وصیت اس پر واجب ہے جس کے پاس قابل وصیت کوئی چیز ہو
لغوی وضاحت: وصیت سے مراد وہ چیز بھی ہے جس کی وصیت کی جائے اور بمعنی مصدر وصیت کرنا ۔ باب اوصي يُوصى (إفعال ) غیر سے کسی کام کا عہد کرنا زندگی میں یا وفات کے بعد ۔ باب تَوَاصٰى يَتَوَاصٰي (تفاعل ) ایک دوسرے کو وصیت کرنا ۔ باب اِسْتَوُصى يَسْتَوْصِى (استفعال ) وصیت قبول کرنا ۔ وَصِيّ سے مراد وصیت کرنے والا ہے یا جسے وصیت کی جائے ۔
[المنجد: ص / 970 ، القاموس المحيط: ص / 1208 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 7439/7]
شرعی تعریف: ایسا خاص عہد جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو ۔
[سبل السلام: 1284/3 ، نيل الأوطار: 96/4]
مشروعیت:
➊ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ [البقرة: 180]
”تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے وصیت کر جائے ۔“
➋ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ [النساء: 12]
”اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد ۔“
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله شيئ يريد أن يوصى فيه إلا ووصيته مكتوبة عند رأسه
”کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کو وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزار دے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو ۔“
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لم أبت ليلة منذ سمعت رسول الله يقول ذلك إلا و وصيتي عندي
”جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو ۔“
[بخاري: 2738 ، كتاب الوصايا: باب الوصايا ، مسلم: 1627 ، مؤطا: 761/2 ، ابو داود: 2862 ، نسائي: 238/6 ، ترمذي: 2118 ، ابن ماجة: 2702 ، دارمي: 402/2 ، طيالسي: 1841 ، ابن الجارود: 946 ، بيهقى: 272/6 ، ابن حبان: 606/7 ، حميدي: 306/2 ، دارقطني: 150/4 ، شرح السنة: 277/5 ، الحلية لأبي نعيم: 352/6 ، احمد: 10/2 ، بدائع المنن للشافعي: 129/2]
➋ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ [البقرة: 180]
”تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لیے وصیت کر جائے ۔“
اس آیت میں موجود والدین واقرباء کے لیے وصیت کا حکم آیت میراث سے منسوخ ہو چکا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إن الله أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث
”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو حق دے دیا ہے اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔“
ثابت ہوا کہ نسخ کا حکم صرف والدین اور ورثاء کے لیے ہے لیکن جس کے لیے میراث میں حصہ نہیں اس کے حق میں وصیت کرنے کا حکم ٹھیک اسی طرح برقرار ہے جیسے پہلے تھا ۔
[تيسير العلى القدير: 139/1]
اس آیت کے حکم کے ساتھ حدیث کے ان الفاظ کو بہر حال مد نظر رکھا جائے گا:
يريد أن يوصى
”وہ وصیت کرنا چاہتا ہو ۔ “
وصیت کے واجب یا مستحب ہونے میں اختلاف ہے:
(جمہور ) وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں ۔
(شافعیؒ ، اسحاقؒ ) وصیت کرنا واجب ہے ۔ امام عطاؒ ، امام زہریؒ اور امام ابن جریرؒ کا بھی یہی موقف ہے ۔
[سبل السلام: 1285/3]
(ابن حجرؒ ) جمہور کا قول راجح ہے ۔
(راجح ) اس شخص کے لیے وصیت کرنا واجب ہے جس پر دوسروں کے حقوق ہوں مثلاََ امانت اور قرض وغیرہ ، نیز اس کے پاس مال بھی ہو اور ان حقوق سے وصیت کے علاوہ خلاصی حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو اور جس میں ان شرائط میں سے ایک بھی کم ہوئی تو اس کے حق میں وصیت واجب نہیں ۔
[سبل السلام: 1285/3]
ووصيه مكتوبة
”اور اس کی وصیت لکھی ہوئی ہو ۔“
حدیث کے ان الفاظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ خط و کتابت پر اعتماد جائز ہے اگرچہ گواہی نہ بھی موجود ہو ۔ اور امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ کتابت کا ذکر محض مبالغے کے لیے کیا گیا ہے ، ورنہ بغیر کتابت کے بھی وصیت کو شہادت کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے ۔
[نيل الأوطار: 98/4 ، سبل السلام: 1285/3]
کسی وارث کو نقصان پہنچانے کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی یا عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے رہتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو وصیت میں (ورثاء کو ) نقصان پہنچا جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان پر جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ………… [النساء: 12]
”اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جبکہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 614 ، كتاب الوصايا: باب ما جاء فى كراهية الإضرار فى الوصية ، ضعيف ترمذي: 376 ، ضعيف ابن ماجة: 591 ، ابو داود: 2867 ، ترمذي: 2117 ، اس كي سند ميں شهر بن حوشب راوي ضعيف هے ۔ المجروحين: 361/1 ، الجرح والتعديل: 382/4 ، ميزان الاعتدال: 283/3 ، تقريب التهذيب: 355/1 ، المغني: 301/1]
اگرچہ حدیث میں ضعف ہے لیکن اس مسئلے میں یہ آیت ہی کافی ہے ۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
الإضرار فى الوصية من الكبائر
”وصیت میں (ورثاء کو ) نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں سے ہے ۔“
[دار قطني: 151/4 ، تفسير ابن كثير: 471/1 ، عبد الرزاق: 88/9 ، 16456]
ضرر کی اقسام میں سے یہ بھی ہے کہ ورثاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دے دینا یا ورثاء کو نقصان پہنچانے کے لیے مال نکالنے کی وصیت کر جانا ۔ دلائل کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نقصان پہنچانے والی وصیت نافذ نہیں ہو گی خواہ وہ ثلث مال سے ہو یا اس سے کم یا زیادہ کے ساتھ ہو ۔
[نيل الأوطار: 100/4]
نہ ہی کسی وارث کے لیے جائز ہے اور نہ ہی کسی معصیت کے کام میں درست ہے
➊ حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث
”اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے لٰہذا اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2192 ، كتاب الوصايا: باب الدين قبل الوصية ، إرواء الغليل: 88/6 – 89 ، ترمذي: 2121 ، كتاب الوصايا: باب ما جاء لا وصية لوارث ، نسائى: 247/6 ، ابن ماجة: 2712 ، احمد: 186/4 ، دارمي: 419/2 ، طيالسي: 1317 ، ابو يعلي: 78/3 ، بيهقى: 264/6]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا تجوز وصية لوارث إلا أن تشاء الورثة
”وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے الا که ورثاء چاہیں (پھر جائز ہے ) ۔“
[حسن: تلخيص الحبير: 199/3 ، دار قطني: 97/4 ، بيهقي: 263/6 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے حسن كها هے۔]
(شوکانیؒ ) اگر دوسرے ورثاء راضی ہوں تو (ورثاء کے لیے بھی ) وصیت درست ہو گی اور یہ ایسے ہی ہے جیسے عام سے خاص کی صورت ہوتی ہے ۔
(ابن حجرؒ ) اگر ان الفاظ کی زیادتی:
إلا أن يشاء الورثة
صحیح ہے تو یہ واضح دلیل ہے ۔ اور انہوں (اہل علم ) نے معنوی اعتبار سے بھی حجت پکڑی ہے کہ دراصل ممانعت دوسرے ورثاء کے حق کی وجہ سے ہے ۔ اگر وہی اجازت دے دیتے ہیں تو پھر ممانعت نہیں ہے ۔
[نيل الأوطار: 105/4 – 106 ، فتح البارى: 25/6]
(مالکؒ ) وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے الا کہ میت کے ورثاء اجازت دے دیں ۔
[موطا مع المسوى: 74/2]
(صدیق حسن خانؒ ) اسی پر اہل علم ہیں –
[الروضة الندية: 679/2]
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله تـصــدق عليكم بثلث أموالكم عند وفاتكم زيادة فى حسناتكم ليجعلها لكم زيادة فى أعمالكم
”اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری وفات کے وقت تمہارے ثلث مال کے بدلے تمہاری نیکیوں میں اضافے کا صدقہ کیا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے تمہارے (اچھے ) اعمال میں زیادتی کر دے ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1641 ، ابن ماجۃ: 2709 ، كتاب الوصايا: باب الوصية بالثلث ، نصب الراية: 400/4 ، بيهقى: 269/6 ، دار قطني: 150/4 ، تلخيص الجير: 91/4 ، مجمع الزوائد: 212/4 ، احمد: 441/6 ، كشف الأستار: 139/2 ، الحليلة لأبي نعيم: 104/6]
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ ثلث مال کی وصیت سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور معصیت کے کام میں وصیت کرنا (جائز نہیں کیونکہ ) کتاب و سنت نے معصیت سے اجتناب کا حکم دیا ہے اگرچہ وصیت میں یہ قید نہیں لگائی گئی کہ وہ معصیت کے بغیر ہو لیکن وہ دلائل جو معصیت سے اجتناب پر دلالت کرتے ہیں معصیت کی وصیت سے اجتناب پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔
[الروضة الندية: 680/2]
یہ قربت (ثواب کے کام ) میں ثلث تک کی جا سکتی ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کاش لوگ (وصیت کو ) ثلث سے ربع تک کم کر لیں (تو مجھے یہی پسند ہے ) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الثلث والثلث كثير
”ثلث کی وصیت کر دو لیکن ثلث بھی بہت زیادہ ہے ۔“
[بخاري: 2743 ، كتاب الوصايا: باب الوصية بالثلث ، مسلم: 1629]
➋ حضرت سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مالدار آدمی ہوں اور میری وارث صرف میری ایک ہی بیٹی ہے تو کیا میں دو تہائی مال کو صدقہ و خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ۔“ انہوں نے دوبارہ عرض کیا کہ میں اپنے مال کا نصف حصہ خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ۔“ انہوں نے تیسری مرتبہ عرض کیا ، تو کیا میں ایک تہائی مال صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الثلث والثلث كثير إنك إن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس
”ہاں ، مگر ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے ۔ تیرا اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ تو ان کو محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔“
[موطا: 763/2 ، بخاري: 1295 ، كتاب الجنائز: باب رثاء النبى سعد بن خولة ، مسلم: 1628 ، ابو داود: 2864 ، ترمذي: 2116 ، نسائي: 241/6 ، ابن ماجة: 2708 ، احمد: 179/1 ، دارمي: 407/2 ، منحة المعبود: 282/1 ، عبد الرزاق: 64/9 ، حميدي: 36/1 ، ابن الجارود: 947 ، ابو يعلى: 92/2 ، ابن حبان: 4235 ، شرح معاني الآثار: 379/4 ، بيهقى: 268/6]
➌ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے وفات کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیے جب کہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی مال بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان قرعہ ڈال کر دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام بنا دیا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 3349 ، كتاب العتق: باب فيمن أعتق عبيدا له لم يبلغهم الثلث ، ابو داود: 3958 ، احمد: 341/5 ، نسائي: 6249 – الكبرى]
➍ حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو شهدته قبل أن يدفن لم يدفن فى مقابر المسلمين
”اگر میں اسے دفن کرنے سے پہلے حاضر ہوتا (جس نے وفات کے وقت اپنے سارے غلام آزاد کر دیے تھے ) تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دفن کیا جاتا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3351 ، كتاب العتق: باب فيمن أعتق عبيدا له لم يبلغهم الثلث ، أبو داود: 3960]
(نوویؒ) اگر ورثاء فقیر ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ثلث سے بھی کم مال میں وصیت کی جائے اور اگر غنی ہوں تو پھر مستحب نہیں ہے ۔
[شرح مسلم: 89/6 – 90]
اگر کوئی وارث ہی نہ ہو
تو کیا پھر ثلث سے زائد مال میں وصیت کی جا سکتی ہے اس مسئلے میں اختلاف ہے:
(جمہور ) ثلث سے زائد مال میں وصیت کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ۔
(احناف ) اِس صورت میں ثلث مال سے زائد میں بھی وصیت جائز ہے کیونکہ قرآن میں مطلق طور پر وصیت کا ذکر ہے پھر سنت نے اسے اُس کے لیے مقید کر دیا جس کا وارث ہے اور جس کا وارث نہیں ہے وہ قرآن کے اطلاق پر ہی باقی رہے گا ۔
[الأم: 36/4 ، المهذب: 451/1 ، حاشية ابن عابدين: 656/6]
لیکن قرض کو پہلے ادا کرنا واجب ہے جو شخص قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑے تو حاکم وقت بیت المال سے اسے ادا کرے گا
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم قضى بالدين قبل الوصية
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے ۔“
[بخارى: قبل الحديث / 2750 ، كتاب الوصايا: باب تاويل قوله تعالى: من بعد وصية يوصى بها أودين]
➋ حضرت سعد بن أطول کا بھائی فوت ہوا تو اس نے تین سو درہم اور اہل و عیال پیچھے چھوڑے ۔ سعد کہتے ہیں کہ میں نے ان درہموں کو اس کے گھر والوں پر خرچنے کا اراداہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أخاك محتبس بـديـنـه فاقض عنه
”بیشک تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے قید کیا گیا ہے تو اس کی طرف سے ادا ئیگی کر دے ۔“
انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ادا کر دیے ہیں صرف ایک عورت نے دیناروں کا دعوی کیا ہے لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فاعطها فإنها محقة
”اسے ادا کر دو کیونکہ وہ حقدار ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1973 ، كتاب الأحكام: باب أداء الدين عن الميت ، احمد: 136/4 ، ابن ماجة: 2433]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من خلف مالا أو حقا فلورثته ومن خلف كلا أو دينا فكله إلى ودينه إلى
”جس نے کوئی مال یا حق پیچھے چھوڑا وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے اور جس نے کوئی بوجھ یا قرض چھوڑا تو اس کا بوجھ میری طرف ہے اور اس کا قرض بھی میری طرف ہے ۔“
[بخاري: 5371 ، 2298 ، كتاب النفقات: باب قول النبى صلی اللہ علیہ وسلم من ترك كلا أو ضياعا فإلى ، مسلم: 1619 ، ترمذي: 1070 ، نسائي: 66/4 ، احمد: 330/3 ، ابو داود: 3343 ، موارد الظمآن: 1162 ، دار قطني: 79/3]
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں احادیث مروی ہیں ۔
[بيهقي: 73/6 ، دار قطني: 78/3 ، مجمع الزوائد: 332/5 ، تلخيص الحبير: 48/3]