نمازِ باجماعت میں صف سیدھی کرنا سنتِ نبوی ﷺ ہے، جس پر صحابۂ کرامؓ نے نہ صرف عمل کیا بلکہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ بعض لوگ اس ملاپ کو صرف ایک وقتی واقعہ یا مبالغہ سمجھتے ہیں، جبکہ صحیح احادیث اور محدثین کی تشریحات سے واضح ہے کہ یہ صف بندی کا حصہ اور خلل ختم کرنے کا مسنون طریقہ ہے۔ اس مضمون میں ہم صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ کے اقوال سے یہ حقیقت مدلل انداز میں پیش کریں گے اور اس بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمی کا ازالہ کریں گے۔
سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی روایات
صف میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے کا سب سے واضح بیان سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی روایت میں ملتا ہے، جسے امام بخاریؒ اور امام ابو داودؒ نے صحیح سند سے نقل کیا ہے۔
① صحیح بخاری کی روایت
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں باب باندھا:
بَابُ إِلْزَاقِ المَنْكِبِ بِالمَنْكِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِي الصَّفِّ
”صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کا بیان۔“
سیدنا نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں:
«رَأَيْتُ الرَّجُلَ مِنَّا يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ»
”میں نے دیکھا ہم میں سے ایک شخص اپنا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملا رہا ہوتا تھا۔“
(صحيح البخاري/كتاب الأذان/حدیث: 725)
② سنن ابی داود کی روایت
امام ابو داودؒ نے بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ میں پوری سند کے ساتھ یہ روایت ذکر کی:
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن زكريا بن ابي زائدة، عن ابي القاسم الجدلي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال:” اقيموا صفوفكم ثلاثا، والله لتقيمن صفوفكم او ليخالفن الله بين قلوبكم”، قال: فرايت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه.
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
(سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 662، [حكم الألباني]: صحيح)
سند کی توثیق (تمام رواۃ)
-
أبو داود السجستاني، کنیت: ابوداود – ثقہ، حافظ، امام السنن۔
-
عثمان بن أبي شيبة العبسي، کنیت: ابوالحسن – ثقہ، حافظ، محدث۔
-
وكيع بن الجراح الرؤاسي، کنیت: ابوسفیان – ثقہ، حافظ، امام۔
-
زكريا بن أبي زائدة الوادعي، کنیت: ابو یحییٰ – ثقہ، مگر مدلس، اور اس روایت میں سماع کی تصریح موجود ہے جیسا کہ سنن دارقطنی میں یہی روایت ان کی سماع کی تصریح کے ساتھ آئی ہے۔
-
الحسين بن الحارث الجدلي، کنیت: ابو القاسم – صدوق، حسن الحدیث۔
-
النعمان بن بشير الأنصاري – صحابی جلیل، متوفی 65ھ۔
یہ سند صحیح ہے اور تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
③ محدثین کی وضاحت
علامہ قرطبیؒ
الجامع لأحكام القرآن میں اس روایت کو نقل کر کے وضاحت فرماتے ہیں:
سنت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے، جسے ابو داود نے نعمان بن بشیرؓ سے روایت کیا: ”اللہ کی قسم! اپنی صفیں درست کرو ورنہ اللہ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا“۔
پھر نعمانؓ فرماتے ہیں: ”میں نے دیکھا ایک شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے، گھٹنا اپنے ساتھی کے گھٹنے سے، اور ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملا رہا تھا۔“
یہاں ”العَقِب“ سے مراد ایڑی کے نیچے کا پچھلا حصہ ہے اور ”العُرقوب“ پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ کو کہا جاتا ہے۔
(الجامع لأحكام القرآن، تفسیر القرطبی)
امام نوویؒ
خلاصة الأحكام میں باب ”صفوں کو سیدھا کرنے کا حکم“ میں یہی روایت ذکر کی اور فرمایا:
اس میں یہ بیان ہے کہ نعمان بن بشیرؓ نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو ساتھی کے کندھے، گھٹنے کو گھٹنے، اور ٹخنے کو ٹخنے سے ملا رہا تھا۔
(خلاصة الأحكام في مهمات السنن، النووي)
علامہ زین الدین العراقیؒ
طرح التثريب میں لکھتے ہیں:
یہ دونوں روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صف کو قائم کرنے میں برابر ہونا اور اعضاء کا ایک دوسرے سے ملا ہونا شامل ہے۔
(طرح التثريب في شرح التقريب، زین الدین العراقی)
حافظ ابن حجرؒ
فتح الباري میں امام بخاریؒ کے اس باب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہاں مراد صف کی درستگی میں پوری کوشش (مبالغہ) ہے اور صف کے خلل کو ختم کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب کئی احادیث میں آئی ہے۔
پھر "مبالغہ” کا عربی مفہوم بیان کرتے ہیں:
«إذا اجتهد في الأمر» یعنی کسی کام میں پوری کوشش کرنا۔
یہاں "مبالغہ” کا مطلب اصل سنت پر کامل عمل ہے، نہ کہ اردو والا مفہوم یعنی حد سے زیادہ بات یا غیر حقیقی دعویٰ۔
(فتح الباري، لسان العرب)
ان روایات اور محدثین کی تصریحات سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیرؓ کا بیان کوئی وقتی یا مبالغہ آمیز بات نہیں بلکہ صف سیدھی کرنے کا صحیح اور مکمل مسنون طریقہ ہے۔
سیدنا انس بن مالکؓ کی روایات
صف میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے کا عملی نمونہ سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت میں بھی ملتا ہے، جسے امام بخاریؒ، ابن ابی شیبہؒ اور دیگر محدثین نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
① صحیح بخاری کی روایت
امام بخاریؒ نے وہی باب قائم کیا:
بَابُ إِلْزَاقِ المَنْكِبِ بِالمَنْكِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِي الصَّفِّ
”صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کا بیان۔“
اس باب میں سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت ہے:
725 – حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»
وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صفیں سیدھی کر لو، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں، اور ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے اور قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملاتا تھا۔“
(صحيح البخاري/كتاب الأذان/حدیث: 725])
② مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت (زیادہ الفاظ کے ساتھ)
3524 – حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «اعْتَدِلُوا فِي صُفُوفِكُمْ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»
قَالَ أَنَسٌ: «لَقَدْ رَأَيْتُ أَحَدَنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ، وَلَوْ ذَهَبْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ لَتَرَى أَحَدَهُمْ كَأَنَّهُ بَغْلٌ شَمُوسٌ»
”ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے اور قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا، لیکن اگر آج ایسا کرنے جاؤ تو کچھ لوگ ایسے بھاگتے ہیں جیسے سرکش خچر۔“
(مصنف ابن ابي شيبه: ترقيم سعد الشثري 3562، ترقيم محمد عوامة 3544، إسناده صحيح)
سند کی توثیق:
-
ابن أبي شيبة العبسي، کنیت: ابوبکر – ثقہ، حافظ، صاحب تصانیف۔
-
هشيم بن بشير السلمي، کنیت: ابومعاویہ – ثقہ ثبت۔
-
حميد بن أبي حميد الطويل، کنیت: ابو عبیدہ – ثقہ۔
-
انس بن مالك الأنصاري – صحابی جلیل، متوفی 93ھ۔
③ ابن ابی الفوارس کی روایت اور حافظ ذہبی کی توثیق
87 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، قَالُوا: ثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَ حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «اعْتَدِلُوا فِي صُفُوفِكُمْ وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»
قَالَ أَنَسٌ: «فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَحَدَنَا يُلْصِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ، فَلَوْ ذَهَبْتَ تَفْعَلُ هَذَا الْيَوْمَ لَنَفَرَ أَحَدُكُمْ كَأَنَّهُ بَغْلٌ شَمُوسٌ»
حافظ ذہبیؒ نے فرمایا:
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، غَرِيْبٌ»
”یہ حدیث صحیح ہے اور غریب ہے۔“
(سير أعلام النبلاء، للذهبي)
انس بن مالکؓ کی ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ:
-
کندھے اور قدم کا ملاپ صرف ایک وقتی عمل نہیں بلکہ مسلسل معمول تھا۔
-
بعد میں جب لوگوں نے احتیاط اور صف کی کامل درستگی چھوڑ دی تو صحابہؓ نے اس تبدیلی کو ناپسند کیا اور اس کو جانوروں کی بے قابو حرکت سے تشبیہ دی۔
-
محدثین نے ان روایات کو صحیح اور حجت قرار دیا ہے۔
دیگر صحابہ کرامؓ کے آثار
صف میں تسویہ اور اعضاء کے ملاپ کی تاکید صرف نعمان بن بشیرؓ اور انس بن مالکؓ تک محدود نہیں، بلکہ دیگر جلیل القدر صحابہؓ کے آثار بھی اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں، جو اس سنت کے عملی تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں۔
① سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کا قول
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
9376 – حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْقَاضِي، ثنا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَتَخَلَّلُهَا كَالْخَذْفِ – أَوْ كَأَوْلَادِ الْخَذْفِ -»
”اپنی صفوں کو درست کرو، کیونکہ شیطان ان میں اس طرح گھس جاتا ہے جیسے بکری یا بکری کا بچہ۔“
وسند صحیح
رواۃ کی توثیق:
-
يوسف بن يعقوب القاضي، کنیت: ابو محمد – ثقہ۔
-
عمرو بن مرزوق الباهلي، کنیت: ابو عثمان – ثقہ۔
-
شعبة بن الحجاج العتكي، کنیت: ابو بسطام – ثقہ، حافظ، متقن، عابد۔
-
سلمة بن كهيل الحضرمي، کنیت: ابو یحییٰ – ثقہ۔
-
سلام بن سليم الحنفي، کنیت: ابو الأحوص – ثقہ، متقن۔
-
عبد الله بن مسعود – صحابی جلیل، متوفی 32ھ۔
یہ قول صف میں موجود خلا کو ختم کرنے کی سخت تاکید کرتا ہے تاکہ شیطان کی گزرگاہ نہ رہے، اور یہی مقصد کندھے اور قدم کے ملاپ سے حاصل ہوتا ہے۔
② سیدنا بلال حبشیؓ کا قول
سُوَید بن غَفلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
1211 – وَقَالَ مُسَدَّدٌ: ثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عثمان، عن عمران، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفْلَةَ قَالَ:
«كَانَ بِلَالٌ يُسَوِّي مَنَاكِبَنَا وَيَضْرِبُ أَقْدَامَنَا لِإِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
”بلالؓ ہمارے کندھوں کو برابر کرتے اور نماز قائم کرنے کے لیے ہمارے پاؤں پر مارتے تھے۔“
حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
«صَحَّ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفْلَةَ قَالَ: كَانَ بِلَالٌ يُسَوِّي مَنَاكِبَنَا وَيَضْرِبُ أَقْدَامَنَا فِي الصَّلَاةِ»
(فتح الباري، ابن حجر)
📌 نوٹ: پاؤں پر مارنا اسی لیے تھا کہ نمازی اپنے پاؤں ساتھی کے پاؤں کے ساتھ ملا کر کھڑا ہو، ورنہ اگر صرف سیدھا کھڑا کرنا مقصد ہوتا تو وہ کندھے سیدھے کرنے سے بھی ہو جاتا۔
خلاصۂ بحث اور نتیجہ
گزشتہ تمام دلائل، احادیث اور آثار کے مطالعے سے یہ بات نہایت واضح اور مدلل طور پر ثابت ہو گئی ہے کہ صف میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانا صرف ایک وقتی واقعہ یا مبالغہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور صحابۂ کرامؓ کے عملی طریقے کا حصہ ہے۔
🔹 ثابت شدہ نکات
-
رسول اللہ ﷺ کا حکم:
-
آپ ﷺ نے متعدد مواقع پر صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیا اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں دلوں میں اختلاف پڑ جانے کی وعید سنائی۔
-
اس حکم کی عملی صورت صحابہؓ کے عمل سے واضح ہوئی، جنہوں نے کندھوں اور قدموں کو ملا کر صف قائم کی۔
-
-
صحابۂ کرامؓ کا طریقہ:
-
نعمان بن بشیرؓ اور انس بن مالکؓ کی صحیح روایات سے معلوم ہوا کہ وہ کندھوں، گھٹنوں اور ٹخنوں کو برابر کر کے کھڑے ہوتے تھے۔
-
اس پر کسی صحابیؓ نے نکیر نہیں کی، بلکہ اسے صف سیدھی کرنے کی اصل صورت کے طور پر اختیار کیا گیا۔
-
-
دیگر صحابہؓ کے آثار:
-
عبداللہ بن مسعودؓ نے صف میں موجود خلا کو شیطان کے داخلے کا راستہ قرار دے کر اسے بند کرنے کی تاکید کی۔
-
بلال حبشیؓ نمازیوں کے کندھے سیدھے کرنے کے ساتھ پاؤں بھی سیدھے (اور ملے ہوئے) کرنے کے لیے براہِ راست عملی اصلاح کرتے تھے۔
-
-
محدثین کی تصریحات:
-
امام قرطبیؒ، امام نوویؒ، زین الدین العراقیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے ان روایات سے صف میں جسمانی ملاپ کو سنت کے کمال درجے کی ادائیگی قرار دیا۔
-
حافظ ابن حجرؒ نے "مبالغہ” کے عربی مفہوم کی وضاحت کی کہ یہاں اس سے مراد مکمل اہتمام اور جہد ہے، نہ کہ اردو والا مفہوم یعنی حد سے زیادہ یا غیر حقیقی بات۔
-
🔹 نتیجہ
-
صف سیدھی کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نمازی ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہوں، کندھوں اور پاؤں کو ملائیں، اور درمیان میں کوئی خلا نہ چھوڑیں تاکہ شیطان کے لیے گزرگاہ نہ رہے۔
-
پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانا کوئی وقتی یا اختیاری عمل نہیں بلکہ صحابۂ کرامؓ کی متواتر عملی سنت ہے جسے محدثین نے پوری قوت کے ساتھ بیان اور صحیح قرار دیا ہے۔
-
اس عمل کو "مبالغہ” کہہ کر سنت سے خارج کرنا غلط فہمی اور لغوی مفہوم کی غلط تعبیر ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ نمازِ باجماعت میں صف بندی کے اس مسنون طریقے کو زندہ کریں، کیونکہ یہ نہ صرف سنتِ رسول ﷺ ہے بلکہ اتحادِ دل اور اخوتِ اسلامی کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
وَاللهُ أعلَمُ بالصَّواب