اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو قرآن و حدیث پر مشتمل ہے۔ یہی دو مصادر ہدایت و راہنمائی کے سرچشمے ہیں اور گمراہی و ضلالت سے بچنے کے لئے کافی ہیں۔ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے وہ حق ہے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے وہ باطل ہے۔ ﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ﴾ پھر حق کے بعد کیا ہے ؟ صرف گمراہی لیکن افسوس صد افسوس کہ آج انسانوں کی اکثریت قرآن و حدیث سے جاہل ہے یا پھر مسلک پرستی، اکابر پرستی اور فرقہ پرستی وغیرہ میں اس قدر مبتلا ہے کہ اصل دین ان پر مشتبہ ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر طرف فرقہ پرستی کی وبا پھیل چکی ہے۔ مروّجہ تقلیدی مذاہب اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
◈ حافظ ابن القیم نے فرمایا :
حدثت هٰذه البدعة فى القرن الرابع المذموم عليٰ لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم
(تقلید کی) یہ بدعت چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے جس (صدی) کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (مقدس) زبان سے بیان فرمائی ہے۔ [اعلام الموقتين 208/2]
↰ لہٰذا بعض الناس کا ان تقلیدی مذاہب کو ”اسلام کے بچاؤ کا سامان“ کہنا باطل و مردود ہے۔ اسی طرح آلِ تقلید : حنفیوں اور شافعیوں کے مابیں خونریز لڑائیاں بھی ہوئی ہیں۔ [ديكهئے معجم البلدان 17/3/1]
↰ اسی طرح تقلیدی مذاہب کے پیروکاروں نے بیت اللہ میں چار مصلے بنا رکھے تھے اور ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ [ملاحظه فرمائيے تاليفاتِ رشيديه ص 517]
✿ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا [3-آل عمران:103]
”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“
↰ ”اللہ کی رسی“ سے مراد کتاب اللہ ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ألا وإني تارك فيكم الثقلين : أحدهما كتاب الله (عزوجل) هو حبل الله، من اتبعه كان على الهديٰ ومن تركه كان على الضلالة۔
”آگاہ رہو ! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ (عزوجل) کی کتاب ہے، وہ اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی اتباع کی وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہو گا۔“ [مسلم : 6228/2408]
↰ اس حدیث سے معلو م ہوا کہ حبل الله ”اللہ کی رسی“ سے مراد کتاب اللہ ہے۔ کتاب اللہ کا اطلاق حدیث پر بھی کیا جاتا ہے۔ [ملاحظه فرمائيے صحيح بخاري : 6843، 6842 و صحيح مسلم : 4418]
واضح ہوا کہ حبل الله سے مراد قرآن و حدیث یعنی اللہ کا دین ہے جس کو تھامنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو اللہ کی پسندیدہ چیز قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : وأن تعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا اور یہ کہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقے فرقے نہ بنو۔ [مسلم : 4481]
سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنوں کے دور کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا تھا : فاعتزل تلك الفرق كلها ”(ایسی حالت) تم تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا۔“ [بخاري : 7084، مسلم : 4784]
اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو یہ فرمایا تھا : خذماتعرف ودع ما تنكر جو کچھ تمہیں معلوم ہو اسی کو اپنائے رکھو اور جو کچھ نہیں جانتے اسے چھوڑ دو۔ [ابوداود : 4343 واسناده حسن]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تعمل ما تعرف و تدع ما تنكر و تعمل بخاصة نفسك و تدع عوام الناس
تمہیں جو معلوم ہو اس پر عمل کرو اور جسے تم نہیں جانتے اسے چھوڑ دو، خاص اپنے لئے عمل کرو اور عوام الناس کو چھوڑ دو۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان : 5933 وسنده صحيح، دوسرا نسخه : 5953]
❀ سیدنا ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فعليك بخاصة نفسك ودع العوام
خاص اپنی فکر کرو اور عوام کو چھوڑ دو۔ [ترمذي : 3058 و اسناده حسن، وقال الترمذي : ”حسن غريب“ ]
↰ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کے دور میں فرقہ بندی چھوڑ کر ہمیشہ قرآن و سنت پر عمل پیرا رہنا چاہئیے۔
تفریق کے اسباب : جہل، تقلید، تعصب اور خواہشات وغیرہ ہیں۔ اس سے بچنے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ صرف اللہ کی وحی کو تھاما جائے اور غیر جانبداری سے قرآن و حدیث کی دعوت دی جائے۔ اللہ کی وحی کو تھامنے والوں کا افتراق کی راہ پر آنا اور تنظیمیں بنانا خیر و برکت کا باعث نہیں بلکہ فشل و اختلاف کا سبب ہے۔ اگر کسی کو یہ وسوسہ ستائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی دو گروہ بن چکے تھے تو مودبانہ عرض ہے کہ صحابہ کا یہ عمل اجتہادی خطا پر مبنی تھا۔ یہ فرقہ بندی اور تنظیم سازی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجتہادی خطا کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل بھی کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ استدلال ہے۔ محدثین کرام نے کوئی تنظیمیں نہیں بنائی تھیں اور اس کے باوجود قرآن و سنت کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں کھپا دی تھیں۔ دعوت کے لئے تنظیمیں بنانا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ضروری نہیں۔ اگر کوئی یہ شبہ وارد کرے کہ جب خلافت کا دور تھا تو تنظیموں کی کیا ضرورت تھی ؟ تو ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ جب خلافت نہ ہو تو فرقے، پارٹیاں اور تنظیمیں بنا بنا کر تعصب کو ہوا دیتے پھریں!
قارئین کرام! اگر شخصیات سے بالاتر ہو کر خالص قرآن و حدیث کی طرف لوگوں کو بلایا جائے تو اس دعوت میں کوئی تعصب نہیں۔ تعصب تو تب ہے کہ کسی خاص فرقے، مسلک اور امام کی طرف بلایا جائے یا موجودہ کاغذی امیروں کی اطاعت کی دعوت دی جائے۔ اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم وَلَا تَفَرَّقُوْا کے خلاف ہے۔ الغرض فرقہ بندی سے بچتے ہوئے صرف سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مقتد اور راہنما بنائیے۔ سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیجئیے۔ سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اسی نکتہ پر متحد تھے اور یہی سلف دعوت ہے۔
وكل خير فى اتباع من سلف وكل شرفي ابتداع من خلف
اور سلف کی (بادلیل) اتباع میں ہر قسم کی خیر ہے اور بعد والوں کی بدعات میں ہر قسم کا شر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
لا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا
”اختلاف نہ کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔“ [بخاري : 2410]
↰ فرقہ بندی اختلاف کا سبب ہے اور اختلاف و تنازعات بزدلی اور کمزوری کا باعث ہے۔
✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [8-الأنفال:46]
”اور آپس میں اختلاف مت کرو ورنہ بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔“
↰ احادیث میں مذکور الفاظ ”جماعت“ سے کسی خاص پارٹی یا تنظیم پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس باب سے متعلق تمام احادیث جمع کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کا خلیفہ، اجماع یا نماز والی جماعت ہے۔
↰ اگر خلافت اسلامیہ نہ ہو تو مسلمانوں کو چاہئے کہ کوئی پارٹی یا تنظیم نہ بنائیں اور تمام پارٹیوں اور جماعتوں سے علیحدہ ہو جائیں جیسا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں گزر چکا ہے۔
↰ تنظیمیں اور جماعتیں بنانا قرآن و سنت کے خلاف ہے، اس سے مسلمانوں کا خلوص شدید متاثر ہوتا ہے۔ اس سے آنکھوں پر تعصب کا پردہ چھا جاتا ہے، یہ شخصیات میں غلو کا سبب ہے۔ بعض لوگ غلو میں اس طرح حد سے گزر جاتے ہیں کہ اگر ان کا لیڈر یا امیر دن کو رات کہے یا رات کو دن کہہ دے تو بھی اسے بسر و چشم قبول کر لیتے ہیں اور پوری کوشش کر کے غلط بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دور ازکار تاویلیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔
↰ فرقہ بندی نے مسلمانوں میں شکوک و شبہات اور تعصّبات کو پروان چڑھایا۔ خیرون القرون میں اس کا نام و نشان تک نہیں تھا، یہ بعد کی پیداوار ہے۔ تنظیموں کے کارکنوں خصوصاً نوجوانوں سے ہماری گزارش ہے کہ فتنوں کے اس دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کریں، اسے فتنوں سے بچائیں۔ اپنے مقصد حیات کو پہچانیں، اللہ کی عبادت کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ اللہ سے تعلق قائم کریں، علم شرعی حاصل کریں اور بے مقصد اور لایعنی امور چھوڑ دیں۔ پارٹی اور تنظیمی قیود سے آزاد ہو کر ان ذمہ داریوں کو اپنائیں جو شریعت نے ہم پر عائد کی ہیں۔ پارٹی منشور ایک خاص فکر پر مبنی ہوتے ہیں جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مر جاتے ہیں جبکہ سلف صالحین کے منہج پر دعوت الی اللہ کا کام قیامت تک باقی رہے گا۔ ان شاء الله
[13 ربيع الاول 1427ه]
One Response
السلام علیکم