والدین کی اجازت اور جہاد: حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

جہاد میں شریک ہونے کے لیے والدین کی اجازت کا شرعی طور پر مسئلہ کیا ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے واضح کریں۔

جواب :

جہاد میں شرکت کے لیے والدین کی اجازت کے متعلق دو طرح کی احادیث موجود ہیں، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ “اس نے کہا: ”ہاں!“ آپ نے فرمایا:”پھر انھی میں جہاد کرو۔“
(بخاري، كتاب الجهاد، باب الجهاد بإذن الأبوين 3004)
اسی طرح عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا، اس نے پوچھا: ”سب سے افضل عمل کیا ہے ؟“ آپ نے فرمایا:”نماز پڑھنا ۔“ اس نے کہا: ”پھر کیا ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”جہاد کرنا ۔“ تو اس نے کہا: ”میرے والدین ہیں۔“ آپ نے فرمایا: ”میں تجھے والدین کے ساتھ خیر کا حکم دیتا ہوں۔“ اس نے کہا:
والذي بعثك بالحق، لئن فعلت ذلك لأجاهدن، ولا تركتهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنت أعلم
(مسند أحمد 2/182، ح: 1902) ، (ابن حبان: 1722)
”اس ہستی کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ! میں ضرور جہاد کروں گا اور انھیں ضرور چھوڑ کر جاؤں گا ۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”پھر تو بہتر جانتا ہے۔“
اہل علم نے ان دونوں احادیث کے متعلق دو قسم کی توجیہ بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”دونوں احادیث میں موافقت کرنے والی صورت یہ ہے کہ یہ فرض عین جہاد پر محمول ہے، یعنی جب جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت نہیں ۔ “
(فتح الباری 141/6)
دوسری توجیہ یہ ہے کہ والدین کی اجازت والے مسئلہ کو امام یا شرع کے مکلف آدمی کے سپرد کر دیا جائے ، اب دونوں صورتوں میں مصلحت جس کا تقاضا کرے اسے مقدم کرنا واجب ہے۔ انصار و مہاجرین جہاد کرتے تھے اور ہم نے ذخیرہ احادیث میں سے کسی بھی حدیث میں نہیں دیکھا کہ وہ ہر غزوہ میں والدین کی اجازت کا التزام کرتے ہوں۔
(حاشیہ الروضة الندية 333/2 طب جدید محقق 719/2)
ہمارے نزدیک یہ دوسری توجیہ زیادہ وزنی ہے، اس لیے کہ دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے آپ کو جہاد کے لیے اپنے امام اور قائد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے ان کا فیصلہ کیا اور ابن حبان کی صحیح حدیث کے مطابق یہ بات ہے کہ جب مجاہد صحابی نے والدین کو چھوڑ کر جہاد پر جانے کا عزم کیا تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اسے ڈانٹا یا منع نہیں کیا، بلکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا اور فرمایا: ” تو اپنی حالت کو بہتر جانتا ہے۔“ اس لیے اگر کوئی شرع کا مکلف آدمی اپنے گھریلو حالات کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لے کہ وہ جہاد پر جانا چاہتا ہے تو والدین کی اجازت کے بغیر بھی جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے