پینے کے آداب: دائیں ہاتھ سے، بیٹھ کر، تین سانس میں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

پینے کے آداب یہ ہیں کہ تین سانس لیے جائیں اور دائیں ہاتھ سے اور بیٹھ کر پیا جائے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يتنفس فى الإناء ثلاثا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم برتن میں تین سانس لیتے تھے ۔“
[بخارى: 5631 ، كتاب الأشربة: باب الشرب بنفسين أو ثلاثة ، مسلم: 2028 ، ترمذي: 1884 ، ابو داود: 3727]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أنه كان يتنفس فى الشراب ثلاثا ويقول أنه أروى و أمرأ
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پینے کی چیز میں تین سانس لیتے تھے اور فرماتے تھے: یہ زیادہ سیراب کرنے والا ہے اور آرام سے گلے سے اترنے والا ہے ۔“
[مسلم: 2028 ، كتاب الأشربة: باب كراهة التنفس فى نفس الإناء]
واضح رہے کہ سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دوسری مرتبہ پینے کے لیے برتن سے باہر سانس لیتے تھے ۔
➊ حضرت عمر بن أبی سلمہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا:
كل بيمينك
”اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ ۔“
[بخاري: 5376 ، كتاب الأطعمة: باب التسمية على الطعام والأكل باليمين ، مسلم: 2022]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ ہی اس سے پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے ۔“
[مسلم: 2020 ، كتاب الأشربة: باب أداب الطعام والشراب وأحكامهما ، ابو داود: 3776 ، ترمذي: 1800]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
لا يشربن أحدكم قائماً، فمن نسي فليستقئ
”تم میں سے کوئی بھی کھڑا ہو کر نہ پیے اور جو بھول جائے وہ قے کر دے ۔“
[مسلم: 2026 ، كتاب الأشرية: باب كراهية الشرب قائما]
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے ۔
[مسلم: 2024 ، احمد: 32/3 ، ترمذي: 1879 ، ابو داود: 3717 ، ابن ماجة: 3424]
درج ذیل احادیث گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہیں:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
شرب النبى صلى الله عليه وسلم قـائـمـا من زمزم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زم زم کا پانی کھڑے ہو کر پیا ۔“
[بخاري: 5617 ، كتاب الأشربة: باب الشرب قائما ، مسلم: 2027 ، ترمذي: 1882 ، نسائي: 2964]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا :
إن ناسا يكرهون الشرب قائما وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت
”بلاشبہ لوگ کھڑے ہو کر پینا ناپسند کرتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی مثل کیا ہے جو میں نے کیا ۔“
[بخاري: 0616 ، ابو داود: 3718 ، نسائي: 130]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چلتے ہوئے کھا لیا کرتے تھے اور کھڑے ہو کر پی لیا کرتے تھے ۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2670 ، كتاب الأطعمة: باب الأكل قائما ، ابن ماجة: 3301 ، ترمذي: 1880]
➍ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی کھڑے ہو کر پینا ثابت ہے ۔
[فتح البارى: 215/11]
تطبیق:
ان بظاہر متعارض احادیث میں مختلف طریقوں سے تطبیق دی گئی ہے ۔
➊ جواز کی احادیث کو ممانعت کی احادیث پر ترجیح دی جائے گی ۔ یہ ابو بکر أثرم کا قول ہے ۔
➋ ممانعت کی احادیث جواز کی احادیث سے منسوخ ہو چکی ہیں ۔ یہ ابن شاہین کا قول ہے ۔
➌ جواز کی احادیث ممانعت کی احادیث سے منسوخ ہو چکی ہیں۔ یہ امام ابن حزمؒ کا قول ہے ۔
➍ ممانعت کی احادیث حرمت پر نہیں بلکہ کراہت پر دلالت کرتی ہیں اور جواز کی احادیث اِس بات (یعنی کراہت پر محمول کرنے ) کا ثبوت مہیا کرتی ہیں ۔ یہ حافظ ابن حجرؒ کا قول ہے ۔
(راجح) حافظ ابن حجرؒ کا قول راجح و برحق ہے (یعنی کھڑے ہو کر پینا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے اور اگر کوئی کھڑے ہو کر پی لے تو اسے کوئی گناہ نہیں ہو گا ) ۔
[نيل الأوطار: 278/5 ، فتح البارى: 216/11]
اور دوسروں کو دیتے وقت دائیں طرف والوں کو مقدم رکھا جائے اور پلانے والا آخر میں پیے
➊ حضرت انس بن مالکؒ سے روایت ہے کہ :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى بلبن قد شيب بماء وعن يمينه أعرابي وعن شماله أبو بكر فشرب ثم أعطى الأعرابي وقال: الأيمن الأيمن
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی ملا ہوا دودھ پیش کیا گیا ۔ آپ کے دائیں جانب ایک دیہاتی تھا اور بائیں جانب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی کر باقی دیہاتی کو دیا اور فرمایا: دائیں طرف سے پس دائیں طرف سے ۔“
[بخارى: 5619 ، كتاب الأشربة: باب الأيمن فالأيمن فى الشرب ، مسلم: 2029 ، مؤطا: 926/2 ، ترمذي: 1893 ، ابو داود: 3726 ، ابن ماجة: 3425]
➋ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رسول الله أتى بشراب فشرب منه وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ فقال للغلام: أتا ذن لي أن أعطى هؤلاء فقال الغلام: والله يا رسول الله لا أوثر بنصيبي منك أحدا قال فتله رسول الله فى يده
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شربت لایا گیا ۔ آپ نے اس سے پیا ، آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور بائیں طرف بوڑھے لوگ (حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے لوگ بیٹھے ہوئے ) تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے بچے سے کہا کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں ان شیوخ کو پہلے دے دوں ۔ لڑکے نے کہا اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! آپ کے جوٹھے میں سے ملنے والے اپنے حصہ کے معاملہ میں میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا ۔“
[بخاري: 5620 ، كتاب الأشربة: باب هل يستاذن الرجل من عن يمينه فى الشرب ليعطي الأكبر ، مسلم: 2030]
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ساقي القوم آخرهم شربا
”لوگوں کو پانی پلانے والا آخر میں خود پیے گا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2771 , كتاب الأشربة: باب ساقي القوم آخرهم شربا ، ابن ماجة: 3434 ِ، ترمذي: 1894 ، أحمد: 303/5 ، دارمي: 122/2 ، نسائى فى السنن الكبرى: 194/4]
(شوکانیؒ ) اس حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امیر المومنین پر واجب ہے کہ عوام کی اصلاح اور فلاح و بہبود کو خود پر مقدم رکھے ، انہیں نفع پہنچانا ، ان سے نقصان دور کرنا ، ان کے چھوٹے اور بڑے معاملات کی نگہبانی کرنا اور ان کی مصلحت کو اپنی مصلحت پر مقدم رکھنا لازمی تصور کرے ۔
[نيل الأوطار: 283/5]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے