دونوں کو ایک ہی عورت نے دودھ نہ پلایا ہو اور یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر انسان کو کسی معاملے میں شک پیدا ہوجائے تو شک کی بناء پر یقین کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔

قصہ نمبر 24 :
امامت کا ایک اہم اصول
——————
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید میں جماعت کی نماز نہ پاسکوں گا، کیونکہ فلاں شخص بڑی طویل قرأت کرتا ہے (راوی کہتے ہیں) اس روز سے بڑھ کر میں نے وعظ کہنے کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لوگو ! تم جماعت سے نفرت دلاتے ہو، سنو !جو شخص لوگوں کا امام ہو اس کو چاہئے کہ قرأت میں تخفیف کرے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور، بیمار اور ضرورت مند (سب ہی) ہوتے ہیں۔
فائدہ:
نگاه شریعت میں لوگوں کی آسانی اور سہولت جس قدر پیش نظر رہی ہے اس سے زیادہ آسانی کا تصور بھی ممکن نہیں کیونکہ ”الدین یسر“ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تو ہے اسی لئے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آئی کہ وہ نماز میں قرأت لمبی کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تین مرتبہ فرمایا کہ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو ؟ امام کو چاہئے کہ وہ ہلکی پھلکی نماز پڑھائے اور پیچھے کھڑے ہوئے مقتدیوں کا خیال کرے لیکن اتنی مختصر بھی نہ ہو کہ ارکان نماز ہی صحیح طریقے سے ادا نہ
ہوسکیں۔

قصہ نمبر 25 :
گمشدہ چیز کا حکم
——————
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے راستہ میں پڑی ہوئی چیز کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا سر بنداور تھیلا پہچان رکھو، ایک سال تک مشہور کرو پھرخود مزے اڑاؤ، اگر مالک آجائے تو اس کے حوالے کردو، فضالہ نے دریافت کیا کہ گم شدہ اونٹ کا کیا حکم ہے ؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہو گئے، انتہائی غصے سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اس کی کیا پڑی ہے اس کے ساتھ اس کی مشک اور موزے ہیں (پیٹ کا اوج جس میں پانی رہتا ہے اور پاؤں) پانی پر خود جاتا ہے اور درختوں (کے پتوں) کو چرتا ہے، تو اس کو چھوڑ دے تا کہ اس کا مالک اس کو کہیں پالے، فضالہ نے کہا بکریوں کے لئے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا تیرے لئے ہیں یا تیرے بھائی کے لئے یا بھیڑیے کے لئے۔
[ صحیح بخاری :91، 2243، 2295، 2297، 2304، 2306، 4986، 5761]
فائدہ:
گم شدہ چیز ملنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اول تو کہیں گری پڑی چیز اٹھانی ہی نہیں چاہئے اور اگر اٹھالے اور وہ قیمتی ہو تو اخبارات اور موجودہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک سال تک اس کی گمشدگی کا اعلان کرواتا رہے، مالک آجائے تو اسے دیدے ورنہ اگر خود مالدار ہے تو مالک کی طرف سے اسے صدقہ کردے اور اگر خود محتاج ہے تو اپنے استعمال میں لے آئے، بالفرض اگر اس کے بعد مالک آجائے تو اسے اس کی چیز لوٹانا ضروری ہوگا، ہاں! اگر اسے ساری صورت حال بتادی جائے اور وہ اس کا مطالبہ نہ کرے تو اور بات ہے۔

قصہ نمبر 26 :
مکہ مکرمہ کی فضیلت
——————
حضرت ابوشریح کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) عمرو بن سعید ایک لشکر مکہ مکرمہ کی طرف (حضرت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے یزید کی طرف سے) بھیج رہا تھا میں نے کہا : اے امیر ! میں آپ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے روز ارشاد فرمائی تھی اور میں نے اپنے کانوں سے اس کو سنا تھا اور دل سے یاد کیا تھا اور آنکھوں سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے دیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالی کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ مکہ مکرمہ کو خدائے تعالیٰ نے حرم بنایا ہے، آدمیوں نے حرم نہیں بنایا لہٰذا جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس کو یہاں خوں ریزی نہ کرنا چاہئے، نہ یہاں کے درخت کاٹنا چاہیئے، اگر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کرنے سے یہاں کی خوں ریزی کے (جواز ) پر استدلال کرے تو اس سے کہہ دو کہ الله تعالی نے اپنے رسول کو (خاص طور پر ) اجازت دی تھی اور وہ اجازت بھی دن میں صرف ایک ساعت کے لئے تھی، اب دوبارہ اس کی حرمت ویسی ہو گی جس طرح کل تھی، مناسب ہے کہ یہ حکم حاضرین غائبین کو پہنچا دیں۔ حضرت ابو شریح سے پوچھا گیا پھر عمرو نے اس کا کیا جواب دیا تو ابوشریح بولے، عمرو نے کہا ابو شریح ! میں تم سے زیادہ جانتا ہوں مکہ نہ تو گناہ گار کو پناہ دے سکتا ہے نہ اس شخص کو پناہ دے سکتا ہے جو قتل کر کے یا چوری وغیرہ کر کے مکہ میں بھاگ آیا ہو۔ (یعنی قصاص اور اجراء حدود شرعیہ سے مکہ مکرمہ مانع نہیں ہے ) [بخاري شريف : 104، 1735، 4044]
فائدہ :
زمین کو اگر ایک گیند کی ماند فرض کرلیا جائے تو اس کا جو مرکزی نقطہ ہو گا وہ عین کعبہ پر واقع ہوگا اور احادیث سے بھی معلوم ہوا ہے کہ خانہ کعبہ سے ہی کرہ ارض کی توسیع کی گئی ہے، اسی طرح خانہ کعبہ جس شہر میں واقع ہے وہ بھی کوئی معمولی شہر نہیں، قرآن کریم میں اسے ” بلد امین “ قرار دیکر خود پروردگار عالم نے اس کی قسم کھائی ہے اور مذکورہ صدر حدیث سے بھی اس کی حرمت اور تقدس پر مزید روشنی پڑتی ہے کہ اس شہر میں خون ریزی اور فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، یہاں کے درختوں کو کاٹنا منع ہے، جانوروں کو شکار کرنا جائز نہیں ہے تاہم احکامات شرعیہ کا اجراء یہاں بھی اسی طرح ہوگا جیسے ایک عام شہر میں ہوتا ہے۔

قصہ نمبر 27 :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک سوال
——————
حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا آپ کے پاس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی )کوئی کتاب ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : صرف کتاب اللہ ہے یا اتنی سمجھ ہے جتنی ایک مسلمان آدمی کو عطا کی گئی ہے یا یہ صحیفہ ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے میں نے عرض کیا اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کے چھڑانے کے احکام اور یہ حکم کہ کافر حربی کے (قتل کے) عوض مسلمان کو نہ مارا جائے۔ [بخاري شريف: 111، 2882، 1508، 6518 ]
فائدہ:
اس سوال کی وجہ علماء کرام نے تحریر فرمائی ہے کہ دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے زمانے میں لوگ انہیں مخصوص خدائی علوم کا حامل سمجھنے لگے تھے، اس ذہنیت اورنظرئیے کی تردید فرما کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کمال اخلاص کا ثبوت مہیا فرمایا ہے۔

قصہ نمبر 28 :
مرض الوفات کا ایک اہم واقعہ
——————
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت پکڑ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کاغذ لاو میں تم کو کچھ لکھ دوں تا کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف کی شدت ہے اور کتاب اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اس پر صحابہ میں باہم اختلاف ہونے لگا اور خوب گڑ بڑ ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ابن عباس نے یہ کہہ کر وہاں سے باہر نکلے کہ یہ بڑی مصیبت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحریر نہ لکھ سکے۔ [بخاري شريف : 114، 2888، 2997، 4168، 4169، 5345، 6932]
فائدہ :
اس واقعے کے بعد تین دن تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رونق افروز رہے لیکن دوبارہ پھر کاغذ قلم نہیں منگوایا، اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہٰی سے تسلی ہو گئی تھی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانا چاہتے ہیں ویسے ہی ہوگا، اور ویسا ہی ہوا۔
تاہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس بات کا افسوس رہا کہ اگر میری معرض وجود میں آجاتی تو بہت مفید ثابت ہوتی لیکن قدرت کا منشا یہی تھا کہ اس قسم کی تحریر سپرد کاغذ اورقلم نہ ہی تو اچھا ہے، کیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی تحریر لکھوا دیتے اور امت اس پر عمل نہ کرتی تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوتا، اب جب کوئی تحریر سامنے موجود ہی نہیں تو فقط کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونا ہی انسانی نجات کا سبب ہوگا۔

قصہ نمبر 29 :
محدث زمان کا حیرت انگیز حافظہ
——————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ایک دن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے بہت سی باتیں سن کر بھول جاتا ہوں ( کیا کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسے ہی اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور فرمایا اس کو سینے سے لگا لو، میں نے سینہ سے لگا لیا، اس روز کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہیں بھولا۔ [ بخاري شريف : 119، 3448 ]
فائدہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عطاء کردہ کیمیائی نسخہ کا فائدہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اتنا اٹھایا کہ دور صحابہ میں ایک ’’حافظ الحدیث‘‘ کی حیثیت سے متعارف ہوئے، قدرت نے اس واقعے کے بعد ان کا حافظہ اتنا قوی اور مضبوط کر دیا تھا کہ ایک مرتبہ مروان نے انہیں بلایا، احادیث سنانے کی فرمائش کی، پردہ کے پیچھے کاتب کو لکھنے کیلئے بٹھا دیا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث سنا کر جانے لگے تو تحائف و ہدایا دیکر رخصت کیا، ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد دوبارہ بلایا، کاتب کو پردہ کے پیچھے چھپایا، احادیث سابقہ کو دہرانے کی فرمائش کی، کاتب انگشت بدنداں تھا، پورا دربار حیران تھا کہ الہٰی! کیا حافظہ ہے کہ گزشتہ سال جو احادیث سنائی تھیں، کسی زبرزیر در نقطے کے فرق کے بغیر بعینہ اسی طرح سنادیں۔

قصہ نمبر 30 :
حضرت موسی علیہ السلام کا ایک سفر
——————
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر والے) موسی، بنی اسرائیل کے موسی نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسی ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ بولے دشمن خدا جھوٹ بولتا ہے، مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر کررہے تھے، تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسی علیہ السلام بولے میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ خدا تعالیٰ کی یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسی علیہ السلام نے علم کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا لہذا حضرت موسی علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں رہتا ہے وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملا قات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کوچل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہ شخص وہیں ملے گا۔
حسب الامر موسیٰ چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے اور دونوں نے مچھلی ایک زنبیل میں رکھ لی، چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے، اتنے میں مچھلی زنبیل سے چھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی۔ اس سے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے خادم کو بڑا تعجب ہوا۔ ( لیکن موسی یہ نہ سمجھے کہ یہ وہی بھنی ہوئی مچھلی ہے جو زنبیل میں تھی ) خیر! (صبح کو اٹھ کر) پھر چل دیئے اور ایک شبانہ روز مزید سفر کیا (تیسرے روز ) جب صبح ہوئی تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ، اورموسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے، بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے، خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا ) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔
پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا، موسیٰ نے سلام علیک کی، خظر بولے تمہارے ملک میں سلام علیک کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں ! خظر بولے کیا بنی اسرائیل والے، موسیٰ نے کہا جی ہاں ! اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالی نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دی%

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: