نیند میں بچے کی ہلاکت پر والدہ سے قصاص جائز نہیں حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک خاتون رات کو سوئی ہوئی تھی، اس نے کروٹ بدلی تو اس کا دودھ پیتا بچہ اس کے نیچے آ کر فوت ہو گیا، کیا ایسی صورت میں خاتون سے قصاص لیا جائے گا؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔

جواب :

اگر صورت مذکورہ پیش آجائے تو والدہ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، اس کی چند ایک وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بنو مدلج کے ایک آدمی کے گردن پاس باندی تھی۔ اس کا اس باندی سے ایک بیٹا تھا۔ وہ اس سے خدمت لیتا تھا۔ لڑکا جوان ہو گیا تو ایک دن اس آدمی نے اپنی باندی کو بلایا اور اسے کہا اس طرح کام کرو۔ لڑکا کہنے لگا: ”وہ تیرے پاس نہیں آئے گی، یہاں تک کہ تو میری ماں سے مشورہ کر لے۔“ اس کا باپ غصے میں آگیا۔ اس نے اسے تلوار ماری جس سے اس کی ٹانگ کٹ گئی۔ لڑکے کا خون بہا اور وہ مر گیا۔ وہ آدمی اپنی قوم کے چند افراد کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اے اپنی جان کے دشمن! تو نے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے؟ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔“
(المنتقى لابن الجارود ح 788، دار قطنی 3/140-141، بہیقی 38/8)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تلخیص (16/4 ج: 15964) میں لکھا ہے کہ بیہقی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ جب باپ سے قصاص نہیں تو ماں سے بدرجہ اولی قصاص نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ وہ اپنے بچے پر باپ سے زیادہ شفقت کرنے والی ہے۔
قصاص نہ لینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ نیند کی حالت میں اگر کوئی آدمی سونے والے کے ہاتھ سے مارا جائے تو اس سے بھی قصاص نہیں ہو گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتى يستيقظ وعن الصغير حتى يكبر وعن المجنون حتى يعقل أو يفيق
(ابن ماجہ ابواب الطلاق، باب طلاق المجنون والصغیر والنائم ح 2041)
”تین بندوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، سوئے ہوئے سے، یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، چھوٹے بچے سے یہاں تک کہ وہ بڑا ہو جائے اور مجنون سے یہاں تک کہ وہ عقل مند ہو جائے یا اسے افاقہ ہو جائے۔“
لہذا جب سویا ہوا آدمی مرفوع القلم ہے تو اس وجہ سے بھی سونے والے سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء و محدثین نے جرائم پیشہ آدمی سے قصاص کی جو شرائط عائد کی ہیں ان میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس سے قصاص لیا جا رہا ہے اس کی عقل زائل نہ ہو، جیسے مجنون، دیوانہ، بے ہوش یا سویا ہوا۔
(بدایة المجتہد396/2، الشرح الکبیر 350/9، بدائع الصنائع 234/7)
لہذا والدہ سے بچے کے قتل کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (واللہ اعلم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے