وتر کا طریقہ
عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفصل بين الشفع والوتر بتسليم يسمعنا
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وتر کی) جفت (دو) اور وتر (ایک) رکعت کو سلام کے ساتھ جدا (علیحدہ) کرتے تھے اور یہ سلام ہمیں سناتے تھے، یعنی اونچی آواز سے سلام کہتے تھے۔ [صحیح ابن حبان الاحسان: 70/4 ح 2426]
فوائد
(1)اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تین رکعات وتر پڑھنے کا یہ طریقہ ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیر دیں اور پھر ایک علیحدہ رکعت پڑھیں۔
(2)جن روایات میں ثم يصلي ثلاثا پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے، [254/1 ح 738]
ان کا مطلب یہ ہے کہ دو علیحدہ اور ایک علیحدہ پڑھتے تھے۔ دلیل کے لیے دیکھیے صحیح مسلم (254/1 ح 736) يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة یعنی آپ گیارہ رکعات اس طرح پڑھتے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے اور آخر میں ایک وتر پڑھتے تھے۔
(3)جن مرفوع روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے، وہ سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔ بعض میں قتادہ مدلس ہے۔ تاہم اگر کوئی ان ضعیف روایات پر عمل کرنا چاہے تو دوسری رکعت میں تشہد کے لیے نہیں بیٹھے گا، بلکہ صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لیے بیٹھے گا، جیسا کہ السنن الکبری بیہقی میں قتادہ کی روایت میں ہے۔ زاد المعاد (330/1) اور مسند احمد ( 155/6-156) والی روایت لا يفصل فيهن یزید بن یعفر کے ضعف اور حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ (دو علتوں) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(4)دو تشہد اور تین وتر والی مرفوع روایت بلحاظ سند موضوع و باطل ہے۔ [دیکھیے الاستیعاب /4471 ترجمہ ام عبد بنت اسود اور میزان الاعتدال]
اس کے بنیادی راوی حفص بن سلیمان القاری اور ابان بن ابی عیاش ہیں، دونوں متروک و متہم ہیں۔ نیچے کی سند غائب ہے اور ایک مدلس کا عنعنہ بھی ہے۔ اتنے شدید ضعف کے باوجود ”حدیث اور اہل حدیث“ کے مصنف نے اس موضوع روایت سے استدلال کیا ہے۔ [دیکھیے کتاب مذکور ص 563 طبع مئی 1993ء]