قصہ نمبر 11 :
کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ
——————
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نجدی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے (اور وہ اس طرح بول رہا تھا) کہ ہمیں اس کی آواز تو سنائی دیتی لیکن بات سمجھ میں نہ آتی تھی، جب وہ قریب آ گیا تو معلوم ہوا کہ اسلام کے معنی دریافت کر رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تھا کہ شبانہ روز میں پانچ نمازیں ہیں، نجدی نے عرض کیا کیا مجھ پر اس سے کوئی اور زائد نماز بھی فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہاں اگر تو نفل پڑھے تو بہت اچھا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے روزے بھی ہیں۔ نجدی بولا کہ ان روزوں کے علاوہ مجھ پر کوئی اور روزہ تو فرض نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہے ؟ ہاں اگر تو نفل روزے رکھے تو بہت اچھا ہے، اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوۃ کا تذکرہ فرمایا۔ نجدی نے عرض کیا زکوۃ کے علاوہ میرے ذمہ کچھ اور دینا تو نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہے ! ہاں اگر بطور نفل کے دے تو بہت اچھا، یہ سننے کے بعد نجدی یہ آواز الفاظ کہتا ہوا واپس ہوا کہ خدا کی قسم ! میں اس میں کمی و بیشی کچھ نہ کروں گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ شخص سچا ہے تو کامیاب ہوگیا۔ [صحیح بخاری :46، 792، 2532، 6556 ]
فائدہ :
اس واقعے میں صرف نماز، روزہ اور زکوۃ کے تذکرے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ارکان اسلام بس یہی ہیں، یہاں تو اصل مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اسلام میں مالی اور بدنی دونوں طرح کی عبادات کا تصور موجود ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں باقی تعلیمات کا علم اسلام لانے کے بعد انسان کو بقدر ضرورت حاصل ہو ہی جاتا ہے۔
اور پھر دوسری بات یہ ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان بنانے کے لیے لمبی چوڑی فلسفیانہ گفتگو کا مضر ہونا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اس قسم کے مواقع پر تو اسلام کو ہر ممکن طریقے سے آسان کرکے پیش کرنا چاہئیے تاکہ دوسرا شخص اسے فورا قبول کرلے۔
قصہ نمبر 12
لڑائی لڑائی جھگڑے سے علم کی محرومی
——————
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک شب )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی خبر بیان کرنے کے لئے (مکان سے ) برآمد ہوئے لیکن دو مسلمان باہم کچھ جھگڑا کر رہے تھے، یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم کو شب قدر کی کچھ اطلاع دینے نکلا تھا لیکن چونکہ فلاں فلاں آدمی جھگڑا کر رہے تھے اس لئے شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا ( یعنی شب قدر نا معلوم ہوگئی اور یاد نہیں رہا کہ کس تاریخ کو ہے ) اور شاید یہ تمہارے لیے بہتر ہے، لہذا ستائیسویں انتسویں اور پچیسویں کو اس کی جستجو کیا کرو۔ [صحیح بخاری : 49، 1919، 5702]
فائدہ :
اس واقعے سے لڑائی جھگڑے اور باہمی فتنہ فساد کا نقصان واضح ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کی نحوست سے انسان علم کے بہت بڑے حصے سے محروم ہو جاتا ہے جس پر سوائے پچھتانے کے انسان کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ مشہور ہے۔
قدر نعمت بعد از زوال
یہاں اس بات کا ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ عوام کی اکثریت شب قدر ستائیسویں شب رمضان کو سمجھتی ہے حالانکہ شب قدر کا ستائیسویں شب رمضان میں ہونا کوئی یقینی بات نہیں البتہ امکان ضرور ہے لیکن یہ امکان صرف اس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عشرہ اخیر کی ہر طاق رات میں یہ احتمال اور امکان موجود ہے اس لیے اس پر اصرار کرنا بھی صحیح نہیں۔
قصہ نمبر13 :
چار حکم اور چار ممانعتیں
——————
حضرت ابو جمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر بیٹھتا تھا تو وہ مجھ کو اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے، ایک مرتبہ میں ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میرے پاس قیام کرو میں تم کو اپنے مال میں سے کچھ دوں گا، چنانچہ دو ماہ تک میں نے اس کے پاس قیام پذیر رہا۔
( ایک روز) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ خاندان عبد القیس کے کچھ نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے جواب دیا ہم بنی ربیعہ میں سے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش آمدید نہ تم ذلیل ہو اور نہ شرمندہ ہو، انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم ! ہم کو سوائے ماہ حرام کے اور زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ نہیں ملتا کیونکہ ہمارے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان قبائل مضر کے یہ کفار حائل ہیں لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں کوئی حکم فیصل سنا دیں تاکہ ہم پیچھے رہ جانے والوں کو وہ حکم سنا دیں اور اس کی وجہ سے ہم سب جنت میں داخل ہو سکیں، اس کے بعد ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے برتنوں کا حکم دریافت کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں سے منع فرمایا اور چار باتوں کے کرنے کا حکم دیا (اول )خدائے واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا اور فرمایا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانے کے کیا معنی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوب واقف ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ لااله الله محمد الرسول الله کی شہادت دی جائے، اس کے بعد باقاعدہ نمازاداکرنے، زکوۃ دینے، رمضان کے روزے رکھنے اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا حکم دیا، اور جن چیزوں کے استعمال سے ممانعت فرمائی وہ یہ ہیں
➊ لاکھی برتن
➋ کدو کا تانبا
➌ چوبی برتن
➍ روغنی رال والا برتن
اس کے بعد فرمایا ان کو یاد کر لو اور پیچھے رہ جانے والوں کو اس کی اطلاع کردو۔
[صحیح بخاری : 53، 78، 500، 1334، 2928، 3319، 4110، 4111، 5822، 6838، 7117]
فائدہ :
یاد رہے کہ یہ اس حدیث میں جن چار چیزوں کی ممانعت وارد ہوئی ہے ان کا تعلق ظروف اور برتنوں سے ہے جو کہ زمانہ جاہلیت میں اہل شراب پینے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ برتنوں کے استعمال کی ممانعت شراب کی مزید نفرت واضح اور دلوں میں جمانے کیلئے تھی ورنہ برتن کی ذات میں حرمت کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی شریعت نے اس کی تعلیم دی ہے۔
قصہ نمبر 14 :
ہر مسلمان کا بہی خواہ
——————
حضرت زیادہ بن علاقہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس روز حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، اس روز حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے، پہلے خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا لوگو ! خدائے وحد ہ لاشریک سے ڈرتے رہو اور سکون و اطمینان کو اختیار کرو (فتنہ و فساد نہ کرو ) تاوقتیکہ تمہارا (نیا) حاکم آجائے کیونکہ وہ عنقریب آنے والا ہے اور سابق حاکم (یعنی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ) کے لئے خدا سے دعائے مغفرت کرو کیونکہ عفو اس کو دل سے پسند تھا۔
اس کے بعد فرمایا ایک روز میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کہ عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں آپ نے مجھ سے اس شرط پر بیعت لی کہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا چنانچہ میں نے اس شرط پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، اس مسجد کے رب کی قسم ! میں تمہارا بہی خواہ ہوں، آخر میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ استغفار کرتے ہوئے منبر سے اتر آئے۔
[صحیح بخاری : 58، 501، 1336، 2049، 2565، 2566، 2778]
فائدہ :
اس واقعے کا مرکزی موضوع ”مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی“ ہے جسے ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا گیا کہ دین تو نام ہی سراسر خیر خواہی کا ہے خواہ انسانوں کے ساتھ ہو یا جانوروں کے ساتھ، نباتات کے ساتھ ہو یا جمادات کے ساتھ، مخلوقات خداوندی میں سے ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی انسان کو بڑے اونچے مقام پر فائز کرتی ہے۔
قصہ نمبر 15 :
جب امانت ضائع ہونے لگے تو؟
——————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں (ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیان فرمارہے تھے، اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک اعرابی حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قیامت کب ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدستور حدیث بیان فرماتے رہے (اس کی طرف توجہ نہ فرمائی) اس پر کسی نے تو کہا کہ آپ نے سنا ہی نہیں ہے، آخر کار جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حدیث بیان فرما چکے تو ارشاد فرمایا، قیامت کو دریافت کرنے والا کہاں ہے ؟ اعرابی بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں ! آپ نے فرمایا جس وقت امانت ضائع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو، اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امانت کا ضائع ہونا کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جب نالائقوں کو حکومت سپرد کر دی جائے تو اس وقت قیامت کے منتظر ہو جانا۔ [صحیح بخاری :59، 6131 ]
فائدہ:
اس واقعے سے منجملہ اور باتوں کے ایک چیز یہ بھی ثابت ہوئی کہ اگر کوئی عالم، امام یا خطیب تقریر اور وعظ کر رہے ہوں تو در میان وعظ کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے ایک کاغذ پرتحریر کر کے ان تک پہنچادے، وہ خود ہی مناسب موقع دیکھ کر جواب دیں گے بصورت دیگر تقریر اور سبق کی روانی بھی ختم ہو جاتی ہے اور سلسلہ کلام بھی منقطع ہو جاتا ہے اب اگر متکلم سلسلہ کلام کو جاری رکھے تو اس پر فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں کہ بڑے مغرور ہیں، متکبر ہیں، بات ہی نہیں سنتے، ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کو مذکورہ حدیث کی روشنی میں قابل اعتراض سمجھنا گویا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنا ہے جو کہ یقیناً ایک مسلمان شخص نہیں کرسکتا۔
قصہ نمبر 16 :
ایڑیوں کا خشک رہ جانا باعث گرفت
——————
حضرت عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ہم سے پیچھے رہ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں) نماز میں تاخیر کر دی ہے، خیر ! ہم وضو کرنے لگے اور (جلدی میں) پاؤں کو چپڑنا شروع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ فرمایا (اگر خشک رہ گئیں تو) ایڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہوگا۔ [صحیح بخاری :60، 96، 161 ]
فائدہ:
وضو میں پاؤں کو دھونا چونکہ فرض ہے اور ایڑیاں خشک رہ جانے سے اس فرض کی تکمیل نہ ہوگی جو کہ وضو کامل نہ ہونے کی دلیل ہے اور وضو نہ ہونے کی صورت میں نماز کا صحیح ہو جانا وہم تو ہو سکتا ہے۔ حقیقت کبھی نہیں اس لئے ایڑیوں کو خاص طور پر اہتمام کے ساتھ دھونا چاہئے۔
قصہ نمبر 17 :
ایک بدوی کاحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ
——————
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار آیا، آ کر مسجد میں اونٹ بٹھایا اور (اتر کر) اونٹنی کو رسی سے باندھا، پھر پوچھنے لگا تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے درمیان میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے جواب دیا کہ یہ گورے آدمی تکیه لگائے ہوئے جو بیٹھے ہیں یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا اے عبدالمطلب کے بیٹے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں سن رہا ہوں (مدعا کہو ) اس شخص نے کہا میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور پوچھنے میں ذرا سختی سے کام لوں گا، آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چاہتے ہو دریافت کرو، وہ بولا میں آپ کے اور گزشتہ لوگوں کے پروردگار کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کیا خدا نے آپ کو سب لوگوں کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں خدا کی قسم (سب کے لئے اس نے مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے) وہ بولا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا خدا نے آپ کو شبانہ روز میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! خدا کی قسم، وہ بولا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں بتائیے کہ کیا خدا نے آپ کو ہر سال ماه رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! خدا کی قسم، وہ بولا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں بتائیے کہ کیا خدا نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال داروں سے زکوۃ وصول کر کے غرباء میں تقسیم کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں خدا کی قسم ! یہ سن کر وہ شخص بولا آپ جو کچھ (خدا کی طرف ) سے لائے ہیں میں سب پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کا نمائندہ ہوں، میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ [صحیح بخاری :63]
فائده :
اس حدیث کی وضاحت بخاری شریف کی اگلی حدیث ہی سے ہوتی ہے، جس میں اس واقعے کی مزید تفصیل وارد ہوئی ہے، افادہ عام کیلئے ہدیہ قارئین ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (چونکہ ) رسول اللہ سے بکثرت سوال کرنے سے ہم کو قرآن میں ممانعت کر دی گئی تھی، اس لئے ہم دل سے خواہش مند ہوتے تھے کہ کوئی عقل مند بدوی آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مسئلہ دریافت کرے اور ہم سنیں چنانچہ (ایک مرتبہ ) بدوی نے حاضر ہو کر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عرض کیا کہ آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا اور کہتا تھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ خدا نے مجھ کو پیغمبر بنایا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ٹھیک کہتا تھا، بدوی بولا زمینوں اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ نے فرمایا خدا نے، بدوی بولا آپ کو قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، پہاڑوں کو قائم کیا اور ان میں مفید اشیاء پیدا کیں (یہ بتایئے کہ ) کیا خدا تعالی نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! بدوی بولا آپ کا قاصد کہتا تھا کہ ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں اور ہمارے مالوں میں زکوة ضروری ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا، بدوی بولا آپ کو اس خدا کی قسم ! جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے (یہ بتائیے ) کیا آپ کو خدا نے اس کا حکم دیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! بدوی بولا آپ کے قاصد نے کہا تھا کہ ہم پر سال میں ایک ماہ کے روزے فرض ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا، بدوی بولا آپ کو اس خدا کی قسم ! جس نے آپ کو پیغمبر بنایا ہے (یہ بتایئے کہ ) کیا آپ کو خدا نے اس کا حکم دیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! بدوی بولا آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم میں سے صاحب استطاعت پر کعبہ کا حج فرض ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے یہ سچ کہا بدوی بولا آپ کو اس خدا کی قسم ! جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے (بتایئے) کیا آپ کو خداتعالی نے اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! آخر کار وہ بدو کہنے لگا کہ اس خدا کی قسم ! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو جنت میں داخل ہوگیا۔
قصہ نمبر 18 :
وعظ ونصیحت کا دورانیہ
——————
حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ فرمایا کرتے تھے، ایک شخص نے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمن ( ابن مسعود کی کنیت ہے ) میں چاہتا ہوں کہ آپ روزانہ ہم کو وعظ سنایا کریں، حضرت عبداللہ نے فرمایا میں تم کو تنگ دل کرنا نہیں چاہتا، اسی طرح کبھی کبھی وعظ سناتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو کبھی کبھی وعظ سنایا کرتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا لحاظ رہتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔ [صحیح بخاری :70، 67، 6048 ]
فائدہ:
اس واقعہ سے ہفتہ وار درس کا ثبوت متحقق ہو جاتا ہے کہ اس میں متکلم کیلئے بھی آسانی ہوتی ہے اور سامعین بھی نہیں اکتاتے، اگر درس کا سلسلہ یومیہ ہوتو وہ دیر پا نہیں ہوتا۔
قصہ نمبر 19 :
دین الہی کب تک رہے گا ؟
——————
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران تقریر فرمایا تھا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے کہ خدا تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عنایت کرتا ہے، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، اصل دینے والا خدا ہے، یہ امت دین الہی پر ہمیشہ قائم رہے گی، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ [صحیح بخاری : 71، 2948، 3442، 6882، 7022 ]
فائده:
دین خداوندی کا قیام حکم خداوندی تک ہے، جب اراده خداوندی اس دنیا کو فنا کرنے کا ہوگا تو ایک ٹھنڈی خوشبودار ہوا چلے گی جو ہر مسلمان مرد و عورت کی روح قبض کرلے گی اور دنیا میں کفارو اشرار کے علاوہ کوئی باقی نہ رہے گا اور انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔
قصہ نمبر 20 :
مسلمان کی مثال
——————
حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ تک شریک سفر رہا (اثناء راہ میں ) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے صرف ایک حدیث بیان کی اور کوئی حدیث بیان نہیں کی، وہ یہ کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں کھجور کا کچھ گودا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کی پتیاں نہیں جھڑتی ہیں یہی مثال مسلمان کی ہے میرا خیال ہوا کہ کہہ دوں کہ کھجور کا درخت ہے لیکن چونکہ میں سب سے چھوٹا تھا اس لئے خاموش رہا لیکن اخیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ درخت کھجور کا ہے۔
فائده:
اس واقعے کی تفصیل بعض دوسری روایات میں اس طرح وارد ہوئی ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان نے یہ واقعہ اپنے والد گرامی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہارے خاموش رہنے سے جواب دینا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ تھا کیونکہ اگر تمہاری رائے صحیح ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق فرما دیتے ورنہ تمہاری اصلاح فرما دیتے، تاہم اس واقعے سے ”ادب“ معلوم ہوگیا کہ بڑوں کے سامنے اپنی علمیت نہیں جتانی چاہئے۔