آپ کے سوالات
سوال:
شیخ صاحب! دو روایتوں کی تحقیق کے سلسلے میں آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔
➊ میں نے ایک جگہ فلیکس پر لکھی ہوئی یہ حدیث پڑھی تھی:
’’ وضو کرتے وقت پانی کے استعمال میں فضول خرچی نہ کرو خواہ تم دریا کے کنارے ہی بیٹھے ہو۔‘‘
➋ ایک بہت بڑے سکالر کی زبان سے یہ حدیث سنی:
’’جس شخص نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
آپ سے دریافت کرنا تھا کہ ان دونوں حدیثوں کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ صحیح ہیں؟
والسلام!
(آپ کا بھائی محمد شفیق ، گوجرہ )
جواب:
➊ بلاشبہ ہر چیز میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے حتی کہ وضو میں بھی خواہ انسان کسی نہر یا دریا یا سمندر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو شریعت نے فضول خرچی سے منع کیا ہے۔ تا ہم آپ نے جو روایت بیان کی ہے وہ درست نہیں۔ آپ نے جو الفاظ بتائے ہیں ان لفظوں میں تو ہمارے علم میں نہیں کہ کوئی روایت ہو، واللہ اعلم ۔ البتہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا سعد رضی اللہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ وضو کر رہے تھے، آپ نے فرمایا:
((مَا هَذَا السَّرَفُ؟))
’’ یہ کیا فضول خرچی ہے؟ انھوں نے عرض کیا:
کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا:
((نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلى نَهْرٍ جَارٍ ))
’’ہاں، اگر چہ تم دریا کے کنارے ہی بیٹھے ہو۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ نے اپنی ’’السنن ‘‘ (425) امام احمد نے ”المسند“ (221/2) اور امام بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (2533 ) میں روایت کیا ہے۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو مدلس اور مختلط راوی ہے۔
ہمارے شیخ حافظ زبیر علی زئی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ کی حدیث دو شرطوں کے ساتھ حسن ہوتی ہے۔
➊ اس نے وہ راویت اختلاط سے پہلے بیان کی ہو۔
➋ اور اپنے سماع کی صراحت کی ہو۔ بصورت دیگر اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن لہیعہ کے متعلق یہی زیادہ منصفانہ بات ہے۔
(دیکھیں: الفتح المبين ، ص: 159 – القول القوى في نقد الرجال، ص: 188)
مذکورہ روایت میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں:
➊ امام قتیبہ بن سعید کا ابن لہیعہ سے سماع اختلاط سے پہلے ثابت نہیں۔ امام ابوبکر الاثرم فرماتے ہیں:
سمعت ابا عبدالله احمد بن حنبل، وذكر قتيبة بن سعيد فاثني عليه وقال: هو من آخر من سمع من ابن لهيعة،
’’میں نے ابو عبد الله احمد بن حنبل کو سنا انھوں نے قتیبہ بن سعید کا ذکر کیا تو ان کی تعریف کی اور کہا:
وہ ابن لہیعہ سے اس کی آخری عمر میں سماع کرنے والوں میں سے ہیں۔
(سؤالات أبي بكر الأثرم، ص: 169)
➋ اور ابن لہیعہ کے سماع کی صراحت بھی نہیں ملتی۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اسے حافظ ابن حجر (التلخيص الحبير : 387/1 الشامله )
علامہ بوصیری (مصباح الزجاجة: 62/1 الشامله) اور دیگر علماء نے بھی ضعیف کہا ہے۔
➋ آپ نے ایک بہت بڑے سکالر کی زبانی جو روایت سنی کہ
((مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ))
’’جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
یہ موضوع ہے۔
ضعیف اور موضوع احادیث کے سلسلے میں لکھی گئی کتب میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً
سخاوی کی ” الــمــقـــاصد الحسنة“ (ح: 1149) علامہ محمد طاہر ہندی کی ’’ تذكرة الموضوعات‘‘ (ص: 11) علامہ صنعانی کی ” الموضوعات“ (ح:27) ابو الحسن علی بن محمد الکنانی کی ” تنزيه الشريعة (492/2 الشاملہ ) بدر الدین زرکشی کی ’’التذكرة في الاحاديث المشتهرة “ (129/1 الشامله ) عجلونی کی ”کشف الخفا“ (ح: 2532) ملا علی القاری کی ’’الموضوعات الكبری“ (ح: 937) اور دیگر علماء کی کتب میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مستند احادیث کی کتب میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔
یہ بالکل من گھڑت ہے۔
علماء کرام نے اسے موضوع کہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’وبعض الناس يروى عن النبي وليس هذا من كلام النبي ولا هـو فـي شـيء من كتب الحديث ولا يعرف له اسناد. “
” بعض لوگ اسے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں حالانکہ یہ نبی ﷺ کا کلام نہیں ہے اور نہ اس قسم کی کوئی چیز کتب حدیث میں ہے اس کی سند بھی نا معلوم ہے۔“
(مجموع الفتاویٰ: 349/16 الشامله)
شیخ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:
لا اصل لہ
اس کی کوئی اصل نہیں“
(سلسلة الاحاديث الضعيفة : 165/1)
(25-7-2018)