پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور حقیقی مسائل کا جائزہ
تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

اقلیتیوں کے حقوق: حقیقت یا الزامات؟

اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں اکثر شکایت کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ لوگ مختلف مثالیں پیش کرتے ہیں کہ فلاں اقلیتی برادری کے اتنے لوگ پاکستان چھوڑ گئے یا کسی قادیانی یا مسیحی کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آیا تو فوری طور پر ایک منظم مہم شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا واقعی اقلیتیوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے یا یہ محض الزامات ہیں؟

اقلیتوں کے ساتھ حقیقی مسائل

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اقلیتی برادریوں کے ساتھ جو مسائل بیان کیے جاتے ہیں، کیا وہ واقعی انہی کے ساتھ مخصوص ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کمزور طبقہ ہمیشہ استحصال کا شکار ہوتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ ہمارے نظام میں طاقتور افراد کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جبکہ کمزور افراد کو دبایا جاتا ہے۔

پولیس کے ہاتھوں زیادتی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ تھانے اور کچہریاں ظلم کا مرکز بن چکی ہیں جہاں مسلمان، مسیحی، ہندو سبھی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی عام پارسی یا مسیحی پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اسی طرح ظلم کا شکار ہوگا جس طرح کوئی مسلمان۔ اس مسئلے کی جڑ ہمارے نظام میں ہے جو کمزور کے ساتھ ظلم کرتا ہے اور طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔

دہشت گردی کا مسئلہ

ہوسکتا ہے کہ کسی احمدی یا غیر مسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے، لیکن اس میں عوام کا کوئی قصور نہیں ہے۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں تو خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ نشانہ شیعہ برادری بنی ہے۔ مذہبی حلقوں سے وابستہ کئی افراد جیسے کہ مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا یوسف لدھیانوی بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں آپریشن ضرب عضب جیسے کامیاب اقدامات شامل ہیں۔

توہین رسالت قانون کا غلط استعمال

غیر مسلموں کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات درج ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسے ہر صورت روکا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس قانون کا سب سے زیادہ نشانہ خود مسلمان بن رہے ہیں۔ غیر مسلموں کے مقابلے میں زیادہ تر مقدمات مسلمانوں کے خلاف درج ہوئے ہیں۔ دینی حلقے اس قانون کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہمیشہ تیار ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس حوالے سے پیشکش کر چکی ہے۔ مگر جو لوگ سالوں سے سزائیں کاٹ رہے ہیں، ان پر بھی عمل درآمد ہونا چاہیے۔

عوامی تعصب اور معاشرتی رویے

ہمارے ہاں صفائی کرنے والے طبقے کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے، جس میں زیادہ تر مسیحی شامل ہیں۔ لیکن اس کی وجہ محض ان کا مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک معاشرتی تعصب ہے جو ہمارے ہاں موجود ہے۔ مثال کے طور پر بہاولپور میں مسلمان خاکروب طبقہ بھی اسی تعصب کا شکار ہے۔ اس قسم کے تعصبات کو ختم کرنے میں وقت لگتا ہے اور یہ ہمارے معاشرتی رویے تبدیل کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔

احمدیوں کے خلاف تعصب

قادیانیوں کے حوالے سے عوامی ناپسندیدگی ایک حقیقت ہے، مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آئینی ترمیم کو قبول نہیں کیا۔ اگر وہ خود کو ایک غیر مسلم کمیونٹی کے طور پر تسلیم کرلیں تو عوامی تعصب کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔ البتہ ریاست کو ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے اور انہیں وہی حقوق دیے جانے چاہئیں جو دوسری اقلیتوں کو حاصل ہیں۔

سکھ اور ہندو برادری کی صورتحال

سکھ برادری کو پاکستانی ریاست سے کوئی خاص شکایت نہیں ہے، حالانکہ تاریخی طور پر تقسیم کے وقت سکھوں کے مظالم کی کہانیاں بھی موجود ہیں۔ ننکانہ صاحب میں سکھ برادری پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہے۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے کے واقعات میں بھی زیادہ تر مبالغہ ہوتا ہے۔ عدالتوں میں اکثر لڑکیاں خود بیان دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

ہجرت اور ملک چھوڑنے کی وجوہات

یہ کہنا کہ اقلیتیں پاکستان چھوڑ رہی ہیں، مکمل حقیقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں لاکھوں مسلمان بھی ملک چھوڑ چکے ہیں، کیونکہ جب نظام بگڑا ہوا ہو اور ترقی کے مواقع محدود ہوں، تو ہر کوئی بہتر زندگی کی تلاش میں بیرون ملک جانا چاہے گا۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی پروفیشنلز اور دوسرے شعبوں کے لوگ بھی ملک چھوڑ رہے ہیں، جسے اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کا ثبوت نہیں کہا جا سکتا۔

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں اسلامی قوانین کی پاسداری ہونی چاہیے۔ ہم اسلام کے اصولوں کے نفاذ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں، وہ بصد شوق رہیں اور اس کی ترقی میں حصہ لیں۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں شراب، بار، اور کیبرے کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے یہاں رہنا مشکل ہے، تو وہ شخص باآسانی ملک چھوڑ سکتا ہے۔

نتیجہ

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے تاکہ اقلیتوں اور اکثریت دونوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ جو مسائل ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، وہ صرف اقلیتوں تک محدود نہیں بلکہ ہر اس شخص کو متاثر کرتے ہیں جو کمزور ہے۔ اسلامی اصولوں کے تحت ہمیں ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہر شہری کو برابری کے حقوق مل سکیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے