وصیت سے متعلق فقہی مسائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

وصیت سے متعلق فقہی مسائل
❀ کافر کی وصیت اچھے کاموں میں بھی بے سود ہے اس لیے اس کی تنفیذ واجب نہیں ۔
[حسن: صحيح ابو داود: 2507 ، كتاب الوصايا: باب ما جاء فى وصية الحربي يسلم وليه ، ابو داود: 2883 ، احمد: 181/2]
❀ کسی کے حق میں خلافت کی وصیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔
[بخاري: 7218 ، كتاب الأحكام: باب الاستخلاف ، مسلم: 1823]
❀ وصی کے لیے اپنے ذاتی مال سے میت کا قرض ادا کر دینا بھی درست ہے ۔
[نيل الأوطار: 117/4 ، احمد: 136/4 ، ابن ماجة: 2433 ، طبراني كبير: 57/6 ، بيهقي: 142/10 ، الدو لابي في الكنى: 135/1 ، عبد بن حميد: 305 ، ابن سعد: 40/7]
❀ أقارب میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔
[بخارى: 2753 ، كتاب الوصايا: باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب]
❀ جسے یتیم کے مال کی وصیت کی جائے وہ اس کے مال سے معروف طریقے سے کھا سکتا ہے جب کہ وہ حاجتمند ہو ۔
[بخاري: 2764 ، 2765 ، كتاب الوصايا: باب وما للوصى أن يعمل فى مال اليتيم]
❀ حمل (جو بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہے ) کے لیے وصیت کرنا درست ہے ، بشرطیکہ وصیت کے وقت حمل متحقق ہو چکا ہو ۔
[الدر المختار: 462/2/5 ، الشرح الصغير: 581/4 ، مغنى المحتاج: 40/3 ، المهذب: 451/1 ، المغنى: 56/6]
❀ فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کے لیے وصیت کی جا رہی ہے وہ معلوم و معین ہونا چاہیے خواہ ایک شخص ہو یا جماعت لیکن جس چیز کی وصیت کی جا رہی ہے اس کا معلوم ہونا شرط نہیں ہے جیسا کہ مال کے ایک (غیر معین ) حصے کی وصیت کر جانا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 7521/7 ، بدائع الصنائع: 356/7 ، القوانين الفقهية: ص / 406 ، المهذب: 452/1 ، غاية المنتهى: 363/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے