یہ ایک طویل داستان ہے جو حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کی جانب منسوب کی گئی ہے۔ اس کہانی کے الفاظ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل میں آ جانے کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس رات قریش کے سب جانور بولنے لگے۔ اور کہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادر میں آ گئے۔ وہ دنیا جہاں کی امان اور اہل دنیا کے چراغ ہیں۔ قریش اور دیگر قبائل کی کاہنہ عورتوں میں کوئی ایسی تھی کہ اس کا جن اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا ہو۔ اور ان سے کہانت کا علم چھین نہ لیا گیا ہو۔ اس روز دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت اوندھے ہو گئے۔ اور سلاطین اس دن گونگے ہو گئے۔ مشرق کے وحشی جانوروں نے مغرب کے وحشی جانوروں کو جا کر بشارت دی۔ اسی طرح ایک دریا نے دوسرے دریا کو خوش خبری سنائی۔ اور پورے ایام حمل میں ہر ماہ آسمان و زمیں سے یہ ندا سنی جانے لگی کہ بشارت ہو کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمیں پر ظاہر ہونے کا زمانہ قریب آیا۔
حضرت کی والدہ فرماتی تھیں کہ جب میرے حمل کے چھ مہینے گزرے تو خواب میں مجھے کسی نے ٹھوکر دے کر کہا : اے آمنہ ! تمام جہاں کا سردار تیرے پیٹ میں ہے۔ جب وہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد رکھنا اور اپنی حالت کو چھپائے رکھنا، کہتی ہیں کہ جب ولادت کا زمانہ آیا تو عورتوں کو جو کچھ پیش آتا ہے وہ مجھ کو بھی پیش آیا۔ اور کسی کو میری اس حالت کی خبر نہ تھی۔ میں گھر میں تنہا تھی۔ عبد المطلب خانہ کعبہ کے طواف کو گئے تھے۔ تو میں نے ایک زور کی آواز سنی، جس سے میں ڈرگئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک سپید مرغ ہے جو اپنے بازو کو میرے دل پر مار رہا ہے، اس سے میری تمام دہشت دور ہو گئی۔ اور درد کی تکلیف بھی جاتی رہی۔ پھر ایک طرف دیکھا کہ سپید شربت ہے۔ پیاسی تھی، دودھ سمجھ کر اس کو پی گئی۔ اس کے پینے سے ایک نور نکل کر مجھ سے بلند ہوا، پھر میں نے دیکھا کہ چند عورتیں جن کے قد لمبے لمبے ہیں گویا عبد المطلب کی بیٹیاں ہیں۔ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ میں تجعب کر رہی ہوں کہ ان کو کیسے میرا حال معلوم ہوا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ان عورتوں نے کہا کہ ہم فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم اور یہ حوریں ہیں، میرا درد زیادہ بڑھ گیا۔ اور ہر گھڑی آواز اور زیادہ بلند تھی۔ اتنے میں ایک سپید دیبا کی چادر آسمان و زمین کے درمیان پھیلی نظر آئی۔ اور آواز آئی کہ اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لو، میں نے دیکھا کہ چند مرد ہوا میں معلق ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتابے ہیں اور میرے بدن سے موتی کی طرح پسینہ کے قطرے لپک رہے ہیں، جس میں مشک خالص سے بہتر خوشبو تھی۔ اور میں دل میں کہہ رہی تھی کہ کاش عبد المطلب اس وقت میرے پاس موجود ہوتے۔ پھر میں نے پرندوں کا ایک غول دیکھا جو نہ معلوم کدھر سے آئے تھے۔ وہ میرے کمرے میں گھس آئے۔ ان کی منقاریں ( چونچیں) زمرد کی اور بازو یاقوت کے تھے۔ میری آنکھوں سے اس وقت پردے اٹھا دیئے گئے۔ تو اس وقت مشرق و مغرب سب میری نگاہوں کے سامنے تھے، تین جھنڈے نظر آئے۔ ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک خانہ کعبہ کی چھت پر۔ اب دردزہ زیادہ بڑھ گیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کچھ عورتیں ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اور اتنی عورتیں بھر گئیں کہ مجھے گھر کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ اس اثنا میں بچہ پیدا ہوا میں نے پھر کر دیکھا تو وہ سجدہ میں پڑا تھا۔ اور دو انگلیوں کو آسمان کی طرف دعا کی طرح اٹھائے ہوئے تھا۔ پھر ایک سیاہ بادل نظر آیا جو آسمان سے اتر کر نیچے آیا اور مجھ پر چھا گیا۔ اور بچہ میری نگاہ سے چھپ گیا۔ اتنے میں ایک منادی سنی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے مشرق اور مغرب گھما دو اور سمندروں کے اندر لے جائے کہ سب ان کا نام نامی اور شکل وصورت پہچان لیں اور جان لیں کہ یہ مٹانے والے ہیں۔ یہ اپنے زمانہ میں شرک کا نشان مٹا دیں گے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں بادل ہٹ گیا۔ اور آپ دودھ سے زیادہ سفید کپڑے میں لپٹے نظر آئے۔ جس کے نیچے سبز ریشم تھا۔ ہاتھوں میں سفید موتیوں کی تین کنجیاں تھی۔ اور ایک آواز آئی کہ محمد کو فتح و نصرت اور نبوت کی تین کنجیاں دی گئیں ہیں۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ میں نے دل پر جبر کر کے یہ حکایت نقل کی ہے۔ اس لئے کہ میلاد کے عام جلسوں کی رونق ان ہی روایتوں سے ہے۔
یہ روایت ابونعیم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی گئی ہے۔ اور سند کا سلسلہ بہ ظاہر متصل بھی ہے۔ لیکن اگر کسی کو اسماء الرجال سے آگاہی بھی نہ ہو اور وہ صرف ادب عربی کا صحیح ذوق ہی رکھتا ہو تو وہ فقط روایت کے الفاظ اور عبارت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر دے گا۔ کہ یہ تیسری، چوتھی صدی کی بنائی ہوئی ہے۔
اس روایت میں یحییٰ بن عبد الله الباملتی اور ابو بکر بن ابی مریم ہیں۔
پہلا شخص بالکل ضعیف ہے اور دسورا ناقابل حجت ہے۔
ان کے آگے کے راوی سعید بن عمرو الانصاری اور ان کے باپ عمرو الانصاری کا کوئی پتہ ہیں۔