سوال:
کیا جس عورت سے شادی کرنی ہو اسے نکاح سے پہلے دیکھ لینا جائز ہے؟ اس کی کتاب وسنت میں کیا دلیل ہے؟
جواب:
شریعت اسلامیہ کی رو سے جب کسی عورت سے شادی کرنے کا عزم کر لیا جائے تو اسے دیکھ لینا جائز ہے اور دیکھنے میں ہاتھ اور چہرہ ہی مقصود ہے، ہاتھ اور چہرے کے علاوہ دیکھنا درست نہیں، جیسا کہ شرح السنہ (18/9) میں مرقوم ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے منگنی کر لے تو اگر اسے استطاعت ہو کہ وہ اس عورت کو دیکھ لے تو ایسا کرے۔“
(ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی الرجل ینظر الی المرأة وهو یرید تزویجها (2082)، حاکم (2/165، ح: 2696))
اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ جب کسی عورت سے نکاح کا عزم کر لیا جائے تو اسے دیکھنا جائز ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ نکاح کا عزم و ارادہ تو نہ ہو، مطلق دیکھنا ہی چاہتا ہو، کیونکہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ”جب کسی آدمی کے دل میں کسی عورت کی منگنی کا خیال ڈال دیا جائے تو وہ اسے دیکھ لے۔“ (فتح العلام: ص 514) اور اگر آدمی کے لیے دیکھنا ممکن نہ ہو، یا خود دیکھنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو کسی عورت وغیرہ کو بھیج کر بھی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ وہ عورت اس مرد کو آکر اس کے اوصاف بیان کر دے۔ جیسا کہ آج ہمارے معاشرے میں رائج ہے کہ لڑکے کی والدہ، بہن، پھوپھی، خالہ وغیرہ رشتہ دیکھنے چلی جاتی ہیں۔ اس کی نظیر یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کو ایک عورت کی طرف بھیجا، تا کہ وہ اسے جا کر دیکھے اور اس کے خدوخال کو ملاحظہ کرے، جیسا کہ مستدرک حاکم (2/176، ح: 2699) میں موجود ہے اور اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے” التلخیص الحبیر“ (3/169) میں اسے بحوالہ طبرانی بھی نقل کیا ہے۔
لہذا جس عورت کے ساتھ شادی کا عزم کر لیا جائے تو نکاح کرنے سے قبل آدمی خود ایک نظر دیکھ لے، اگر ایسا موقع ملنا میسر ہو، یا اپنی والدہ، بہن، پھوپھی، خالہ وغیرہ کو بھیج کر معلومات حاصل کر سکتا ہے، اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں، لیکن اگر عزم نکاح نہ ہو، صرف خواہشات نفسانی پر مبنی عادت ہو تو ایسے آدمی کے لیے دیکھنا قطعاً جائز نہیں۔