شفعہ: فقہا کی مقرر کردہ شرائط پر پڑوسی کی جائیداد کو جبرا ملکیت میں لینے کا حق۔
367- پڑوس کی وجہ سے حق شفعہ
پڑوس کی وجہ سے حق شفعہ کے جواز کے متعلق علما کے تین اقوال ہیں:
پہلا قول: شفعہ مطلقاً جائز نہیں۔ یہ اہل مدینہ کا قول ہے۔ ان کی دلیل، اس کے متعلق وارد ہونے والی احادیث ہیں، جیسے: ”حق شفعہ غیر تقسیم شدہ (جائیداد) میں ہے، جب حدود متعین ہو جائیں اور راستے بنا دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2213]
اس کے علاوہ اس مسئلے کے متعلق دیگر احادیث ہیں۔
دوسرا قول: ہمسائے کے لیے حق شفعہ کا مطلقاً اثبات ؛ خواہ حقوق اور راستے متعین ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا موقف ہے۔ کچھ شوافع اور بعض حنابلہ کا بھی یہی قول ہے۔ ان کی دلیل حضرت ابور افع کی حدیث ہے کہ ”پڑوسی شفعہ کا زیادہ حق رکھتا ہے۔“ [سنن الطبراني، رقم الحديث 6941 صحيح الجامع، رقم الحديث 3088]
تیسرا قول: اس قول میں تفصیل اور دونوں اقوال کے دلائل کے درمیان مطابقت پیدا کی گئی ہے اور وہ اس طرح ہے کہ اگر حقوق املاک میں کوئی مشترک حق ہو، جیسے: راستہ، پانی یا پانی کی گزرگاہ وغیرہ میں اشتراک تو اس میں پڑوسی کے لیے حق شفعہ ہے۔ یہاں ان کو ایک دوسرے کی زمین کے ساتھ ملی ہوئی زمینوں میں مذکور اشتراک کی بنا پر کوئی فرق نہیں۔ یہ اہل بصرہ اور ان کے ساتھ موافقت رکھنے والوں کا قول ہے اور یہی صحیح قول ہے جس کے ذریعے سے دلائل کے درمیان مطابقت ہو سکتی ہے۔ یہ ابو طالب کی روایت سے امام احمد سے صریح عبارت کے ساتھ منقول ہے۔ امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے۔
نیز یہ قیاس کے مطابق بھی ہے کیونکہ شفعہ کا قانون ضرر دور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور ضرر عموماًً یا تو مملوکہ چیز کے ساتھ ملنے کی وجہ سے، یا ایسی چیز کی وجہ سے، جس کا تعلق اس کے مصالح، فوائد یا راستے وغیرہ کے ساتھ ہو، پایا جا تا ہے۔ واللہ اعلم
[عبدالله بن عقيل: فتاوي: 283]