پانی کی خرید و فروخت
اس میں تفصیل ہے، اگر کوئی آدمی پانی اپنے کسی برتن یا تالاب میں جمع کرے تو وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لیے اسے بیچناجائز ہوگا کیونکہ اس نے اسے ا کٹھا کیا اور اس پر قبضہ کیا ہے اور اس کام میں اس نے کافی مشقت اٹھائی ہے، لہٰذا یہ اس کی ملکیت میں چلا جائے گا، لیکن اگر پانی کنویں میں یا نہر میں یا کسی ایسی گزر گاہ آب میں باقی رہے جو اس کی ملکیت میں بہتی ہو تو اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح موقف یہ ہے کہ اس کے لیے ایسے پانی کی فروخت جائز نہیں، لیکن دوسروں کی نسبت اس کا اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ استحقاق ہے، تاہم اس کو دوسروں کو اس سے اس انداز میں فائدہ اٹھانے سے منع کرنے کا حق حاصل نہیں جس سے کسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد از ضرورت پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
[الفوزان: المنتقى: 2]
اس میں تفصیل ہے، اگر کوئی آدمی پانی اپنے کسی برتن یا تالاب میں جمع کرے تو وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لیے اسے بیچناجائز ہوگا کیونکہ اس نے اسے ا کٹھا کیا اور اس پر قبضہ کیا ہے اور اس کام میں اس نے کافی مشقت اٹھائی ہے، لہٰذا یہ اس کی ملکیت میں چلا جائے گا، لیکن اگر پانی کنویں میں یا نہر میں یا کسی ایسی گزر گاہ آب میں باقی رہے جو اس کی ملکیت میں بہتی ہو تو اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح موقف یہ ہے کہ اس کے لیے ایسے پانی کی فروخت جائز نہیں، لیکن دوسروں کی نسبت اس کا اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ استحقاق ہے، تاہم اس کو دوسروں کو اس سے اس انداز میں فائدہ اٹھانے سے منع کرنے کا حق حاصل نہیں جس سے کسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد از ضرورت پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
[الفوزان: المنتقى: 2]