سوال نمبر2: فتوی نمبر:(1328):
س 2: کیا کسی مسلمان کے لئے بارگاہِ الہی میں انبیاء وصالحین کو توسل كرنا جائز ہے، كيونکہ مجھے بعض علماء کا قول پتا چلا ہے: کہ اولیاء کو وسیلہ بنانے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ اس میں دعاء اللہ سے ہے اور بعض کو میں نے بالکل اس کے برعکس کہتے سنايا، اس مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
ج 2: ولی: ہر شخص جو اللہ پر ایمان لائے اور اس سے ڈرے اور ہر اس چیز کو بجا لائے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ہر اس چیز سے باز رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، اور ان سب کے سردار اللہ کے رسول اور انبیاء عليهم الصلاة والسلام ہیں، الله تعالى نے فرمايا: ﯾﺎﺩﺭﻛﮭﻮ الله کے ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﮧﻛﻮﺋﯽﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔(62)ﯾﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ( ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ) ﭘﺮﮨﯿﺰ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 499)
بارگاہِ الہی میں اولیاء کو توسل كرنے کی کئی قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ ہے کہ کوئی شخص کسی زندہ ولی سے دعا کی درخواست کرے کہ وہ اس کے لئے وسعتِ رزق شفائے امراض ہدایت یا اس جیسی دعا کرے تو ایسا کرنا جائز ہے، اور بارش کی تاخیر کے وقت بعض صحابہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے لئے دعا کروانا بھی اسی قسم میں داخل ہے، پس آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے رب سے بارش کے لئے دعا کی، اللہ نے آپ کی دعا قبو ل کی اور ان پر بارش برسائی، اور اسی طرح صحابہ کا حضرت عباس سے خلافتِ عمر میں نزولِ بارش کے لئے دعا کا طلب کرنا کہ وہ نزولِ بارش کے لئے دعا کریں تو حضرت عباس نے اپنے رب سے دعا کی اور تمام صحابہ نے آپکی دعا پر آمین کہا … اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس کے بعد کسی مسلمان کا کسی مسلمان بھائی سے دعا کی گزارش کرنا کہ وہ اس کے لئے کسی منفعت یا مصیبت کو دور کرنے کے لئے اللہ سے دعا کرے۔
دوسری قسم: یہ ہے کہ کوئی بارگاہِ الہی میں اپنے نبی اور اس کی تابعداری کرنے والوں کی محبت اور اولیاء اللہ کی محبت کو توسل كر تے ہيں اور يہ کہتے کہ: اے اللہ میں تجھـ سے تیرے نبی اور اس کے فرمان بردار لوگوں سے اپنی محبت اور تیرے اولیاء سے اپنی محبت کے صدقے یہ مانگتا ہوں تو ایسا کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بندے کا اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنانا ہے، اور تین غار والوں کا اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ثابت ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے ۔
تيسری قسم: یہ ہے کہ کوئی اللہ سے اس کے انبیاء اور اس کے اولیاء کا واسطہ دیتے ہوئے یوں کہے کہ: ( اے اللہ میں تجھـ سے تیرے نبی یا فلان ولى کے جاه سے توسل کرتا ہوں)
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 500)
تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اولیاء اللہ کا وسیلہ اگرچہ اللہ کے ہاں عظیم ہے اور خاص طور پر ہمارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیکن یہ کوئی دعا کی قبولیت کا شرعی یا عادی سبب نہیں ہے، اور اسی لئے صحابہ جب قحط میں مبتلا ہوئے تو برسات کے لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کو چھوڑ کر آپ کے چچا عباس کے وسیلے کو اپنایا باوجود اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہر وسیلے سے اعلی ہے، اور صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو وسیلہ بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا جب کہ وہ بہترین زمانے والے تھے اور لوگوں سے زیادہ آپ کا حق جانتے تھے اور لوگوں سے زیادہ آپ سے محبت کرتے تھے۔
چوتهی قسم: یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رب سے اپنی حاجت طلب کرتے ہوئے اس کے ولی یا نبی یا کسی نبی یا ولی کے حق کو توسل كرتے اور یوں کہتے کہ: ( اے اللہ میں تجھ سے تیرے فلاں ولی یا تیرے فلاں نبی کے حق کو وسیلہ بناتے ہوئے سوال کرتا ہوں )، تو ایسا کرنا ناجائز ہے، کیونکہ مخلوق کی مخلوق پر قسم کھانا ممنوع ہے، اور اللہ پر ایسی قسم کھانا جو کہ خالق پر شدید منع ہے، پھر مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں فقط اس کی اطاعت بجالانا ہے یہاں تک کہ اللہ پر کسی کی قسم کھائے یا کسی کو توسل كرتے، یہ وہ حکم ہے جس پر دلائل گواہ ہیں، اور اسی کے سبب اسلامی عقائد محفوظ ہیں اور اسی کے ساتھـ شرک کے تمام راستوں کو بند کیا گیا ہے۔
وبالله التوفيق . وصلى الله على نبينا محمد ، وآله وصحبه وسلَّم .
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر:عبد اللہ بن منیع
ممبر: عبد اللہ بن غدیان
نائب صدر برائے کمیٹی: عبدالرزاق عفیفی
صدر: عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
نوٹ: اس فتوے کا عربی متن سعودی عرب کی سرکاری فتوی ویب سائٹ پر دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں:
السؤال الثاني من الفتوى رقم ( 1328 ):
س2: هل يجوز للمسلم أن يتوسل إلى الله بالأنبياء والصالحين، فقد وقفت على قول بعض العلماء: أن التوسل بالأولياء لا بأس به؛ لأن الدعاء فيه موجه إلى الله ورأيت لبعضهم خلاف ما قال هذا، فما حكم الشريعة في هذه المسألة؟
ج2: الولي: كل من آمن بالله واتقاه ففعل ما أمره سبحانه به وانتهى عما نهاه عنه، وعلى رأسهم الرسل والأنبياء عليهم الصلاة والسلام، قال تعالى: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
( الجزء رقم : 1، الصفحة رقم: 499)
والتوسل إلى الله بأوليائه أنواع:
الأول: أن يطلب إنسان من الولي الحي أن يدعو الله له بسعة رزق أو شفاء من مرض أو هداية وتوفيق ونحو ذلك – فهذا جائز، ومنه طلب بعض الصحابة من النبي صلى الله عليه وسلم حينما تأخر عنهم المطر أن يستسقي لهم، فسأل صلى الله عليه وسلم ربه أن ينزل المطر، فاستجاب دعاءه وأنزل عليهم المطر، ومنه استسقاء الصحابة بالعباس في خلافة عمر رضي الله عنهم وطلبهم منه أن يدعو الله بنزول المطر فدعا العباس ربه وأمن الصحابة على دعائه… إلى غير هذا مما حصل زمن النبي صلى الله عليه وسلم وبعده من طلب مسلم من أخيه المسلم أن يدعو له ربه لجلب نفع أو كشف ضر.
الثاني: أن ينادي الله متوسلاً إليه بحب نبيه واتباعه إياه وبحبه لأولياء الله بأن يقول: اللهم أني أسالك بحبي لنبيك واتباعي له وبحبي لأوليائك أن تعطيني كذا – فهذا جائز؛ لأنه توسل من العبد إلى ربه بعلمه الصالح، ومن هذا ما ثبت من توسل أصحاب الغار الثلاثة بأعمالهم الصالحة .
الثالث: أن يسأل الله بجاه أنبيائه أو ولي من أوليائه بأن يقول: (اللهم إني أسألك بجاه نبيك أو بجاه الحسين ) مثلاً – فهذا
( الجزء رقم : 1، الصفحة رقم: 500)
لا يجوز؛ لأن جاه أولياء الله وإن كان عظيمًا عند الله وخاصة حبيبنا محمد صلى الله عليه وسلم غير أنه ليس سببًا شرعيًّا ولا عاديًّا لاستجابة الدعاء؛ ولهذا عدل الصحابة حينما أجدبوا عن التوسل بجاهه صلى الله عليه وسلم في دعاء الاستسقاء إلى التوسل بدعاء عمه العباس مع أن جاهه عليه الصلاة والسلام فوق كل جاه، ولم يعرف عن الصحابة رضي الله عنهم أنهم توسلوا به صلى الله عليه وسلم بعد وفاته وهم خير القرون وأعرف الناس بحقه وأحبهم له.
الرابع: أن يسأل العبد ربه حاجته مقسمًا بوليه أو نبيه أو بحق نبيه أو أوليائه بأن يقول: (اللهم إني أسألك كذا بوليك فلان أو بحق نبيك فلان)، فهذا لا يجوز، فإن القسم بالمخلوق على المخلوق ممنوع، وهو على الله الخالق أشد منعًا، ثم لا حقّ لمخلوق على الخالق بمجرد طاعته له سبحانه حتى يقسم به على الله أو يتوسل به. هذا هو الذي تشهد له الأدلة، وهو الذي تصان به العقيدة الإِسلامية وتسد به ذرائع الشرك.
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو: عبد الله بن منيع
عضو: عبد الله بن غديان
نائب رئيس اللجنة: عبد الرزاق عفيفي
الرئيس: عبد العزيز بن عبد الله بن باز