وضو کے مسائل پر دیوبندی سوالات کا تحقیقی جواب
مرتب کردہ: دانیال احمد

بعض حضرات یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وضو کے چند مسائل قرآن و حدیث میں بیان نہیں ہوئے، گویا (نعوذباللہ) نبی کریم ﷺ نے کچھ باتیں نہیں بتائیں، اور ان "کمیوں” کو بعد میں امام ابو حنیفہ یا دیگر فقہا نے پورا کیا۔ یہ تصور دراصل نبی ﷺ کی تعلیمات پر بہتان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین مکمل ہے اور وضو کے تمام مسائل قرآن و سنت میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ آیئے اب ہم ایک متعصب تقلیدی دیوبندی کے پیش کردہ سوالات کے مختصر جوابات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد دیوبندی مولوی صاحب سے بھی ایک سوال کرتے ہیں جس کا جواب دینے کے لیئے ان کے پاس قیامت تک کا وقت موجود ہے۔

سوال نمبر 1

وضو کے استعمال شدہ پانی سے کوئی دوسرا شخص وضو کر سکتا ہے؟

الجواب:

جی ہاں، مستعمل پانی پاک ہے اور اس سے دوبارہ وضو کرنا جائز ہے۔

قرآن سے دلیل:
﴿وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا﴾ (الفرقان: 48)
’’اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔‘‘

حدیث سے دلیل:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الماء طَهور لا يُنجّسه شيء»
(سنن ابی داود: 66 – صحیح)
’’پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‘‘

عملِ صحابہ:
صحابہ کرامؓ نبی ﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لیتے اور اپنے جسموں پر ملتے تھے۔
(صحیح بخاری: 187)

وضاحت:

یہ وہ پانی ہوتا تھا جس سے نبیﷺ نے وضو کیا ہوتا تھا اسی لیئے صحابہ اسے بطور برکت جسموں پر ملتے تھے، اس کی وضاحت صحیح بخاری میں موجود دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے۔

➡ لہٰذا مستعمل پانی پاک ہے اور اس سے وضو و غسل جائز ہے۔

سوال نمبر 2

وضو کرتے وقت جب تک وضو مکمل نہیں ہوتا وضو کے اعضاء خشک نہ ہوں یعنی پے در پے وضو کرنا ضروری ہے؟

الجواب:

جن احادیث میں وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے ان میں پے در پے عضو دھونے کا ذکر ہے۔ کسی راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ ایک عضو خشک ہو جاتا تھا تب دوسرا عضو دھویا جاتا تھا۔ اس لیے یہی طریقہ سنت ہے کہ اعضا لگاتار دھوئے جائیں۔

وضو میں اعضاء پے در پے دھونے کی دلیل:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى:‏‏‏‏ أَتَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ:‏‏‏‏ نَعَمْ،”فَدَعَا بِمَاءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَهُ فَغَسَلَ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ”.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے عمرو بن یحییٰ المازنی سے خبر دی، وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جو عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں، سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر انہوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔

(صحیح بخاری: حدیث نمبر: 185)

دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ نبیﷺ نے سنت کے مطابق وضو نہ کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی، جیسا کہ مثال کے طور پر یہ حدیث:

«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:” وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ . . .»

. . . عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو . . .

[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 97]

اس لیئے جس نے سنت کے مطابق پے در پے اعضاء نہ دھوئے ہوں وہ دوبارہ وضو کرے کیونکہ سنت کے برعکس کیا گیا کوئی عمل قابل قبول نہیں، یہی حکم نماز کے بارے میں ہے، نبیﷺ نے فرمایا: صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ نماز ویسے پڑھو جیسا مجھے پڑھتے دیکھتے ہو [بخاری: حدیث نمبر: 6008] اس لیئے چاہے عورت ہو یا مرد، اس کی نماز وہی قابل قبول ہے جو نبیﷺ کے طریقے پر پڑھی گئی ہو ، نہ کے کسی اُمتی امام کے بتائے طریقہ پر۔

سوال نمبر 3

واش روم سے نکلنے وقت اور وضو کرنے سے پہلے ہاتھ دھونا ضروری ہے؟

الجواب:

  • واش روم سے نکلنے پر صرف دعا پڑھنا مسنون ہے:
    «غُفْرَانَكَ»

(سنن ابی داود: 30 – صحیح)

’’(اے اللہ) میں تیری بخشش مانگتا ہوں‘‘۔

  • وضو کے آغاز پر ہاتھ دھونا بالکل سنت ہے:
    «فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلاثًا»

(صحیح بخاری: 159)

’’آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ تین مرتبہ دھوئے‘‘۔

➡ اس لیے وضو کے آغاز میں ہاتھ دھونا سنت ہے، مگر واش روم سے نکلنے پر ہاتھ دھونا وضو کا حصہ نہیں۔ اگر سوال کرنے والے کی مراد استنجاء کے بعد ہاتھ دھونا مراد ہے تو اس موقع پر نبیﷺ سے ہاتھ دھونا صحیح احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 358]

سوال نمبر 4

سنت نبوی میں مسواک کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

الجواب:

مسواک کرنا سنت ہے، لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں کیا گیا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة»

(صحیح بخاری: 887، صحیح مسلم: 252)

’’اگر امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔‘‘

➡ اس سے معلوم ہوا کہ مسواک کرنا سنت ہے، لیکن مسواک کس زاویے یا سمت سے کی جائے یہ انسان کی سہولت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

سوال نمبر 5

وضو مکمل کرنے کے بعد دعا کس مقام پر پڑھنی چاہیے؟

الجواب:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«من توضأ فقال: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فُتِحَتْ له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء»

(صحیح مسلم: 234)

➡ وضو مکمل کرنے کے بعد یہ دعا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله پڑھنی سنت ہے۔ اس کے لیے کوئی مخصوص جگہ یا وقت مقرر نہیں ہے۔

سوال نمبر 6

وضو کرنے کی ترتیب سنت نبوی میں کیا ہے؟

الجواب:

سیدنا عثمان بن عفانؓ نے وضو کر کے دکھایا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی طریقہ تھا:

  1. ہاتھ تین مرتبہ دھوئے

  2. کلی کی اور ناک صاف کی

  3. چہرہ تین مرتبہ دھویا

  4. کہنیوں تک دونوں ہاتھ دھوئے

  5. سر کا مسح کیا

  6. ٹخنوں سمیت پاؤں تین مرتبہ دھوئے

(صحیح بخاری: 159)

➡ یہی وضو کی ترتیب ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

نتیجہ و تبصرہ

یہ تمام سوالات قرآن و حدیث سے مکمل طور پر حل ہو گئے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ نبی کریم ﷺ نے دین کو مکمل طور پر بیان فرمایا تھا اور کسی امام یا فقیہ کے لیے مزید اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا﴾

(المائدہ: 3)

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا۔‘‘

دیوبندی مولوی صاحب کو چیلنج

اب ان سوالات کو اٹھانے والے دیوبندی مولوی صاحب کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ:

  • اگر واقعی یہ چیزیں قرآن و حدیث میں نہیں، تو براہِ کرم یہ مسائل براہِ راست امام ابو حنیفہ سے باسند ثابت کریں۔

  • اگر براہِ راست امام ابو حنیفہ سے نہیں تو کم از کم ایسی مستند کتاب دکھائیں جس میں یہ اقوال ان کی سند کے ساتھ موجود ہوں۔

📌 وقت: قیامت تک!

مگر دلیل صرف اور صرف امام ابو حنیفہ کی باسند بات ہونی چاہیے، نہ کہ بعد کے شارحین یا غیرمعتبر اقوال کی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے