پانی کے ناپاک ہونے اور پاک کرنے کے اسلامی اصول
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 35-36

سوال

پانی کس طرح ناپاک ہوتا ہے؟ اور اس کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ کیا ابتدائے اسلام سے خلافتِ راشدہ کے دوران کنوئیں موجود تھے؟ اگر جانور یا دیگر چیزیں جیسے چوہا، چڑیا، بلی یا کتا ان میں گر جاتے تھے تو پانی کو کس طرح پاک کیا جاتا تھا؟ اور اگر میلا کپڑا کنویں میں گرتا تو کیا طریقہ اختیار کیا جاتا؟

جواب

پانی کے ناپاک ہونے کا اصول:

پانی اپنی پاکی برقرار رکھتا ہے جب تک اس میں کوئی ناپاک چیز اتنی مقدار میں شامل نہ ہو کہ اس کی:

  • بو (Smell)
  • رنگ (Color)
  • ذائقہ (Taste)

بدل جائے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک وصف ناپاک چیز کی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔

ابتدائے اسلام اور خلافتِ راشدہ کے دور میں کنوؤں کی حالت:

  • اس دور میں کنوئیں موجود تھے اور وہ عمومی طور پر آب نوشی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
  • اگر کنوئیں میں جانور گرتے، جیسے چوہا یا بلی، تو پانی کو اس وقت تک ناپاک نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ اس کا کوئی وصف (بو، رنگ، ذائقہ) تبدیل نہ ہو۔
  • یہ حکم احادیث اور اسلامی شریعت سے ثابت ہے۔

احادیث اور اجماعِ علمائے اسلام:

علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ پانی چاہے کم ہو یا زیادہ، جب تک ناپاک چیز اس کے کسی وصف کو تبدیل نہ کرے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔

"اجمع العلماء علٰی ان لاماء القلیل والکثیر اذا وقعت فیہ نجاسة فغیرت لہ طعما او لونا او ریحا فھو نجس”

(سبل الاسلام)
ترجمہ: "علمائے کرام کا اجماع ہے کہ پانی، چاہے کم ہو یا زیادہ، اگر اس میں ناپاکی گرے اور اس کا ذائقہ، رنگ یا بو بدل دے، تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔”

دو قلہ پانی کی حد:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے:

"اذا کان الماء قلتین لم یحمل الخبث وفی لفظ لم ینجس”

(سننِ اربعہ، ابن خزیمہ نے تصحیح کی)
ترجمہ: "جب پانی دو قلہ ہو تو وہ ناپاکی کو نہیں اٹھاتا، اور نہ ہی ناپاک ہوتا ہے جب تک اس کا رنگ، مزہ یا بو نہ بدلے۔”

  • دو قلوں کا اندازہ تقریباً 10-12 عربی مشکیزوں کے پانی کے برابر ہے۔

کنوئیں کے پانی کی پاکی:

  • کنواں کتا گرنے یا کسی اور جانور کے گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا رنگ، بو، یا ذائقہ تبدیل نہ ہو۔
  • اسی اصول پر خلافتِ راشدہ اور اس کے بعد بھی عمل ہوتا رہا۔

خلاصہ:

پانی تب تک پاک رہتا ہے جب تک اس میں گرنے والی ناپاک چیز اس کے تین اوصاف (رنگ، بو، ذائقہ) میں سے کسی ایک کو تبدیل نہ کرے۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں کنوؤں کو انہی اصولوں کے تحت پاک اور ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ "دو قلہ” پانی یا اس سے زیادہ کی مقدار کو ناپاک ہونے کے لیے کسی وصف کی تبدیلی شرط ہے۔

حوالہ: فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 384-385، سبل الاسلام

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے